باب ۱۴=درسی کتابوں کا طریقۂ تدریس (اشارات)
’’درسی کتابیں اگر سمجھ کر پڑھ لی جائیں،تو پھر کسی اِشکال کے جواب میں باہر جا نے کی ضرورت نہیں۔اِن میں سب کچھ ہے یہ ایسا قلعہ ہے کہ اِس میں ہر قسم کی رسد جمع ہے۔کھانا پینا بھی،ہتھیار بھی،گو لا بارود بھی۔اور درسی کتابیں پڑھ کر اگر کسی کو دوسرے علوم کی ضرورت اور محتاجی ہو،تو اس کی وجہ یہ ہے کہ کتابیں سمجھ کر نہیں پڑھی جاتیں۔‘‘(حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ )
ارشاد:حضرۃالاستاذعارف با ا ﷲ مولانا صدیق احمد صاحب رحمہ ا ﷲ )
۱۴۰۳ھ کی بات ہے،مدرسہ جامعہ عربیہ ہتورا میں حضرت رحمہ ا ﷲ نے قطبی پڑھاتے وقت فرمایا تھا کہ:
’’ منطق کے بغیر آدمی درسیات پڑھا نہیں سکتا اور اگر پڑھائے گا،تو حق ادا نہیں کرے گا۔‘‘
اور یہ بات میرے سوال پر فرمائی تھی۔میں نے عرض کیا تھا کہ حضرت!اِن فنون کے داخلِ درس ہو نے سے کیا نفع ہے ؟کہ حدیث ،تفسیر،فقہ ،اصول فقہ، اصول تفسیر وغیرہ علوم مقصودہ سے وقت بچا کر اِن میں کھپایا جاتا ہے ؛جب کہ بیرون مدرسہ ما حول و معاشرے میں کبھی اِن کا کام نہیں پڑتا۔’’جزء الجزء جزء لہ‘‘اور’’لازم اللازم لازم لہ‘‘کا محاورہ اور اصول ، کوئی بھی نہیں سمجھتا ۔’’سلبِ دوام کلی اور دوام السلب الکلی‘‘ کا فرق و تمیز لوگوں کے ذہنوں کو اپیل نہیں کرتی۔ اِفہام و تفہیم کے لیے بازار علوم جدیدہ میں یہ سکہ بالکل کھوٹا معلوم ہو تا ہے۔میرے اِس سوال پر حضرت نے نگاہ اوپر اٹھائی جو اِس سے پہلے کتاب ’’قطبی‘‘پر مرتکز تھی،میری طرف دیکھا ، مذکورہ جواب ارشاد فرمایا اور اپنے خاص انداز میں تبسم فرمایا ۔آج یہ واقعہ لکھتے ہوئے دل بھر آیا؛ اُس وقت کا منظر نظروں میں اِس طرح پھر گیا کہ جیسے کل کی با ت ہو۔حضرت کے مذکورہ جواب کے بعد پھر کبھی وسوسہ پیدا نہیں ہوا۔....درسیات میں فنون کی اہمیت کو سمجھنے والا میں نے حضرت سے زیادہ کسی اور کو نہیں پایا۔