باب۱۰=معقولات اور فلسفہ کی ضرورت از. الامام محمد قاسم نا نوتویؒ
الامام محمد قاسم نانوتویؒ نے نصوص کی فہم و تفہیم کے لیے مختلف علوم و فنون کے تناظر میں علم منطق اور معقولات و فلسفہ کی ضرورت و اہمیت پر ایک نہایت مکمل اور عمدہ گفتگو فرمائی ہے،اور اِس حوالہ سے معاصرین کے اِشکالات کو دفع کیا ہے۔یہ گفتگو بڑی اہم ہے،اوربدلتے حالات میں مدارس کی تر جیحات کی تعیین میں کلیدی حیثیت کی حامل ہے ۔دور حاضر میںاِس کی ضرورت اور اِطلاقی حیثیت اس لیے قائم ہے کہ حضرت نانوتویؒ کے زمانہ میں،اِن فنون کے حوالہ سے جو اِشکالات تھے،وہی اِشکالات آج بھی ہیں ،اور جو داعیہ معقولات کی طرف توجہ کے باب میں عصرِ نانوتوی میں تھا،وہی دواعی آج بھی موجود ہیں؛کیوں کہ ہم پہلے ہی دلائل وا شواہد کے ساتھ یہ بات ثابت کر چکے ہیں کہ بیسویں اور اکیسویں صدی عیسوی کے افکار، مسائل اور مذہبِ اسلام سے مزاحمت کے اصول انیسوی صدی کا ہی توسیعہ ہیں۔اس لیے حضرت نانوتویؒ کے مذکورہ مضمون کو، اس کی افادیت و اہمیت کے پیش نظر الفاظ کو محفوظ رکھتے ہوئے، اُس کا ملخص ،ذیلی عنوانات کے اِضافہ اور کسی قدراپنی توضیحات کے ساتھ یہاںپیش کیا جا رہا ہے۔علم صرف ونحو،ادب ، معانی،بیان و بدیع اور علم منطق ومعقول کی ضروت،اور اِن کی باہمی نسبت پر کلام کرتے ہوئے فر ماتے ہیں:
{’’صرف و نحو تو اوضاعِ صیغہائے مختلفہ اور مدلولاتِ اِضافاتِ متعددہ مثل فاعلیت و مفعو لیت میں محتاج الیہ ہیں۔
....(جہاں تک ۔ف)علم ادب (کی بات ہے،تو وہ۔ف) اطلاعِ لغات و صلات و محاورات میں مفید۔‘‘ ہیں،
اورعلم معانی،بیان و بدیع’’قدر شناسی ِ فصاحت و بلاغت یعنی حسنِ عبارتِ قرآن و حدیث میں کارآمد ‘‘ہیں؛جب
کہ’’علم منطق کمالِ استدلال و دلائلِ خدا وندی و نبوی ﷺ میں نافع‘‘ہیں۔}
مطلب یہ کہ اگر صرف و نحو و ادب سے عبارت کی فہم حاصل ہو تی ہے، علم بلاغت سے عبارت کے حسن نیز اُس کے معانی کا ادراک ہوتا ہے،تومنطق سے خوبیِ اِستدلال کا ہنر پیدا ہو تا ہے۔
{ ’’اور ظاہر ہے کہ جو نسبت عبارت و معانی میں ہے(یعنی صرف و نحو و ادب کو جو نسبت علمِ بلاغت سے ہے۔ف)
،وہی نسبت حسنِ عبارت اور خوبیِ استدلال میں(یعنی بلاغت اور منطق میں۔ف)ہوگی؛کیوں کہ وہ(بلاغت۔ف