’’جو شخص علوم آلیہ کو حاصل کیے ہوئے ہو تب قرآن و حدیث کو سمجھ سکتا ہے۔اب جا ہلوں کی اصطلاح کو کلام میں ٹھونس کر کام نکالنا چاہتے
ہیں جس سے بالکل غیر ممکن ہے کہ حقیقت کا انکشاف ہو سکے۔اور اِن علوم کے ساتھ اِس اِنکشاف کے لیے ذوق کی بھی ضرورت ہے،اور ذوق بدوں کسی کامل کے پیدا نہیں ہو سکتا۔‘‘
ولا یُنَازِعُنَّکَ فی الامر
نصابِ قدیم وجدید کی آویزش کا نتیجہ
ہم نے اپنے اِس مضمون میں نصاب تعلیم کی تبدیلی و اصلاح کی بات علامہ شبلی کی نصاب تعلیم پر کی گئی تنقید سے شروع کی تھی۔علامہ شبلی کے بعد اصلاحِ نصاب کی جانشینی علامہ سید سلیمان ندویؒ کی طرف منتقل ہوئی۔اور مسلسل ۳۳ سال تک(۱۹۰۷ تا۱۹۳۹) ،وہ معقولات کے انخلاع کی صدا بلند کرتے رہے ؛لیکن تھک ہار کر اُن کو یہ کہنا پڑا کہ:
’’تنقید کے شور و غل سے پرا نے علوم کی طرف سے توجہ ہٹ گئی،مگر نئے علوم کی تعلیم کا سامان نہ ہو سکا۔غرض یہ بھی گیا،وہ بھی گیا۔اب قدیم
منطق و فلسفہ اور قدیم ہیئت وریا ضیات کا شوق نہیں رہا۔اورنئی منطق،نیا فلسفہ،نئی ہیئت اور نئے ریا ضیات و طبعیات کی تعلیم بھی نہ دی جا سکی؛
نتیجہ یہ ہے کہ اب ہما را مو لوی اِن سے بھی عاری نکل رہا ہے،اور اُن سے بھی۔‘‘(معارف۱۹۳۸ء)
درسیات میں نئے علوم کی شمولیت کے تو ہم پہلے ہی قائل نہیں تھے؛البتہ علامہ کی یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ ’’تنقید کے شور و غل سے پرا نے علوم کی طرف سے توجہ ہٹ گئی،‘‘اس لیے’’اب قدیم منطق و فلسفہ اور قدیم ہیئت وریا ضیات کا شوق نہیں رہا۔‘‘اِس سے جو کچھ حالات پیدا ہوئے اور جس قسم کے فارغین نکلے،اور اُن کے علم میں تبحر وتعمق نہ ہونے اورعقل و نقل کی جامعیت نہ ہونے سے افکار فاسدہ اور خیالاتِ باطلہ کو پنپنے کا جس طرح موقع ملا ،اُس کے نمونے ہم پیش کر چکے ۔
خرابی کااصل سبب بزرگوں کے طریق سے بے نیازی
اور سبب بھی بتلا چکے ہیں کہ ایسا اس لیے ہوا کہ قدیم نصاب تعلیم کے حاملین کو درسیات ہی کے ذریعہ اپنے بڑوں کے طریقہ پرفہمِ دین حاصل کرنا چا ہیے تھا۔پھرفہمِ دین حاصل کرنے کے بعد بھی ضروری تھا کہ ہر بات میںنظر اپنے بزرگوں کے طریق پر رہتی۔حکیم ا لامت حضرت تھانویؒ کا یہ ملفوظ چونکا دینے والا ہے،فرماتے ہیں کہ:’’میں جو کتاب دیکھتا ہوں تو بوجہِ غیر محقق ہو نے کے اصل نظر اپنے بزرگوں کے طریق پر رہتی ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد ۱،ص ۲۷)
ہم نے علامہ سید سلیمان ندویؒ کا مذکورہ قول حضرت مولانا سعید احمد صاحب پالن پوری مد ظلہ کے سامنے ذکر کے عرض کیا کہ مدارس سے فارغ ہونے والوں کی صورتِ حال ،اب مسلسل یہ سامنے آرہی ہے کہ معقولات،فلسفہ اور علم کلام کے تعلق سے ،وہ قدیم جانتے ہیں ،نہ جدید۔فرمایا کہ ہاں بات یہی ہے۔ غطریف شہباز ندوی نے اپنے سفرِ دیوبند میںحضرت مولانا سعید احمد صاحب پالن پوری مد ظلہ کا یہ قول بھی ذکر کیا ہے،کہ انہوں نے فرمایا : ’’مولانا بنوری کی تنقید مجھے پسند نہیں آئی۔جو اِس درس کے متون ہیں وہ ازبر یاد کرنے کے لیے ہیں۔‘‘(افکار ملی،مئی۲۰۱۶ء ص۳۹) ۔