باب ۱۱=معقولات اور فلسفہ کی تعلیم اورزمانۂ حال کے اربابِ درس کا اضطراب
اب ایک بات یہ رہ جاتی ہے کہ درسیات میں داخل کتابیں، پڑھنے پڑھانے والوں سے نبھ نہیں پا رہی ہیں۔چناں چہ مولانا اعجاز صاحب رحمہ ا ﷲنے معقولات کی تدریس کاسالہا سال تجربہ رکھنے کے بعد اپنے تجربات کا ماحصل یہ پیش کردیا کہ:
اضطراب اعجازی:
(۱)’’منطق و فلسفۂ قدیم کا فن اب۔ تقریباً خاج از بحث ہے۔‘‘
(۲)’’شرحِ تہذیب،قطبی،سلم العلوم اور میبذی،یہ سب کتابیں اِس طور سے پڑھی اور پڑھائی جا تی ہیں کہ استاذ بھی شاید یہی سمجھتا ہے کہ
یہ پڑھانے کی چیزیں نہیں ہیں۔ اور طالب علم تو ابتدائً ہی فرض کر لیتا ہے کہ اِن کتابوں کا کوئی تعلق سمجھنے سے نہیں ہے۔اِن کتابوں
کے پڑھنے پڑھانے میں وقت کے ساتھ دماغ کا بھی ضیاع ہے۔‘‘
جہاں تک پہلی بات کا تعلق ہے،تو اِس باب میں ’’ معقولات اور فلسفہ کی ضرورت:افکار جدیدہ کے تناظر میں‘‘کے تحت، قدیم وجدید کی گفتگو سے ہم فارغ ہو چکے ہیں،دونوں کا فرق ظاہر کر چکے ہیں اور دور حاضر میںافکار ِ اہلِ حق کے تحفظ کے لیے کس کی کتنی ضرورت ہے(قدیم کی یا جدید کی)،وہ بھی بتلا چکے ہیں۔
رہا مولانا کہ یہ تبصرہ کہ ’’اِن کتابوں کے پڑھنے پڑھانے میں وقت کے ساتھ دماغ کا بھی ضیاع ہے۔‘‘ اِسے پڑھنے کے بعد یہ خیال کرکے کہمولانا نے علامہ شبلی نعمانی کا رد لکھا ہے ،نصابِ تعلیم کے حوالہ سے بھی علامہ کا تعاقب کیا ہے،نیزدورِ حاضر کے مشہورمفکر جناب سلمان حسینی ندوی کے ذریعہ کہی گئی اِس قسم کی بات کی جو اصل ہے’’ وحدتِ علم‘‘جس کا مشہور عنوان’’علم ایک اکائی ہے‘‘،اُس کی بھی سخت طریقہ سے تردید کی ہے؛پھر ایک فرعی مسئلہ میں ہر دو حضرات کی موافقت کیسے کر گئے؟ تعجب ہوا؛پھر سمجھ میں یہ آیا کہ یہ بڑا اہم مسئلہ ہے ۔اور یہ مو لانا ہی کا نہیں؛اِس وقت درسیات کے حاملین کا عام طور پریہ ایک اہم مسئلہ ہے،بعضوں نے تو مذکورہ تمام چیزیں اپنے یہاں سے نصاب بدر کر رکھی ہیں،اور اس کے بعد بھی خود کو فکرِ قاسم کی طرف ہی منسوب کرتے ہیں۔جہاں نصاب بدر نہیں کی گئیں ،وہاںاِس حوالہ سے مدرسین اور طلبائے علوم دین پر ایک افسردگی کی کیفیت رہتی ہے۔ایک ذی اِستعداد مدرس جو تیس سال کا تدریسی تجربہ رکھتے ہیں،اور پچیس سال سے اُن کے پاس شرح عقائد ہے۔اُن سے بے تکلفی ہے،اِسی موضوع پر کچھ گفتگو ہونے لگی ،دورانِ گفتگو انہوں نے کھل کر یہ کیفیت ظاہر کردی کہ شرح عقائد پڑھانے میں دشواری یہ آرہی ہے کہ جو مخاطب ہو تے ہیں وہ میبذی سمجھے ہوئے نہیں ہو تے ،اور جو میبذی پڑھ کر آتے ہیں،اُن کے سامنے میبذی اور شرح عقائد دونوں کے مجموعے کے ساتھ جو فلسفہ اور علم کلام کی گفتگو آتی ہے ،طلبہ کو تو جا نے دیجئے،خود میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ اِن کتابوں سے موجودہ زمانہ میں پھیلے ہوئے فکری مسائل کا کوئی کلامی حل نہیں مل پا تا۔ مدرسین کا یہ وہ احساس ہے جسے بغیر کسی لاگ لپیٹ کے مولانا اعجاز صاحب رحمہ ا ﷲ نے مذکورہ بالا الفاظ میں ظاہر فرما کر یہ فیصلہ کر دیا کہ:
(۳)’’میبذی تو بالکل لغو کتاب ہے۔‘‘(مدارس اسلامیہ :مشورے اور گزارشیں ص۶۰)
مولانا کی تدریسی لیاقت،قابلیت اور زمانہ کے فتنوں کے تعاقب میں اُن کے اشہبِ قلم کے دمکتے رو پ،اور خود فلسفہ وعلم کلام پر جو اُنہیں عبور حاصل تھا،اُس کی شہادت کے لیے اُن کے رشحاتِ قلم کے صرف دو نمونے کافی ہیں؛ایک اردو زبان میں لکھی گئی میبذی کی تلخیص،دوسرے وہ مضامین جو کسی سائل کے جواب میں صفاتِ باری تعالی کے باب میں تحریر کیے گئے ہیں۔اِس لیے اُن کی را ئے تقبیحِ نا شناس کے زمرے میں شامل نہیں ہو سکتی۔لیکن اِس کے باوجود میبذی کے باب میں اُن کی مذکورہ رائے ،درج ذیل وجوہ سے قطعاً قابلِ التفات نہیں ہو سکتی:
اضطراب اعجازی کی توجیہ:
(۱) فلسفہ میں جو مسائل مذکور ہیں ،اُس کے وہ اِطلاقی پہلو اُس حیثیت سے اُن کے سامنے نہ آسکے ہوںجس کے وہ مقتضی ہیں،اور