معصوم ہیں جب تک وہ جرم ثابت نہ ہو جا ئیں۔عورت کی لذت شریعت کی پابندیوں پر غالب آگئی۔‘‘اِن خیالات کے تحت جو ذہن پیدا ہوا،اُس نے ’’جدید انسان‘‘(Modern man) کی تشکیل کی۔یہ جدید انسان خوبصورتی کا دلدادہ، شہرت کا بھوکا،اورانفرادیت پسند تھا،تواضع کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتا تھا۔فنون لطیفہ میں وہ اب محض سادہ فنکار نہیں رہ گیا تھا جو بے نام رہ کر اجتماعی طریقے پر اپنی فنکاری کا مظاہرہ کرتا جیسا کہ عہدِ وسطی میں ہوتا رہا تھا۔اب وہ ایک منفرد اور علٰحدہ شخصیت تھا ۔(عالم اسلام کی اخلاقی صورتِ حال از اسرار عالم ۔۵۶تا ۷۱)
اِسی ’’انسانیت ‘‘کی فکر اور تصور کو لے کر ،جب علوم و فنون میں کاوش کی گئی تو اُن’’ کے ما بعد الطبیعاتی پہلؤ ںکو نظر انداز کیا گیا اوراُن کو صرف دنیاوی مفاد اور بہبود کا ذریعہ بنایا گیا۔‘‘ دنیوی مسرت و خوش حالی کی فراہمی عقل کا فریضہ ٹھہرا۔عقل کی مدد سے قدرت کے منصوبوں کو دریافت کرنا اور انسان کا ایک پیدائشی حق، کہ وہ دنیا میں خوش رہنے کے لیے آیا ہے نہ کہ اپنے گناہوں پر پشیمان ہونے،اوررنج کی زندگی گزار نے، حق کو صاحب حق تک پہنچا نے کی غرض سے انسان کے لیے، دنیوی خوشی و خوش حالی فراہم کرنا،اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کے لیے بڑی سے بڑی مسرت کی تلاش مقصودزندگی قرار پایا ۔انسان کے اپنے مفادات کے لیے ، اُسے یہ حق دیا گیا کہ وہ خدائی قوانین کی مداخلت کے بغیرمعاشرت اور سیاست کا نظام چلانے کے لیے اپنے قوانین تجویز کرے ۔’’عوام کی حکومت،عوام کے ذریعے عوام کے لیے ‘‘کے فارمولے کے تحت عوام کا فہم و موقف فیصلہ کن قرا پایا۔اورجن چیزوں کو عوام الناس نے سراہا،اُس کو حقیقت سمجھا جانے لگا۔ روایتی طریقے،مذہبی عقیدے ، دینی احکام اوردینی شخصیات بے اعتبار ؛بلکہ لائق تنقید و تضحیک ٹھہریں۔قدیم نظریے اور تصورات تنزل پذیر ہوتے چلے گئے۔مذہب،مذہبی احکام اور عبادات وغیرہ کوفرد کا ذاتی معاملہ باور کراگیا اور اُنہیں تبھی تک قابلِ گوارا سمجھا گیا جب تک کہ یہ انسان کے بنا ئے ہوئے ’’انسانیت‘‘ کے اصولوں کی خلاف ورزی نہ کریں، قوم اور ملک کی دنیوی ترقی میں رکاوٹ بننے کا خطرہ پیدا نہ کریں۔(دیکھئے نظریۂ فطرت ص۱۴۸تا ۱۵۰)تہذیب جو روایات اور قدروں پر مبنی ہوا کرتی تھی،اُس کا تصور اب نیچر سے وابستہ ہو گیا۔
۲-ب= نیچریت کا مفہوم و مصداق اور متعدد شکلیں
جہاں تک نیچریت کا تعلق ہے تو سائنسی عقیدہ کے تحت اِس کا تصوریہ ہے کہ:
’’مادہ کی حرکت و حرارت سے نظام عالم قائم ہے۔نیچرل یا طبعی قوانین(Natural or Scientific laws)اِس کے نظم کو بحال رکھتے ہیں۔‘‘نیچر یا فطرت کے اِن قوانین میں تبدیلی نہیں ہو سکتی۔سائنس نے چوں کہ فطرت کے رازہائے سر بستہ کو کھولا ہے؛اس لیے وہی علم ،حقیقت اور صداقت کا مصداق بن سکتا ہے جو سائنس سے حاصل کیا جا ئے۔یعنی ’’نیچریت اس اعتقاد اور یقین کا نام ہے کہ ہر شی اپنی طبعی خصوصیات اوراسباب کے تحت ہی ظاہر ہوتی ہے۔اس کے علاوہ ما ورائے طبعیات اور روحانی توجیہات سرے سے قابلِ التفات ہی نہیں۔یہ نیچر ،عالم کی ہر شی میں پا یا جا تا ہے،خود انسان کے اندرون میں یہی نیچر ہوتا ہے جو خیر وشر کا فیصلہ کرتا ہے۔ ظواہراشیاء اور مظاہرِ فطرت کے علاوہ کوئی شی حقیقی اور واقعی درجہ نہیں اختیار کر سکتی۔مظاہرِ فطرت اصولوں کے ما سوا کسی حقیقت کی قطعیت اور سچائی کا اعتقاد نہیں کیا جا سکتا۔تمام قدریں اضافی ہیں جو انسان کے معاشرتی ارتقا کے نتیجہ میں عمرانی عوامل کے تحت پیدا ہوتی ہیں۔‘‘ (انٹرنیٹ:نیچرلزم)
اِسی نیچریت کو فطریت کہتے ہیں۔اِس کا معاشرتی ہدف انسان کو ہر طرح کی پاکیزگی اور تصورِ پاکیزگی سے الگ کردینا،جنسی اور ذوقی بے راہ روی میں مبتلا کرنا ہے۔اس مقصود کے لیے جو تصنیفات وجود میں آئیں،اُن میں صاف لکھا گیا کہ:’’لذت لینا ہی سب سے بڑا انسانی خیر ہے۔ جو آخری مقصد ہے تمام انسانی اعمال کا،قوانین جو شہروں میں نافذ ہیں اُن کاسبب در اصل ’’افادیت‘‘ہے جو اس کے بدلہ میں لذت کی پیداوار کرتے ہیں۔....پاکیزگی کے لیے کسی ما فوق الفطرت ہستی یا ہدایت کی ضرورت نہیں۔ ‘‘اِن کتابوں میں دکھلا یا گیا کہ آخرت اور بعث بعد الموت کچھ نہیں۔مذہب کی اصل حقیقت انسان کو اِسی دنیا میں مدد پہنچا نا ہے۔(عالم اسلام کی اخلاقی صورتِ حال از اسرار عالم ۔۵۶تا ۷۱)’’انسانی زندگی کے لیے نہ کوئی ہادی اور مقتدا ہے اور نہ ہی کوئی روحانی مرجع و ماوی۔کسی بھی قسم کی ر وحانی