Deobandi Books

الامام محمد قاسم النانوتوی کی فکر اور بدلتے حالات میں مدارس کی تر جیحات

73 - 104
 ملے گا۔ہم تو اِعانت فی الدین کی وجہ سے فلسفہ کو پڑھتے پڑھاتے ہیں۔‘‘ اِس پر فوائد و نتائج مرتب کرتے ہوئے حضرت حکیم محمد مصطفی بجنوری رحمہ اﷲ شارح ِالانتبا ہات المفیدۃ  فرماتے ہیں:’’اگر بضرورت  تدقیقِ نظر وتسہیلِ رد اُن اباطیل کے پڑھا جاوے تو مضائقہ نہیں اور جہاں یہ نہ پایا جاوے،تو حکم اصلی یعنی اسکی تعلیم خلافِ اسلام اور حرام ہو نالوٹ آوے گا۔مثال اِس کی سنکھیا کا کھا نا ہے کہ خطرناک چیز ہے؛مگر علتِ خطر اس کی سمیت ہے۔اگر سمیت سے حفاظت ہو سکے تو کھانے میں کچھ بھی حرج نہیں۔اور اگر کسی مریض کا علاج ہو (مثلاً دوائِ سم الفار متعدد قسم کے مریضوں کا علاج ہے۔ف)تو اس کے لیے اُس کا کھانا اُسی درجہ میں ہو گا جس درجہ میں گلاب اور کیوڑہ اور مشک اور زعفران کا کھانا۔مقتضائے احتیاط اور مقتضائے فطرتِ سلیمہ یہی ہے کہ اِس(سنکھیا) سے بچے،اور ماہر طبیب اس(سنکھیا)کو استعمال کرتے ہی ہیں۔اس مثال سے حضرت والا(تھانویؒ)کا زمانۂ طالبِ علمی میں فلسفہ پر بسم اﷲ نہ کہنا،اور حضرت علامہ گنگوہی قدس سرہ کا بعض طالب علموں کو فلسفہ سے منع کرنا،اور  حضرت مولانا محمد یعقوب صاحب رحمۃ اﷲ علیہ کا تعلیم فلسفہ (کو)دیگر  تعلیموں(بخاری وغیرہ۔ف)کے برابر کر دینا بالکل  صاف ہو گیا،کسی پر کوئی اعتراض نہیں پڑتا۔‘‘(ملفوظات جلد۲۹ص۱۶۶،۱۶۷)
حاشیہ(۲)حضرت تھانویؒ نے اِس باب میںایک واقعہ ذکر کیا ہے،اُس کا تذکرہ اِس موقع پر لطف اور فائدہ سے خالی نہیں،فرما تے ہیں:
’’ایک دفعہ ایک مولوی اور ایک نئے تعلیم یا فتہ صاحب سے گفتگو ہو ئی۔یہ تھے :تو نئے خیال کے،لیکنفلسفہ داں اور سائنس داں اور علماء کی صحبت پا ئے ہو ئے تھے۔گفتگو اِس آیت میں تھی فَاِمَّا منّاً 
بَعْدُ وَاِمَّا فِدائً(محمد:پ:۲۶،آیت۶)سید احمد خاں نے اِس سے اِستدلال کیا ہے منعِ اِسترقاق یعنی بردہ فروشی(غلام بنانے،اور فروخت کر نے۔ف) کی ممانعت پر؛کہ قرآن میں تو صرف من اور فداء 
ہے۔یعنی قیدیوں کا حکم یہ آیا ہے کہ یا مال لے کر چھوڑ دیا جاوے،یایوں ہی تبرُّعاً چھوڑ دیا جا وے۔یہ صرف علماء کی گڑھت ہے کہ بردہ فروشی(غلام بنانا،اور فروخت کر نا۔ف)جائز ہے۔وہ نئے خیال والے صاحب کہہ رہے تھے کہ دیکھئے! سرسید کا اِستدلال آیت سے ہے۔اِس کا آپ کے پاس کیا جواب ہے؟مولوی صاحب نے کہا!یہ بھی غور کیا آپ نے،کہ  فَاِمَّا منّاً بَعْدُ وَاِمَّا فِداء ،قضیہ کون سا ہے؟بس اتنے ہی جواب سے وہ سمجھ گئے اور کہا :بس جواب مل گیا۔واقعی اِس کے منفصلہ حقیقیہ،یا مانعۃ الخلو ہو نے پر کوئی دلیل نہیں،اور اِستدلال اِسی پر موقوف ہے۔ممکن ہے قضیہ مانعۃ الجمع ہو۔وَاِذا جاء الاحتمال بَطَلَ =		{’’ (اور  ترغیب ۔ف)کیوں نہ فرماتے۔ وجہِ حر متِ علومِ فلسفہ اگر ہے تو مخالفتِ دینِ اسلام ہے۔چناں چہ
 تصریحاتِ فقہاء اِس پر شاہد ہیں۔سو فرمائیے تو سہی!منطق کا وہ کون سا مسئلہ ہے جس کو یوں کہئے(کہ )مخالفِ عقائدِ
دین و اسلام ،اور احکامِ دین و ایمان ہے۔مگر جب مخالفت نہیں اور وجہ ممانعت مخالفت تھی،تو (اگر اِس کے بعد بھی اُنہوں 
نے برا کہا،تو سوائے اس کے ۔ف)اور کیا کہئے کہ بوجہِ نا واقفیتِ حقیقت علم مذکور(منطق و فلسفہ کی حقیقت سے نا واقف
 ہو نے کی وجہ سے۔ف) افقط اِنتسابِ فلاسفہ سے اِن فقہاء کو دھوکا ہوا،جو ا،س کو بھی ہم سنگِ علومِ ِ مخالفہ سمجھ گئے۔
(پھر جب معلوم ہو گیا کہ جن فقہاء نے ممانعت کی،اُنہوں نے اپنی ناواقفیت کی وجہ سے عقائد اور احکام دین کے مخالف سمجھ کر
 ممانعت کی؛لیکن جب اِن فنون میں عقائدا رو اسلامی احکام کی مخالفت نہیں ہے،تو،اُن کی ممانعت بھی ثابت نہ ہو گی،لہذا۔ف )
کلامِ فقہائسے بہ نسبت علومِ فلسفہ ایسی  عامہ مطلقہ سمجھ لینا ،اُنہی کا کام ہے جن کو فہمِ ثاقب خداند عالم نے عطانہیں کیا۔‘‘}
فلسفہ اور معقولات میں ا کابر وسلف کی مہارت 
{’’صاحبو!(فلسفہ اور معقولات میں اکابر وسلف کوجومہارت حاصل رہی ہے،اُس کا اِجمالی جائزہ بھی یہ ظاہر کرتا ہے کہ
 اب جو معقولات سے گریز کی راہ تجویز کی جانے لگی ہے،وہ محض مغربی اثر ہے جس کا نتیجہ صحیح اصولوں کا ترک اور خیالات 
اور عقائد میں اِلتباس ِ فکری ہے۔فلسفہ اور معقولات میں اکابر وسلف کے شغف اورمہارت کی مختصر روداد یہ ہے کہ ف)اِس 
زمانہ سے لے کر آغازِ سلطنتِ عباسیہ تک جس میں علومِ فلسفہ یو نانی سے عربی میں ترجمہ ہوئے،لاکھوں علماء اور اولیاء ایسے 
ہیں اور گزرے ،جن کو علومِ مذکورہ میں مہارتِ کاملہ تھی اور ہے..... علمائے ضلع سہارنپور کی جامعیت خود مشہور ہے ۔‘‘}(۱)
{ ’’پہلے زمانہ کی سنئے!.....مولانا عبد الحی صاحب،مولانا اسمٰعیل صاحب شہید،مولانا شاہ عبد القادر صاحب،مولانا شا
 رفیع الدین صاحب،مولانا شاہ عبد العزیز صاحب، مولانا شاہ ولی اﷲ صاحب رحمۃاﷲ علیہم کا کمال، علومِ مذکورہ میں شہرۂ
 آفاق ہے۔حضرت شاہ عبد الحق صاحب محدث دہلوی اور حضرت شیخ مجددِ الف ثانی رحمۃاﷲ علیہما کا کمال، علومِ مذکورہ میں 
اُن کی تصانیف سے ظاہر و باہر ہے۔حضرت علامہ سعد الدین تفتا زانی اور علامہ سید شریف مصنفانِ شرحِ مقاصد وشرحِ 

x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 فہرست مضامین 3 1
3 باب-۱=ام المدارس دار العلوم دیوبند کے موسسین کا امتیازی وصف اور اُن کے مقاصد عالیہ 7 1
4 باب-۲=نیچریت (Naturalism) 10 1
5 باب-۳=فکر دیو بند،تحریک علی گڑھ اورتشکیلِ ندوہ 18 1
6 باب-۴=نصابِ تعلیم 28 1
7 باب۵=معقولات کے داخلِ درس ہونے پر اعتراضات 38 1
8 باب ۶=چند دیگرمفکرین 54 1
9 باب۷=نصاب تعلیم کے حوالہ سے بعض درد مندوں کے اِضطرابات 58 1
12 باب-۸=دیوبند میں حضرت نا نوتویؒ کے رائج کردہ نصا بِ تعلیم پر ایک نظر(اشارات) 61 1
13 باب۹=معقولات اور فلسفہ کی ضرورت:افکار جدیدہ کے تناظر میں 65 1
14 باب۱۰=معقولات اور فلسفہ کی ضرورت(اشارات) از. الامام محمد قاسم نا نوتویؒ 70 1
15 باب ۱۱=معقولات اور فلسفہ کی تعلیم اورزمانۂ حال کے اربابِ درس کا اضطراب 75 1
16 باب ۱۲=عصر حاضر میں معقولات و فلسفہ کی شدید ضرورت 78 1
17 باب ۱۳=اصولِ قاسم اور اہلِ مدارس کے تحفظات 79 1
18 باب ۱۴=درسی کتابوں کا طریقۂ تدریس از۔ حکیم الامت مولا نا اشرف علی تھانوی 80 1
19 باب ۱۵=معقولات و فلسفہ کا اِطلاقی پہلو 83 1
20 باب -۱۶= اہل علم کی خدمت میں 88 1
21 باب ۱۷=علوم جدیدہ کا پیدا کردہ مسئلۂ خیر و شر 91 1
25 الف =نیچریت کا پس منظر 10 4
27 ’’انسانیت(Humanism)‘‘ کی حقیقت 10 4
28 ۲-ب= نیچریت کا مفہوم و مصداق اور متعدد شکلیں 12 4
29 حقیقت پسندی (Realism) 13 4
31 افادیت پسندی(Utility) 13 4
32 ندوہ کا منشور 19 5
34 التباساتِ فہد 20 5
35 (۱)مصلحین امت کی تعیین میں خلط 20 5
36 (۲)فاسد اصولوں کے انتساب میں تلبیس 20 5
37 (۳)اعتقادی اجزاء میں خلط و تلبیس 20 5
38 (۴)شعور سر سید کی وضاحت میں تلبیس 21 5
39 (۵)شعورقاسم کے تعارف میں خیانت 22 5
40 استدراک 22 5
41 ناظمِ دینیات کے فرائض مقرر کردہ سرسید احمد خاں 22 5
42 سرسید کی رواداری کا اصل منشا 22 5
43 مدرسۃ العلوم میں دینیات کی تعلیم اور مولانا محمد قاسم نانوتویؒ 23 5
44 مدرسۃ العلوم کی بنیاد اورحضرت مو لانا رشید احمد گنگو ہی،حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی کو شرکت کی دعوت 24 5
45 سر سید کے قاصد اور حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اﷲ علیہ کی گفتگو 25 5
46 قاصد کا حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اﷲ علیہ کو مشورہ اور حضرتؒ کا جواب 25 5
47 یہ جواب کوئی عارف ہی دے سکتا تھا 25 5
48 دو شعور= شعور قاسم اورشعور سر سید 25 5
49 ۴ -جزئ اول=ادب،تاریخ ، اور مغربی عقلیت 29 6
50 ۴ -الف=ادب 29 6
51 ۴-ج=مغربی عقلیت 33 6
52 ۴-جزئِ دوم =تاریخ، ادب و عقلیت میں مغربی اصولوں کی تقلید کرنے والے چند اہم مفکرین 34 6
53 (۱) خواجہ الطاف حسین حالی 34 6
54 (۲)شمس العلماء شبلی نعمانی 35 6
55 (۳)محقق عبد الماجد دریابادی 35 6
57 (۱)سر سید(۲)علامہ شبلی 38 7
58 (۳)نصابِ تعلیم اورعلامہ سید سلیمان ندویؒ 39 7
59 (۴)نصابِ تعلیم اور جناب ابو الکلام آزاد 39 7
60 (۵)جناب سید سلمان حسینی ندوی او ر نصاب تعلیم 40 7
61 اضطرابات سلمان حسینی بشکلِ التباسِ فکری 42 7
73 مدیر ’’ الشریعۃ‘‘ 54 8
74 (۲)منتسبینِ قاسم 54 8
75 (۱)مولانا عبد العلی فاروقی لکھنوی زید مجدہ ۔ مدیر البدر 58 9
76 (۲)جناب ندیم الواجدی صاحب -مدیر ترجمانِ دیو بند 59 9
77 دیوبند میں ’’مروجہ نصابِ تعلیم‘‘ کی تجویز اور اس کی حکمت: 62 12
78 نصابِ درس کی خوبیاں 63 12
79 نصابِ درس کے وہ اہم امور جن پر سب سے زیادہ غم و غصہ ہے 64 12
80 جدید فلاسفی کی شاخیں اور جدید فلاسفرز 66 13
81 تحلیلی فلاسفی( Analytic philosophy) اور معروضی فلاسفی (Objectivism) 67 13
82 معروضی مطالعہ کی ترجیح-ایک لمحۂ فکریہ 68 13
83 این المفر =منطق سے فرارممکن نہیں 68 13
84 کیا منطق اور فلسفہ سے شغف رکھنے والے علوم نقلیہ سے بے زار ہو جاتے ہیں؟ 72 14
85 کیا اکابر سے منطق اور معقولات کی مذمت منقول ہے؟ 72 14
86 فلسفہ اور معقولات میں ا کابر وسلف کی مہارت 73 14
87 اضطراب اعجازی کی توجیہ 75 15
88 قول صائب : مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ ا ﷲ کی آپ بیتی 76 15
89 (الامام محمد قاسم النانوتوی اور حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کے کلام کی روشنی میں) 78 16
90 (جامع معقول و منقول مولانا ریاست علی ظفر بجنوری مد ظلہ کی تنبیات کی روشنی میں ) 79 17
91 حلِّ مطالب پر اِکتفا کرنا چا ہیے،غیر ضروری تقریر مناسب نہیں 81 18
92 استاذ کے لیے بات کی پَچ مناسب نہیں 81 18
93 مولانا یعقوب صاحب رحمۃ ا ﷲ علیہ کے درس کی خصوصیت 81 18
94 حکیم الامت حضرت تھانوی رحمۃ ا ﷲ علیہ کے درس کی خصوصیت 81 18
95 محققین اکابررحمۃ ا ﷲ علیہم کے درس کی خصوصیت 82 18
96 استاذ کے لیے قابلِ لحاظ امر 82 18
97 اِستعداد کس طرح پیدا ہوتی ہے؟ 82 18
98 اِستعداد کے موانع 82 18
99 زبان کھل جائے،بولنے کا عادی ہو جائے،اِس کا انتظام 82 18
100 درسیات میں معقولا ت کی ضرورت:مثال(۱) 83 19
101 درسیات میں معقولا ت کی ضرورت:مثال(۲) 83 19
102 درسیات میں معقولا ت کی ضرورت:مثال(۳) 84 19
103 منطق کے بغیر آدمی درسیات پڑھا نہیں سکتا (حضرۃالاستاذعارف با ا ﷲ مولانا صدیق احمد صاحب رحمہ ا ﷲ ) 84 19
104 آپ بیتی: از مولف -فخر الاسلام 84 19
105 علومِ عالیہ کے لیے علومِ آلیہ کی ضرورت ہے 85 19
106 دور جدید میں جن حضرات سے دین کو نفع ہوا،وہ معقول ہی کی بدولت ہوا 85 19
107 مدارس کو اصول صحیحہ سے سروکار ہے ،محض جدید کا رعب کافی نہیں 86 19
108 نصابِ قدیم وجدید کی آویزش کا نتیجہ 87 19
109 خرابی کااصل سبب بزرگوں کے طریق سے بے نیازی 87 19
110 ۱۶-الف=گفتگوکا سرسری جا ئزہ (تلخیص) 88 20
111 ۱۶-ب=مشورے ، گزارشیں اور تجویزیں 89 20
112 (۱)اسلام پر پڑنے والے شبہات کے ازالہ کے لیے تجویز 89 20
113 (۲)چند مسئلوں کو جانچنے کی تجویز 90 20
114 ۱۷-الف= عقلی استدلال 91 21
115 ۱۷-ب=خیر و شر،بھلائی-برائی کا اصول اہلِ مغرب کی نظر میں 91 21
116 ۱۷-ج=خیر و شر،بھلائی-برائی کا معیار از الامام محمد قاسم النانوتویؒ 92 21
117 خیر و شر کا محسوساتی معیار: 92 21
118 خیر و شر کا عقلی معیار 92 21
119 اصول:۱=’’عقل موجدِ معلومات نہیں مخبر معلومات ہے‘‘ 93 21
120 باریک فرق معلوم کرنے کا مسئلہ،اور عقل کے التباسات 93 21
121 اصول:۲=جو چیز مطلوبِ اہم اور اور مقصودِ اعظم ہو تی ہے،اُسی پر بھلائی،برا ئی کا اِنحصار ہو تا ہے 94 21
122 نیک و بد،بھلا،برا ،خیر و شرکے ا طلاقات 94 21
123 جس بات پر انسان کی بھلائی برائی موقوف ہے،اُس کے دریافت کرنے کا طریقہ: 94 21
124 اصول:۳=انسان کا مقصودِ اہم اور مطلبِ اعظم نفع کے کام کر نا اور نقصان کے کا موں سے بچنا ہے 94 21
125 انسان کے اجزاء ترکیبیہ 95 21
126 نتیجۂ بحث:بعضے کام بھلے اور بعضے برے یقیناً ہیں 95 21
127 اصول:۴=عقل اور قوتِ عمل میں رابطہ حاکم اور محکوم کا ہے ۔قوتِ عمل عقل کے لئے وہی درجہ رکھتی ہے جو قلم کاتب کے لئے 95 21
128 اصول:۵=جو چیز کسی کے حق میں خدا نے اول سے نافع پیدا کی ہے،وہ اُس کی رغبتِ طبع ہو تی 96 21
129 رغبت کی مثال 97 21
130 نفر ت کی مثال 97 21
131 اصولِ فطرت کی حقیقت اور عقلِ سلیم 97 21
132 کامل العقل کی اہمیت اور ضرورت 97 21
133 اصول:۶= کامل طبیبِ روحانی کے نسخہ میں کمی بیشی جائز نہیں 98 21
134 اِس بات کو یاد رکھنا چا ہیے کہ بہت کارآمد ہے 98 21
135 اصول:۷= کوئی طبیبِ روحانی اگر ایسی بات بتلائے کہ اُس کا ہو نا بہت سے 98 21
136 اصول:۸=بھلائی برا ئی ہر شی کی ازلی ہے۔اصول:۹=عقل و روح کے لیے مضر و نافع اعمال کا نام ہی بھلا ئی برا ئی ہے 98 21
137 اصول:۸=بھلائی برا ئی ہر شی کی ازلی ہے۔ 98 21
138 ۹=عقل و روح کے لیے مضر و نافع اعمال کا نام ہی بھلا ئی برا ئی ہے 98 21
139 اصول:۱۰=دینِ حق کے کر نے نہ کرنے کی باتیں وہی ہیںجن سے عقلِ صاف او رروح پا ک کو رغبت یا نفرت ہو 98 21
140 اصول:۱۱= دینِ حق مرغو بِ طبع ہو تا ہے 99 21
141 اصول:۱۲=روح کو بدن پر ہر بات میں قیاس نہیںکیا جا سکتا 100 21
142 اصول:۱۳= طبیعت کی رغبت کا اثر تب ہی ظا ہر ہو گا جب کہ مانع نہ ہو 100 21
143 دینِ حق جب مرغوبِ طبیعت ٹھہرا،تو طبیعت کے موافق عمل درآمد کرنا چا ہیے؟ 101 21
144 امراضِ روحانی کو مرض نہ سمجھنے کی مثالیں 101 21
145 مثال(۱)معاشرتی امراض(Social diseases) 102 21
146 مثال(۲):نسلوں اور قوموں کے امراض 102 21
148 مثال(۳)امراض پیشہ(Occupation) 102 21
149 مثال(۴)امراضِ عادات(Habbitual diseases) 102 21
150 مثال(۵)موروثی(Heriditary) 102 21
151 تبدیلیٔ زمانہ سے احوال و احکام میں تبدیلی 102 21
152 اصول:۱۴=ہر عمل کسی نہ کسی مرتبے کا حسن و قبح رکھتا ہے 103 21
153 اختتامی التماس 104 21
Flag Counter