ملے گا۔ہم تو اِعانت فی الدین کی وجہ سے فلسفہ کو پڑھتے پڑھاتے ہیں۔‘‘ اِس پر فوائد و نتائج مرتب کرتے ہوئے حضرت حکیم محمد مصطفی بجنوری رحمہ اﷲ شارح ِالانتبا ہات المفیدۃ فرماتے ہیں:’’اگر بضرورت تدقیقِ نظر وتسہیلِ رد اُن اباطیل کے پڑھا جاوے تو مضائقہ نہیں اور جہاں یہ نہ پایا جاوے،تو حکم اصلی یعنی اسکی تعلیم خلافِ اسلام اور حرام ہو نالوٹ آوے گا۔مثال اِس کی سنکھیا کا کھا نا ہے کہ خطرناک چیز ہے؛مگر علتِ خطر اس کی سمیت ہے۔اگر سمیت سے حفاظت ہو سکے تو کھانے میں کچھ بھی حرج نہیں۔اور اگر کسی مریض کا علاج ہو (مثلاً دوائِ سم الفار متعدد قسم کے مریضوں کا علاج ہے۔ف)تو اس کے لیے اُس کا کھانا اُسی درجہ میں ہو گا جس درجہ میں گلاب اور کیوڑہ اور مشک اور زعفران کا کھانا۔مقتضائے احتیاط اور مقتضائے فطرتِ سلیمہ یہی ہے کہ اِس(سنکھیا) سے بچے،اور ماہر طبیب اس(سنکھیا)کو استعمال کرتے ہی ہیں۔اس مثال سے حضرت والا(تھانویؒ)کا زمانۂ طالبِ علمی میں فلسفہ پر بسم اﷲ نہ کہنا،اور حضرت علامہ گنگوہی قدس سرہ کا بعض طالب علموں کو فلسفہ سے منع کرنا،اور حضرت مولانا محمد یعقوب صاحب رحمۃ اﷲ علیہ کا تعلیم فلسفہ (کو)دیگر تعلیموں(بخاری وغیرہ۔ف)کے برابر کر دینا بالکل صاف ہو گیا،کسی پر کوئی اعتراض نہیں پڑتا۔‘‘(ملفوظات جلد۲۹ص۱۶۶،۱۶۷)
حاشیہ(۲)حضرت تھانویؒ نے اِس باب میںایک واقعہ ذکر کیا ہے،اُس کا تذکرہ اِس موقع پر لطف اور فائدہ سے خالی نہیں،فرما تے ہیں:
’’ایک دفعہ ایک مولوی اور ایک نئے تعلیم یا فتہ صاحب سے گفتگو ہو ئی۔یہ تھے :تو نئے خیال کے،لیکنفلسفہ داں اور سائنس داں اور علماء کی صحبت پا ئے ہو ئے تھے۔گفتگو اِس آیت میں تھی فَاِمَّا منّاً
بَعْدُ وَاِمَّا فِدائً(محمد:پ:۲۶،آیت۶)سید احمد خاں نے اِس سے اِستدلال کیا ہے منعِ اِسترقاق یعنی بردہ فروشی(غلام بنانے،اور فروخت کر نے۔ف) کی ممانعت پر؛کہ قرآن میں تو صرف من اور فداء
ہے۔یعنی قیدیوں کا حکم یہ آیا ہے کہ یا مال لے کر چھوڑ دیا جاوے،یایوں ہی تبرُّعاً چھوڑ دیا جا وے۔یہ صرف علماء کی گڑھت ہے کہ بردہ فروشی(غلام بنانا،اور فروخت کر نا۔ف)جائز ہے۔وہ نئے خیال والے صاحب کہہ رہے تھے کہ دیکھئے! سرسید کا اِستدلال آیت سے ہے۔اِس کا آپ کے پاس کیا جواب ہے؟مولوی صاحب نے کہا!یہ بھی غور کیا آپ نے،کہ فَاِمَّا منّاً بَعْدُ وَاِمَّا فِداء ،قضیہ کون سا ہے؟بس اتنے ہی جواب سے وہ سمجھ گئے اور کہا :بس جواب مل گیا۔واقعی اِس کے منفصلہ حقیقیہ،یا مانعۃ الخلو ہو نے پر کوئی دلیل نہیں،اور اِستدلال اِسی پر موقوف ہے۔ممکن ہے قضیہ مانعۃ الجمع ہو۔وَاِذا جاء الاحتمال بَطَلَ = {’’ (اور ترغیب ۔ف)کیوں نہ فرماتے۔ وجہِ حر متِ علومِ فلسفہ اگر ہے تو مخالفتِ دینِ اسلام ہے۔چناں چہ
تصریحاتِ فقہاء اِس پر شاہد ہیں۔سو فرمائیے تو سہی!منطق کا وہ کون سا مسئلہ ہے جس کو یوں کہئے(کہ )مخالفِ عقائدِ
دین و اسلام ،اور احکامِ دین و ایمان ہے۔مگر جب مخالفت نہیں اور وجہ ممانعت مخالفت تھی،تو (اگر اِس کے بعد بھی اُنہوں
نے برا کہا،تو سوائے اس کے ۔ف)اور کیا کہئے کہ بوجہِ نا واقفیتِ حقیقت علم مذکور(منطق و فلسفہ کی حقیقت سے نا واقف
ہو نے کی وجہ سے۔ف) افقط اِنتسابِ فلاسفہ سے اِن فقہاء کو دھوکا ہوا،جو ا،س کو بھی ہم سنگِ علومِ ِ مخالفہ سمجھ گئے۔
(پھر جب معلوم ہو گیا کہ جن فقہاء نے ممانعت کی،اُنہوں نے اپنی ناواقفیت کی وجہ سے عقائد اور احکام دین کے مخالف سمجھ کر
ممانعت کی؛لیکن جب اِن فنون میں عقائدا رو اسلامی احکام کی مخالفت نہیں ہے،تو،اُن کی ممانعت بھی ثابت نہ ہو گی،لہذا۔ف )
کلامِ فقہائسے بہ نسبت علومِ فلسفہ ایسی عامہ مطلقہ سمجھ لینا ،اُنہی کا کام ہے جن کو فہمِ ثاقب خداند عالم نے عطانہیں کیا۔‘‘}
فلسفہ اور معقولات میں ا کابر وسلف کی مہارت
{’’صاحبو!(فلسفہ اور معقولات میں اکابر وسلف کوجومہارت حاصل رہی ہے،اُس کا اِجمالی جائزہ بھی یہ ظاہر کرتا ہے کہ
اب جو معقولات سے گریز کی راہ تجویز کی جانے لگی ہے،وہ محض مغربی اثر ہے جس کا نتیجہ صحیح اصولوں کا ترک اور خیالات
اور عقائد میں اِلتباس ِ فکری ہے۔فلسفہ اور معقولات میں اکابر وسلف کے شغف اورمہارت کی مختصر روداد یہ ہے کہ ف)اِس
زمانہ سے لے کر آغازِ سلطنتِ عباسیہ تک جس میں علومِ فلسفہ یو نانی سے عربی میں ترجمہ ہوئے،لاکھوں علماء اور اولیاء ایسے
ہیں اور گزرے ،جن کو علومِ مذکورہ میں مہارتِ کاملہ تھی اور ہے..... علمائے ضلع سہارنپور کی جامعیت خود مشہور ہے ۔‘‘}(۱)
{ ’’پہلے زمانہ کی سنئے!.....مولانا عبد الحی صاحب،مولانا اسمٰعیل صاحب شہید،مولانا شاہ عبد القادر صاحب،مولانا شا
رفیع الدین صاحب،مولانا شاہ عبد العزیز صاحب، مولانا شاہ ولی اﷲ صاحب رحمۃاﷲ علیہم کا کمال، علومِ مذکورہ میں شہرۂ
آفاق ہے۔حضرت شاہ عبد الحق صاحب محدث دہلوی اور حضرت شیخ مجددِ الف ثانی رحمۃاﷲ علیہما کا کمال، علومِ مذکورہ میں
اُن کی تصانیف سے ظاہر و باہر ہے۔حضرت علامہ سعد الدین تفتا زانی اور علامہ سید شریف مصنفانِ شرحِ مقاصد وشرحِ