------------------------------
(حاشیہ:(۱) خواجہ الطاف حسین حالی لکھتے ہیں ’’خدا کا شکر ہے کہ سر سید کی اِس چیخ پکار سے ہمارے علماء اب (شیعہ،سنی،خارجی،ناصبی وغیرہ کے) اِس تفرقہ کو مٹانے کی فکر میں ہیں،چناں چہ ندو ۃ العلماء نے سب فرقوں کو شریک کرنے کا ارادہ کیا ہے..... دیکھئے حیات جاوید ص۵۶۱ ،نیز ملاحظہ ہو شبلی کی وہ تقریر جوانہوں نے دار العلوم ندوۃ العلماء کی بنیاد قائم ہو تے وقت کی ہے۔)
تو اس کے حوالہ سے یہ بات ضروری ہے کہ وہ مغرب کا وضع کردہ ہونا چا ہیے،نیز اِس کے اصول مسلمہ پر’’ مسلمہ ‘‘ہو نے کی مہر بھی دانشورانِ مغرب نے لگا ئی ہو۔اب اِس سے بحث نہیں کہ ’عقل حقیقت بیں ‘اور’ عقل صحیح ‘بھی انہیں مُسَلّمہ تسلیم کرتی ہے،یا نہیں۔یہ مقصود صرف قرآن کا نام لے کر اور اُس کی دلالت کے مسلم اصولوں کا انکار کر کے حاصل کیا جا سکتا ہے۔
(ب)دوسرے اجتماع کے مقاصد، افادی اور معروضی نتائج ،مقصدی اور منفعتی اغراض، اجتماعی اخلاق،تمدنی اساس،سائنسی اور فطری تہذیب کی روشنی میں،مذہب اسلام کی ایک نئی تشریح و تعبیر کی جا سکے۔ یہ سب الفاظ بظاہر سادہ ہیں؛لیکن اِن کے بطون میں مغربی افکار ہیں جو شریعت اِسلامی سے مزاحم ہیںجن کاذکر ہم ابتدا میں کر چکے ہیں،اور آئندہ بھی ان پر ایک تیز روشنی ڈالی جا ئے گی۔
مذکورہ بالاسب تحریکوں کے پیشِ نظر یہی دو مقاصد تھے۔پھر اِن تحریکوں میں یہ ممکن ہے کہ باہم جزوی طور پر افکار و رجحانا ت،مزاج و مناسبت کے لحاظ سے کمی و زیادتی اور شدت و خفت کا فرق ہو؛لیکن دیوبند سے اختلاف میں مذکورہ دونوں بنیادوں پر سب متحد ہیں۔اور بطورقدرِ مشترک کے ’’نیچریت‘‘سب کے ساتھ شامل تھی۔اور اِسی نیچریت زدہ لوگوں نے دیوبند کی اصلاح چا ہی۔حکیم الامت حضرت تھانوی ؒ قدس سرہ فرماتے ہیں کہ مدرسہ دیوبند قائم کیا گیا تھا نیچریوں کی اصلاح کے لیے؛لیکن اب خود نیچریوں نے اِس کی اصلاح شروع کر دی ہے۔
علی گڑھ:
وضاحت اِ س کی اِس طرح ہے کہ دیوبند سے مذکورہ اِختلاف در حقیقت دو اصولی اجزاء میں ہے،جن میں سے ایک عملی ہے ،دوسرا علمی۔ایک کا نام فقہ ہے،دوسرے کا علم عقائد(علمِ کلام)۔پہلے کا تحفظ فقہِ معین کی تقلید کے بغیر مشکل ہے،دوسرے کا تحفظ معقولات کے بغیر متعذر ہے۔سر سیداحمد خاں نے تحفظ کے اِن دونوں واجب طریقوں سے گریز کیا؛لیکن صرف گریز سے مقصود حاصل ہو نے کی امید نہ تھی؛اس لیے انہوں نے فقہِ معین کے انکار کے ساتھ مذہبِ اسلام میں اصلاح ضروری خیال فرمائی جس کے لیے اُنہیں اول تو یہ کر نا پڑاکہ انہوں نے حدیث،تفسیر،فقہ،کلام،تصوف کے ضروری اصول،مسائل،احکام اور عقائد سب کو ساقط الاعتبار قرار دیا ۔اوردوسرا کام یہ کیا کہ جس نصابِ تعلیم سے مذکورہ امور خمسہ کے اجزائے علمیہ واعتقادیہ کا تحفظ وابستہ تھا،اُس طریقہ تعلیم اور نصابِ تعلیم کی اِصلاح کا بیڑا اٹھایا،اُن کا خیال تھا کہ قصور نصابِ تعلیم کا ہے ۔ اِسی نصاب تعلیم سے ایسے علماء پید ا ہوتے ہیں جنکے اندر حمیت اور تصلب پایا جا تا ہے۔
اور اِس اصلاح اورریفارمیشن کے لیے جو چیز محرک بنی تھی،اُس کی وضاحت ڈاکٹر ظفر حسن نے اس موضوع پر لکھے گئے اپنے تحقیقی مقالہ(Thesis)میں کی ہے،اُن کا نتیجۂ تحقیق یہ ہے کہ ’’علماء کی رائے تھی کہ مسلمان انگریزوں کا فلسفہ اور ادب چھوڑ دیں؛لیکن سر سید نے زیادہ زور فلسفہ اور ادب پر دیا۔یہاں سے علماء اور سر سید کا اِختلافِ رائے شروع ہوا۔‘‘جب سر سید نے ’’اس بات کی کاوش کی کہ مسلمان مغربی اندازِ فکر اختیار کریں،یہاں اُنہیں سب سے بڑی رکاٹ یہ نظر آئی کہ کائنات کی نوعیت اور ماہیت،تخلیقِ کائنات وغیرہ کے مسائل کے بارے میں اسلام ایک بات کہتا تھا اور انیسویں صدی کی مغربی‘سائنس اور فلسفہ کچھ اور۔لہذا سر سید نے سوچا کہ اگر قرآن شریف کی تفسیر مغربی افکار کے نقطۂ نظر سے کر دی جا ئے،تومسلمان مغربی اندازِ فکر کو آسانی سے قبول کر لیں گے۔اس منطق کے سہارے‘‘اُنہیں وہ سب کرنا پڑا جس کا اوپر ذکر کیا گیا(کہ عقائد سے لے کر عبادات،معاشرت سب میں اسی نیچریت،یا تصور فطرت کو سمو دیا۔ف)۔ (دیکھئے نظریۂ فطرت ص ۱۱۴تا ۱۱۶)
ندوہ کا منشور: