Deobandi Books

الامام محمد قاسم النانوتوی کی فکر اور بدلتے حالات میں مدارس کی تر جیحات

19 - 104
------------------------------
(حاشیہ:(۱) خواجہ الطاف حسین حالی لکھتے ہیں ’’خدا کا شکر ہے کہ سر سید کی اِس چیخ پکار سے ہمارے علماء اب (شیعہ،سنی،خارجی،ناصبی وغیرہ کے) اِس تفرقہ کو مٹانے کی فکر میں ہیں،چناں چہ ندو ۃ العلماء نے سب فرقوں کو شریک کرنے کا ارادہ کیا ہے.....  دیکھئے حیات جاوید ص۵۶۱ ،نیز ملاحظہ ہو شبلی کی وہ تقریر جوانہوں نے دار العلوم ندوۃ العلماء کی بنیاد قائم ہو تے وقت کی ہے۔)
تو اس کے حوالہ سے یہ بات ضروری ہے کہ وہ مغرب کا وضع کردہ ہونا چا ہیے،نیز اِس کے اصول مسلمہ پر’’ مسلمہ ‘‘ہو نے کی مہر بھی دانشورانِ مغرب نے لگا ئی ہو۔اب اِس سے بحث نہیں کہ ’عقل حقیقت بیں ‘اور’ عقل صحیح ‘بھی انہیں مُسَلّمہ تسلیم کرتی ہے،یا نہیں۔یہ مقصود صرف قرآن کا  نام لے کر اور اُس کی دلالت کے مسلم اصولوں کا انکار کر کے حاصل کیا جا سکتا ہے۔  
(ب)دوسرے اجتماع کے مقاصد، افادی اور معروضی نتائج ،مقصدی اور منفعتی اغراض، اجتماعی اخلاق،تمدنی اساس،سائنسی اور فطری تہذیب کی روشنی میں،مذہب اسلام کی ایک نئی تشریح و تعبیر کی جا سکے۔ یہ سب الفاظ بظاہر سادہ ہیں؛لیکن اِن کے بطون میں مغربی افکار ہیں جو شریعت اِسلامی سے مزاحم ہیںجن کاذکر ہم ابتدا میں کر چکے ہیں،اور آئندہ بھی ان پر ایک تیز روشنی ڈالی جا ئے گی۔
مذکورہ  بالاسب تحریکوں کے پیشِ نظر یہی دو مقاصد تھے۔پھر اِن تحریکوں میں یہ ممکن ہے کہ باہم جزوی طور پر افکار و رجحانا ت،مزاج و مناسبت کے لحاظ سے کمی و زیادتی اور شدت و خفت کا فرق ہو؛لیکن دیوبند سے اختلاف میں مذکورہ دونوں بنیادوں پر سب متحد ہیں۔اور بطورقدرِ مشترک کے ’’نیچریت‘‘سب کے ساتھ شامل تھی۔اور اِسی نیچریت زدہ لوگوں نے دیوبند کی اصلاح چا ہی۔حکیم الامت حضرت تھانوی ؒ قدس سرہ فرماتے ہیں کہ مدرسہ دیوبند قائم کیا گیا تھا نیچریوں کی اصلاح کے لیے؛لیکن اب خود نیچریوں نے اِس کی اصلاح شروع کر دی ہے۔ 
علی گڑھ:
وضاحت اِ س کی اِس طرح ہے کہ دیوبند سے مذکورہ اِختلاف در حقیقت دو اصولی اجزاء میں ہے،جن میں سے ایک عملی ہے ،دوسرا علمی۔ایک کا نام فقہ ہے،دوسرے کا علم عقائد(علمِ کلام)۔پہلے کا تحفظ فقہِ معین کی تقلید کے بغیر مشکل ہے،دوسرے کا تحفظ معقولات کے بغیر متعذر ہے۔سر سیداحمد خاں نے تحفظ کے اِن دونوں واجب طریقوں سے گریز کیا؛لیکن صرف گریز سے مقصود حاصل ہو نے کی امید نہ تھی؛اس لیے انہوں نے  فقہِ معین کے انکار کے ساتھ مذہبِ اسلام میں اصلاح ضروری خیال فرمائی جس کے لیے اُنہیں اول تو یہ کر نا پڑاکہ انہوں نے حدیث،تفسیر،فقہ،کلام،تصوف کے ضروری اصول،مسائل،احکام اور عقائد سب کو ساقط الاعتبار قرار دیا ۔اوردوسرا کام یہ کیا کہ جس نصابِ تعلیم سے مذکورہ امور خمسہ کے اجزائے علمیہ واعتقادیہ کا تحفظ وابستہ تھا،اُس طریقہ تعلیم اور نصابِ تعلیم کی اِصلاح کا بیڑا اٹھایا،اُن کا خیال تھا کہ قصور نصابِ تعلیم کا ہے ۔ اِسی نصاب تعلیم سے ایسے علماء پید ا ہوتے ہیں جنکے اندر حمیت اور تصلب پایا جا تا ہے۔
اور اِس اصلاح اورریفارمیشن کے لیے جو چیز محرک بنی تھی،اُس کی وضاحت ڈاکٹر ظفر حسن نے اس موضوع پر لکھے گئے اپنے تحقیقی مقالہ(Thesis)میں کی ہے،اُن کا نتیجۂ تحقیق یہ ہے کہ ’’علماء کی رائے تھی کہ مسلمان انگریزوں کا فلسفہ اور ادب چھوڑ دیں؛لیکن سر سید نے زیادہ زور فلسفہ اور ادب پر دیا۔یہاں سے علماء اور سر سید کا اِختلافِ رائے شروع ہوا۔‘‘جب سر سید نے ’’اس بات کی کاوش کی کہ مسلمان مغربی اندازِ فکر اختیار کریں،یہاں اُنہیں سب سے بڑی رکاٹ یہ نظر آئی کہ کائنات کی نوعیت اور ماہیت،تخلیقِ کائنات وغیرہ کے مسائل کے بارے میں اسلام ایک بات کہتا تھا اور انیسویں صدی کی مغربی‘سائنس اور فلسفہ کچھ اور۔لہذا سر سید نے سوچا کہ اگر قرآن شریف کی تفسیر مغربی افکار کے نقطۂ نظر سے کر دی جا ئے،تومسلمان مغربی اندازِ فکر کو آسانی سے قبول کر لیں گے۔اس منطق کے سہارے‘‘اُنہیں وہ سب کرنا پڑا  جس کا اوپر ذکر کیا گیا(کہ عقائد سے لے کر عبادات،معاشرت سب میں اسی نیچریت،یا تصور فطرت کو سمو دیا۔ف)۔ (دیکھئے نظریۂ فطرت ص ۱۱۴تا ۱۱۶)
ندوہ کا منشور: 

x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 فہرست مضامین 3 1
3 باب-۱=ام المدارس دار العلوم دیوبند کے موسسین کا امتیازی وصف اور اُن کے مقاصد عالیہ 7 1
4 باب-۲=نیچریت (Naturalism) 10 1
5 باب-۳=فکر دیو بند،تحریک علی گڑھ اورتشکیلِ ندوہ 18 1
6 باب-۴=نصابِ تعلیم 28 1
7 باب۵=معقولات کے داخلِ درس ہونے پر اعتراضات 38 1
8 باب ۶=چند دیگرمفکرین 54 1
9 باب۷=نصاب تعلیم کے حوالہ سے بعض درد مندوں کے اِضطرابات 58 1
12 باب-۸=دیوبند میں حضرت نا نوتویؒ کے رائج کردہ نصا بِ تعلیم پر ایک نظر(اشارات) 61 1
13 باب۹=معقولات اور فلسفہ کی ضرورت:افکار جدیدہ کے تناظر میں 65 1
14 باب۱۰=معقولات اور فلسفہ کی ضرورت(اشارات) از. الامام محمد قاسم نا نوتویؒ 70 1
15 باب ۱۱=معقولات اور فلسفہ کی تعلیم اورزمانۂ حال کے اربابِ درس کا اضطراب 75 1
16 باب ۱۲=عصر حاضر میں معقولات و فلسفہ کی شدید ضرورت 78 1
17 باب ۱۳=اصولِ قاسم اور اہلِ مدارس کے تحفظات 79 1
18 باب ۱۴=درسی کتابوں کا طریقۂ تدریس از۔ حکیم الامت مولا نا اشرف علی تھانوی 80 1
19 باب ۱۵=معقولات و فلسفہ کا اِطلاقی پہلو 83 1
20 باب -۱۶= اہل علم کی خدمت میں 88 1
21 باب ۱۷=علوم جدیدہ کا پیدا کردہ مسئلۂ خیر و شر 91 1
25 الف =نیچریت کا پس منظر 10 4
27 ’’انسانیت(Humanism)‘‘ کی حقیقت 10 4
28 ۲-ب= نیچریت کا مفہوم و مصداق اور متعدد شکلیں 12 4
29 حقیقت پسندی (Realism) 13 4
31 افادیت پسندی(Utility) 13 4
32 ندوہ کا منشور 19 5
34 التباساتِ فہد 20 5
35 (۱)مصلحین امت کی تعیین میں خلط 20 5
36 (۲)فاسد اصولوں کے انتساب میں تلبیس 20 5
37 (۳)اعتقادی اجزاء میں خلط و تلبیس 20 5
38 (۴)شعور سر سید کی وضاحت میں تلبیس 21 5
39 (۵)شعورقاسم کے تعارف میں خیانت 22 5
40 استدراک 22 5
41 ناظمِ دینیات کے فرائض مقرر کردہ سرسید احمد خاں 22 5
42 سرسید کی رواداری کا اصل منشا 22 5
43 مدرسۃ العلوم میں دینیات کی تعلیم اور مولانا محمد قاسم نانوتویؒ 23 5
44 مدرسۃ العلوم کی بنیاد اورحضرت مو لانا رشید احمد گنگو ہی،حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی کو شرکت کی دعوت 24 5
45 سر سید کے قاصد اور حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اﷲ علیہ کی گفتگو 25 5
46 قاصد کا حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اﷲ علیہ کو مشورہ اور حضرتؒ کا جواب 25 5
47 یہ جواب کوئی عارف ہی دے سکتا تھا 25 5
48 دو شعور= شعور قاسم اورشعور سر سید 25 5
49 ۴ -جزئ اول=ادب،تاریخ ، اور مغربی عقلیت 29 6
50 ۴ -الف=ادب 29 6
51 ۴-ج=مغربی عقلیت 33 6
52 ۴-جزئِ دوم =تاریخ، ادب و عقلیت میں مغربی اصولوں کی تقلید کرنے والے چند اہم مفکرین 34 6
53 (۱) خواجہ الطاف حسین حالی 34 6
54 (۲)شمس العلماء شبلی نعمانی 35 6
55 (۳)محقق عبد الماجد دریابادی 35 6
57 (۱)سر سید(۲)علامہ شبلی 38 7
58 (۳)نصابِ تعلیم اورعلامہ سید سلیمان ندویؒ 39 7
59 (۴)نصابِ تعلیم اور جناب ابو الکلام آزاد 39 7
60 (۵)جناب سید سلمان حسینی ندوی او ر نصاب تعلیم 40 7
61 اضطرابات سلمان حسینی بشکلِ التباسِ فکری 42 7
73 مدیر ’’ الشریعۃ‘‘ 54 8
74 (۲)منتسبینِ قاسم 54 8
75 (۱)مولانا عبد العلی فاروقی لکھنوی زید مجدہ ۔ مدیر البدر 58 9
76 (۲)جناب ندیم الواجدی صاحب -مدیر ترجمانِ دیو بند 59 9
77 دیوبند میں ’’مروجہ نصابِ تعلیم‘‘ کی تجویز اور اس کی حکمت: 62 12
78 نصابِ درس کی خوبیاں 63 12
79 نصابِ درس کے وہ اہم امور جن پر سب سے زیادہ غم و غصہ ہے 64 12
80 جدید فلاسفی کی شاخیں اور جدید فلاسفرز 66 13
81 تحلیلی فلاسفی( Analytic philosophy) اور معروضی فلاسفی (Objectivism) 67 13
82 معروضی مطالعہ کی ترجیح-ایک لمحۂ فکریہ 68 13
83 این المفر =منطق سے فرارممکن نہیں 68 13
84 کیا منطق اور فلسفہ سے شغف رکھنے والے علوم نقلیہ سے بے زار ہو جاتے ہیں؟ 72 14
85 کیا اکابر سے منطق اور معقولات کی مذمت منقول ہے؟ 72 14
86 فلسفہ اور معقولات میں ا کابر وسلف کی مہارت 73 14
87 اضطراب اعجازی کی توجیہ 75 15
88 قول صائب : مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ ا ﷲ کی آپ بیتی 76 15
89 (الامام محمد قاسم النانوتوی اور حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کے کلام کی روشنی میں) 78 16
90 (جامع معقول و منقول مولانا ریاست علی ظفر بجنوری مد ظلہ کی تنبیات کی روشنی میں ) 79 17
91 حلِّ مطالب پر اِکتفا کرنا چا ہیے،غیر ضروری تقریر مناسب نہیں 81 18
92 استاذ کے لیے بات کی پَچ مناسب نہیں 81 18
93 مولانا یعقوب صاحب رحمۃ ا ﷲ علیہ کے درس کی خصوصیت 81 18
94 حکیم الامت حضرت تھانوی رحمۃ ا ﷲ علیہ کے درس کی خصوصیت 81 18
95 محققین اکابررحمۃ ا ﷲ علیہم کے درس کی خصوصیت 82 18
96 استاذ کے لیے قابلِ لحاظ امر 82 18
97 اِستعداد کس طرح پیدا ہوتی ہے؟ 82 18
98 اِستعداد کے موانع 82 18
99 زبان کھل جائے،بولنے کا عادی ہو جائے،اِس کا انتظام 82 18
100 درسیات میں معقولا ت کی ضرورت:مثال(۱) 83 19
101 درسیات میں معقولا ت کی ضرورت:مثال(۲) 83 19
102 درسیات میں معقولا ت کی ضرورت:مثال(۳) 84 19
103 منطق کے بغیر آدمی درسیات پڑھا نہیں سکتا (حضرۃالاستاذعارف با ا ﷲ مولانا صدیق احمد صاحب رحمہ ا ﷲ ) 84 19
104 آپ بیتی: از مولف -فخر الاسلام 84 19
105 علومِ عالیہ کے لیے علومِ آلیہ کی ضرورت ہے 85 19
106 دور جدید میں جن حضرات سے دین کو نفع ہوا،وہ معقول ہی کی بدولت ہوا 85 19
107 مدارس کو اصول صحیحہ سے سروکار ہے ،محض جدید کا رعب کافی نہیں 86 19
108 نصابِ قدیم وجدید کی آویزش کا نتیجہ 87 19
109 خرابی کااصل سبب بزرگوں کے طریق سے بے نیازی 87 19
110 ۱۶-الف=گفتگوکا سرسری جا ئزہ (تلخیص) 88 20
111 ۱۶-ب=مشورے ، گزارشیں اور تجویزیں 89 20
112 (۱)اسلام پر پڑنے والے شبہات کے ازالہ کے لیے تجویز 89 20
113 (۲)چند مسئلوں کو جانچنے کی تجویز 90 20
114 ۱۷-الف= عقلی استدلال 91 21
115 ۱۷-ب=خیر و شر،بھلائی-برائی کا اصول اہلِ مغرب کی نظر میں 91 21
116 ۱۷-ج=خیر و شر،بھلائی-برائی کا معیار از الامام محمد قاسم النانوتویؒ 92 21
117 خیر و شر کا محسوساتی معیار: 92 21
118 خیر و شر کا عقلی معیار 92 21
119 اصول:۱=’’عقل موجدِ معلومات نہیں مخبر معلومات ہے‘‘ 93 21
120 باریک فرق معلوم کرنے کا مسئلہ،اور عقل کے التباسات 93 21
121 اصول:۲=جو چیز مطلوبِ اہم اور اور مقصودِ اعظم ہو تی ہے،اُسی پر بھلائی،برا ئی کا اِنحصار ہو تا ہے 94 21
122 نیک و بد،بھلا،برا ،خیر و شرکے ا طلاقات 94 21
123 جس بات پر انسان کی بھلائی برائی موقوف ہے،اُس کے دریافت کرنے کا طریقہ: 94 21
124 اصول:۳=انسان کا مقصودِ اہم اور مطلبِ اعظم نفع کے کام کر نا اور نقصان کے کا موں سے بچنا ہے 94 21
125 انسان کے اجزاء ترکیبیہ 95 21
126 نتیجۂ بحث:بعضے کام بھلے اور بعضے برے یقیناً ہیں 95 21
127 اصول:۴=عقل اور قوتِ عمل میں رابطہ حاکم اور محکوم کا ہے ۔قوتِ عمل عقل کے لئے وہی درجہ رکھتی ہے جو قلم کاتب کے لئے 95 21
128 اصول:۵=جو چیز کسی کے حق میں خدا نے اول سے نافع پیدا کی ہے،وہ اُس کی رغبتِ طبع ہو تی 96 21
129 رغبت کی مثال 97 21
130 نفر ت کی مثال 97 21
131 اصولِ فطرت کی حقیقت اور عقلِ سلیم 97 21
132 کامل العقل کی اہمیت اور ضرورت 97 21
133 اصول:۶= کامل طبیبِ روحانی کے نسخہ میں کمی بیشی جائز نہیں 98 21
134 اِس بات کو یاد رکھنا چا ہیے کہ بہت کارآمد ہے 98 21
135 اصول:۷= کوئی طبیبِ روحانی اگر ایسی بات بتلائے کہ اُس کا ہو نا بہت سے 98 21
136 اصول:۸=بھلائی برا ئی ہر شی کی ازلی ہے۔اصول:۹=عقل و روح کے لیے مضر و نافع اعمال کا نام ہی بھلا ئی برا ئی ہے 98 21
137 اصول:۸=بھلائی برا ئی ہر شی کی ازلی ہے۔ 98 21
138 ۹=عقل و روح کے لیے مضر و نافع اعمال کا نام ہی بھلا ئی برا ئی ہے 98 21
139 اصول:۱۰=دینِ حق کے کر نے نہ کرنے کی باتیں وہی ہیںجن سے عقلِ صاف او رروح پا ک کو رغبت یا نفرت ہو 98 21
140 اصول:۱۱= دینِ حق مرغو بِ طبع ہو تا ہے 99 21
141 اصول:۱۲=روح کو بدن پر ہر بات میں قیاس نہیںکیا جا سکتا 100 21
142 اصول:۱۳= طبیعت کی رغبت کا اثر تب ہی ظا ہر ہو گا جب کہ مانع نہ ہو 100 21
143 دینِ حق جب مرغوبِ طبیعت ٹھہرا،تو طبیعت کے موافق عمل درآمد کرنا چا ہیے؟ 101 21
144 امراضِ روحانی کو مرض نہ سمجھنے کی مثالیں 101 21
145 مثال(۱)معاشرتی امراض(Social diseases) 102 21
146 مثال(۲):نسلوں اور قوموں کے امراض 102 21
148 مثال(۳)امراض پیشہ(Occupation) 102 21
149 مثال(۴)امراضِ عادات(Habbitual diseases) 102 21
150 مثال(۵)موروثی(Heriditary) 102 21
151 تبدیلیٔ زمانہ سے احوال و احکام میں تبدیلی 102 21
152 اصول:۱۴=ہر عمل کسی نہ کسی مرتبے کا حسن و قبح رکھتا ہے 103 21
153 اختتامی التماس 104 21
Flag Counter