ہے۔بدن کے نافع مضر کو پہچاننا طبِ بدنی ہے ۔روح کے نافع مضر کو پہچاننا طبِ روحانی ہو گی۔اِس جگہ سے یہ بات بھی ثابت ہو ئی کہ بھلائی برا ئی ہر شی کی ازلی ہے۔ اور دینِ حق کے کر نے نہ کرنے کی باتیں وہی ہوں گی جو عقلِ صاف او رروح پا ک کو اُس کی رغبت یا اُس سے نفرت ہو۔(۱) مگر(یہ بات عقلِ صاف او رروح پا ک کے حاملین کے لیے ہے۔ف)ہمارا تمہارا ذکر نہیں۔ہم تو-جیسے بخار والا کھا نے سے متنفر ہو جا تا ہے-(اُسی طرح ہم ۔ف) غذائے روح سے متنفر ہیں اور مثل
------------------------------
حاشیہ(۱)’’ جن اعمال کے ہم مکلف ہیں سب امورِ طبیعہ ہی کے مقتضا ہیں،مگر طبیعت سلیم ہو ۔‘‘ملفوظاتِ حکیم الامت ج۱ ص۱۴۶
خارشیوں اور دنبل وا لوں کے،اُس کے مضرات کی طرف ما ئل۔‘‘
اصول:۱۱= دینِ حق مرغو بِ طبع ہو تا ہے
( اور یہ بات کہ دینِ حق مرغوبِ طبع ہو تا ہے،اِس کی دلیل یہ ہے کہ۔ف):سچی بات کو دل ایسا قبول کر تا ہے جیسے صحیح سالم آدمی کا معدہ مٹھائی کو قبول کرتا ہے۔اگر چند کھانے کھا کر مٹھا ئی کھا بیٹھے،تو معدہ اپنی کششِ پنہا نی سے مٹھا ئی کو ایسی طرح نیچے کھینچ لیتا ہے،جیسے مقنا طس لو ہے کو۔(ص۱۴۷)
مشاہدہ:
تصدیق اِس بات کی وقت،قے کے ہو تی ہے۔کیوں کہ اگر ایسی صورت میں کسی کو قے کا اِتفاق ہو تا ہے،تو کھا نے کی ترتیب کے لحاظ کے بر عکس مٹھائی سب کے بعد نکلتی ہے۔حالاں کہ قیاس یوں چا ہتا تھا کہ سب سے اول نکلتی۔اس لیے ہم یوں یقین کرتے ہیں کہ اگر چند آدمی کامل العقل ایک طبیعت کے ایک زمانے میں ایسے حال میں ہوں کہ اُن کو کسی ہندو،مسلمان،نصاری،یہود وغیرہ سے اِتفاقِ ملاقات نہ ہو،اور نہ اُن کی راہ و رسم میں سے کو ئی بات اُن کے کان پڑے اور اتفاقات سے کو ئی خواہش،خلافِ عقل بھی اُن کو پیش نہ آئے،ما سوا اِس کے جو اسبابِ غلط فہمی ہوں،اُن(کامل العقلوں۔ف) کے رہ زن نہ ہوں،تو وہ بے شک موافقِ تمیزِ عقل اور ہدایتِ دانش کے اپنے لیے ایک را ہ و رسم مقرر کریں۔اور بالیقین وہ سب کے سب ایک ہی طریق پر ہوں گے۔‘‘(۱)
دین کے اصول وفروع اور غذا کے اصول و فروع کی با ہمی مماثلت
’’ ہاں اگر زمانہ ایسے لو گوں کا مختلف ہو،یا طبیعتوں میں فرق ہو۔اور اِختلافِ طبائع اور تفاوت کا زمانہ بھی قرار واقعی ہو، تو ہو سکتا ہے کہ بر قیاس غذائے بدن کے، ایسی مرغوبات میں-کہ جو زائد اصل غذا سے ہوںکچھ اختلاف واقع ہو۔سہولتِ تفہیم کے لیے غذائے روحا نی میں سے اصل غذا کی اقسام کا ’’اصول‘‘اور زائد(کا)’’فروع‘‘نام تجویز کر کے تفصیل اِس اِجمال کی بہ قدرِ مناسب،موافق اپنی فہمِ نا رسا کے گذارش کرتا ہوں:
اصولی غذائیں:جنابِ من! جیسے غذائے بدنی میں گیہوں کی روٹی اور میٹھا پا نی اصل ہے۔اور باقی اقسام:مٹھائی،کھٹائی،چاول،میوہ جا ت اور بیما ریوں کی دوائیں زائد اور فرع ہیں۔(۱۴۷)(۲) یہاں تک کہ گیہوں کی روٹی اور مثلاً میٹھے پا نی کے مرغوب ہو نے سے کو ئی فردِ بشر سوائے بیمار کے خالی نہ ہو گا۔
فروعی غذائیں: اور باقی اقسام میں بہ اعتبارِ طبائع اور اِختلافِ موسم اور فرقِ عمر اور تفاوتِ امراض کے اِتنا کچھ تفاوت ہے کہ ٹھکانہ نہیں۔کسی کو میٹھا،کسی کو کھٹا، کسی کو پلاؤ، کسی کو زردہ ، کسی کو انگور، کسی کو کھجور، کسی کو آنب(آم)، کسی کو گنا۔اور، کسی زمانے میں سُہَن حلوا اور سہاگ سونٹھ اور کسی وقت میں فالودہ اور املی اور فالسے وغیرہ کا شربت مرغوب ہو تا ہے۔لڑکپن میں ماں کے دودھ سے کام چلتا ہے،بڑاھاپے میں حلوائے بے دودھ سے کام نکلتا ہے۔اور کسی مرض میں کو ئی دوا موافق آتی ہے اور کسی میں کو ئی۔‘‘
غذا و دوائے روحا نی میں بھی اگر اصول غیر تغیر پذیر ہوں، فروع میں تفاوت ہو،تو کچھ بعید نہیں :
’’اِسی طرح اگر غذا و دوا ئے روحا نی میں بعد اصول کے فروع میں تفاوت ہو،تو کچھ عجب نہیں۔(چناں چہ اِس حد تک بدنی غذاؤں اور روحانی غذاؤ میں