باب ۱۲=عصر حاضر میں معقولات و فلسفہ کی شدید ضرورت
(الامام محمد قاسم النانوتوی اور حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کے کلام کی روشنی میں)
اب دور حاضر میں کام کرنے والوں کے لیے ،اتنا آسان نہیں رہ گیا کہ وہ فلسفہ سے بے نیازی برت کر کام نکال لیں؛کیوں کہ جس وقت فلسفہ کے اختیار کرنے اور نہ کرنے کا مسئلہ تھا ِاُسوقت بھی ،جب،مقصود پیش نظر ہونے اور دینی ضرورت ہونے کی وجہ سے اس سے استغنا ء نہیں برتا گیا،تو اب تو ضرورت اورشدید ہو گئی ہے۔اس لیے اگر اِس سے صرفِ نظر کیا گیا،تو نیچریت زدہ افکار سے حفاظت ممکن نہیں رہ جا یے گی ۔اگر حملات مذہبی سے حفاظت کے لیے علم کلام ناگزیر ہے،توالامام محمد قاسم النانوتوی کی صراحت کے بموجب فلسفہ سے بے نیازی بھی تین وجہوں سے نا درست ہے۔
(۱)تشحیذ ذہن کے لیے۔
(۲)علوم جدیدہ،سائنس اور اُن تمام مسائل کے رد و اِبطال کے لیے جواسلامی عقائد و احکام کے مخالف ہیں۔
(۳) تائیدِ علومِ دین کے واسطے مراداتِ خدا وندی و نبوی کے سمجھنے میںاور اُن پر پڑنے والے شبہات کے ازالہ میں نافع ہو نے کی وجہ سے۔
حاصل یہ کہ دور حاضر میں اُس علم کلام کے لیے فلسفہ ہی کی ضرورت ہے جس کے متعلق حکیم ا لامت حضرت تھانویؒ نے یہ صراحت فرمائی ہے ،کہ:
’’متکلمین نے جوعلم کلام مدون کیا ہے اس میں بھی سب کچھ موجود ہے کیوں کہ انہیں کے مقررکردہ اصولوںپرسارے شبہات جدیدہ
کا بھی جواب دیا جاسکتاہے اور اسی ذخیرہ سے علم کلام جدیدکی بھی بآسانی تدوین ہوسکتی ہے۔(ملفوظاتِ حکیم الامت جلد۱۰ص۱۱۴،۱۱۵)
اور ’’الانتبا ہات المفیدۃ عن الاشتباہات الجدیدہ‘‘کی تصنیف کے وقت،اُس کا جو محرک ظاہر کرتے ہوئے ارشاد فرما یا کہ ایک رسالہ علم کلام جدید میں تصنیف کرنے کی اِس حیثیت سے ضرورت تھی کہ:
’’ سائنس کے شبہات کے جوابات علم کلام قدیم کے اصول سے(ہوں۔ف) تاکہ یہ اعتراض مندفع ہوجائے کہ شریعت علوم جدید ہ کی محتاج ہے۔‘‘
(ملفوظاتِ حکیم الامت جلد۲۔ الافاضات الیومیہ جلد۲ص۳۱،۳۲)
کیوں کہ’’علم کلام کو علماء نے ایسا مدن کیا کہ ساری دنیا کو بند کردیا۔ کوئی آج تک اس کو نہیں توڑ سکا۔‘‘(ملفوظات ۵ ص۵۲)
اس سے معلوم ہوا کہ علم کلام قدیم ہو یاعلم کلام جدید ،اُس کا موقوف علیہ یہی فلسفہ ہے۔غالباً فلسفہ کی اسی اہمیت کے پیش نظر یہ بات بھی فرمائی کہ:
’’معقول وفلسفہ خدا کی نعمت ہیں ان سے دینیات میں بہت معاونت ملتی ہے۔‘‘(ملفوظات جلد ۱ ص ۲۴۷)
اور شاید یہی وجہ ہے کہ الامام محمدقاسم نانوتویؒ نے اس راز کو اعلانیہ طور پر بیان کر دیا کہ عقائداسلام کے مخالف مسائل کے باطل کرنے کی قدرت چوں کہ اسی معقولات و فلسفہ سے حاصل ہوتی ہے؛اس لیے ایک طرف تو اِس کا مشغلہ اختیار کرنا، حسنات میں داخل ہو کر ثواب کا باعث ہے؛دوسری طرف چوں کہ
علومِ دین ہی ایسی چیز ہے کہ اس سے قوام و قیامِ دین وابستہ ہے؛اس لیے:
’’گر تمام عالم مسلمان ہو جائے،تو اعلائے کلمۃ اﷲ کی حاجت نہیں،پر علومِ دین کی حاجت جوں کی توں رہے۔‘‘
اور چوں کہ:
’’تائیدِ علومِ دین وردِّ عقائدِ مخالفۂ عقائدِ دین‘‘
بغیر فلسفہ اور معقولات کے متصور نہیں؛اس لیے علوم دین کے ساتھ اِن کی حاجت بھی قیامت تک ختم ہو نے وا لی دکھائی نہیں دیتی۔
(قاسم العلوم حضرت مولانا محمد قاسم نا نوتوی-احوال و کمالات......ص۶۶۶تا ۶۷۳ از جناب نور الحسن راشد)