ِ دینیات مولانا عبداﷲ انصاری مقرر ہوئے۔طلبہ کی مذہبی اور اخلاقی تربیت کے حوالے سے درس قرآن کا بھی سلسلہ گزشتہ ۱۸۸۷ء سے قائم تھا جسے علامہ شبلی انجام دیا کرتے تھے۔آٹھ سال کے بعد یہ ذمہ داری مولانا عبداﷲ انصاری کے سپردہوئی۔(۱)ایسی صورت میںاگر موصوف مرحوم نے علی گڑھ میں قیام کیا اورسر سید کی پالیسی کے موافق دینیات کانظام چلایا تو معلوم ہو نا چاہیے کہ اُن کے اِس عمل کودیوبند کے مزاج سے ہم آہنگی حاصل نہیں ہے؛کیوں کہ یہ طرز مضر تھا جس کی وجہ سے
------------------------------
حاشیہ:(۱)ملاحظہ ہو:تہذیب الاخلاق ستمبر ۲۰۱۵ء ص۶۵ بحوالہ ’سر سید کے تصور تعلیم میں تربیت کا مقام‘ ازظفر الاسلام اصلاحی،نیز’ تہذیب الاخلاق اکتوبر ۱۸۹۸ء ص۱۹،۰‘
امام قاسم نانوتویؒ پہلے ہی اسے مسترد کر چکے تھے۔مسلمانوں کا روشن مستقبل کے مصنف سید طفیل احمد منگلوری علیگ لکھتے ہیں کہ صورتِ حال یہ پیش آئی تھی کہ: مدرسۃ العلوم میں دینیات کی تعلیم اور مولانا محمد قاسم نانوتویؒ
’’ جب مولانا قاسم نانوتوی سے کہا گیا کہ مجوزہ مدرسہ میں دینیات کی تعلیم کا آپ اپنی مرضی سے انتظام کریں،تو انہوں نے جواب دیا تھا کہ پہلے
سر سیداس مدرسہ کے کاموں سے دستبردار ہو جائیں،اُس کے بعد ہی مذہبی تعلیم کا انتظام کیا جا سکتا ہے۔اس پر سر سید نے یہ کیا کہ جو کمیٹی دینیات
کی بنا ئی گئی اُس کے ممبر خود نہیں ہو ئے ۔‘‘(بحوالہ الامام محمد قاسم نانوتوی ’’حضرت الامام محمد قاسم نانوتوی اور سر سید احمد خاں‘‘ از عقیدت اﷲ قاسمی ص۵۵۷)
اُس کے بعدجب سر سید کو یہ اندازہ ہوا کہ اُن کے عقائد کی خرابی اور کالج میں خیالاتِ سر سید کی اشاعت سے اہلِ علم اور اہلِ دین کو ناگواری ہے،توانہوں نے مولوی علی بخش، مولوی امداد العلی وغیرہ کے سامنے یہ بات ظاہر کی کہ:
’’مذہبی تعلیم جس میں میری مداخلت سے آپ کو اندیشہ ہے،اُس کا انتظام اوراہتمام آپ اپنے ہاتھ میں لیجئے،میں اُس میں کسی طرح کی شرکت نہیں چاہتا۔
اِس پر مولوی امدادلعلی نے اُن کو لکھا کہ ’’تم اپنے افعال و اقوال سے توبہ کرو...تو ہم شریک ہو تے ہیں۔‘‘(۲)
ا ور مولوی علی بخش نے یہ شرط ٹھہرائی کہ:
’’آپ کی کمیٹی خزنۃ البزاعۃ کو امور مذہبی میں مداخلت نہ ہو؛بلکہ مذہبی تعلیم کے واسطے ایک اور کمیٹی مقرر کی جائے جس کے وہی لوگ ممبر ہوں
جن پرعام اہل اسلام کو اطمینان ہے۔‘‘
اِس کے جواب میںسر سید نے اُن کی شرط زبان سے تو منظورکرلی؛لیکن عملاً یہ ہواکہ نئے ممبران کے بہت سے نام اپنی قائم کی ہوئی کمیٹی خزنۃ البزاعۃ کی مداخلت سے تجویز ہو ئے،اور کئی ممبر اُسی کمیٹی خزنۃ البزاعۃ کے ہی رکھ لیے گئے جس کی مداخلت نہ ہو نے کی ،اور جسے کالعدم ٹھہرائے جانے کی شرط منظور ہوئی تھی۔یہ وجہ ہے علماء کے سرسید کی درخواست منظور نہ کرنے کی ۔پھرقصہ طویل ہے کہ جن بزرگوں سے شرکت کی درخواست کی گئی تھی،انہوں نے جو کچھ جواب دیا ،سر سید نے ’تہذیب الاخلاق ‘میں اُن کی طرف اشارات کیے ہیں؛لیکن اِن اشارات میں طنز وتعریض کے وہ وہ نشتر چبھوئے ہیں کہ الامان! سر سیدکی اِن تحریروں سے اُن کے تمام اخلاق کی قلعی کھل جاتی ہے جس کے لیے اُن کی شہرت ہے۔اور یہ معلو م ہو جا تا ہے کہ ان کے اخلاق کے مظاہر وہی حدود ہیں جہاں تک دینی بنیاد پر کوئی مزاحمت نہ کرے ،سیکولر ہیومنائیزیشن کے اصولوں پر افادیتی پہلو ملحوظ رکھے۔ورنہ بصورتِ دیگر غیرتِ دین پر عمل کرنے والے کے لیے بد ترین قسم کی بدگمانی کے اِظہار کے علاوہ سوقیانہ زبان کے استعمال سے بھی وہ گریز نہیں کرتے ؛بلکہ اختلاف کرنے والے کو شریفانہ خطاب کا بھی اہل نہیں گردانتے۔متذکرہ بالا مضمون میں اختلاف کرنے والے مذکورہ بزرگو ں کے لیے جس قسم کے جملے استعمال کیے گئے ہیں،وہ نہایت تیزہیں۔ سب تو ذکر کرنے کی ہمت نہیں ؛البتہ ،چند فقرے درج کیے جا تے ہیں۔سر سیدلکھتے ہیں:
’’جناب مولوی محمد قاسم صاحب اور جناب مولوی محمد یعقوب صاحب نے جو متعصبانہ جواب دیا،اُس سے ہر شخص جس کو خدا نے عقل اور محبت اور
حبِ ایمانی دی ہوگی،نفرت کرتا ہو گا۔....پس یہ کہنا کیسا بے جا تعصب ہے کہ ہر گاہ اُس مدرسہ میں شیعہ بھی ہوں گے،اس لیے ہم شریک نہیں