Deobandi Books

الامام محمد قاسم النانوتوی کی فکر اور بدلتے حالات میں مدارس کی تر جیحات

23 - 104
ِ دینیات مولانا عبداﷲ انصاری مقرر ہوئے۔طلبہ کی مذہبی اور اخلاقی تربیت کے حوالے سے درس قرآن کا بھی سلسلہ گزشتہ ۱۸۸۷؁ء سے قائم تھا جسے علامہ شبلی انجام دیا کرتے تھے۔آٹھ سال کے بعد یہ ذمہ داری مولانا عبداﷲ انصاری کے سپردہوئی۔(۱)ایسی صورت میںاگر موصوف مرحوم نے علی گڑھ میں قیام کیا اورسر سید کی پالیسی کے موافق دینیات کانظام چلایا تو معلوم ہو نا چاہیے کہ اُن کے اِس عمل کودیوبند کے مزاج سے ہم آہنگی حاصل نہیں ہے؛کیوں کہ یہ طرز مضر تھا جس کی وجہ سے 
------------------------------
حاشیہ:(۱)ملاحظہ ہو:تہذیب الاخلاق ستمبر ۲۰۱۵؁ء ص۶۵ بحوالہ ’سر سید کے تصور تعلیم میں تربیت کا مقام‘ ازظفر الاسلام اصلاحی،نیز’ تہذیب الاخلاق اکتوبر ۱۸۹۸؁ء ص۱۹،۰‘			
امام قاسم نانوتویؒ پہلے ہی اسے مسترد کر چکے تھے۔مسلمانوں کا روشن مستقبل کے مصنف سید طفیل احمد منگلوری علیگ لکھتے ہیں کہ صورتِ حال یہ پیش آئی تھی کہ:			 مدرسۃ العلوم میں دینیات کی تعلیم اور مولانا محمد قاسم نانوتویؒ
’’ جب مولانا قاسم نانوتوی سے کہا گیا کہ مجوزہ مدرسہ میں دینیات کی تعلیم کا آپ اپنی مرضی سے انتظام کریں،تو انہوں نے جواب دیا تھا کہ پہلے
سر سیداس مدرسہ کے کاموں سے دستبردار ہو جائیں،اُس کے بعد ہی مذہبی تعلیم کا انتظام کیا جا سکتا ہے۔اس پر سر سید نے یہ کیا کہ جو کمیٹی دینیات 
کی بنا ئی گئی  اُس کے ممبر خود نہیں ہو ئے ۔‘‘(بحوالہ الامام محمد قاسم نانوتوی ’’حضرت الامام محمد قاسم نانوتوی اور سر سید احمد خاں‘‘ از عقیدت اﷲ قاسمی ص۵۵۷)
اُس کے بعدجب سر سید کو یہ اندازہ ہوا کہ اُن کے عقائد کی خرابی اور کالج میں خیالاتِ سر سید کی اشاعت سے اہلِ علم اور اہلِ دین کو ناگواری ہے،توانہوں نے مولوی علی بخش، مولوی امداد العلی  وغیرہ کے سامنے یہ بات ظاہر کی کہ:
’’مذہبی تعلیم جس میں میری مداخلت سے آپ کو اندیشہ ہے،اُس کا انتظام اوراہتمام آپ اپنے ہاتھ میں لیجئے،میں اُس میں کسی طرح کی شرکت نہیں چاہتا۔
اِس پر مولوی امدادلعلی نے اُن کو لکھا کہ ’’تم اپنے افعال و اقوال سے توبہ کرو...تو ہم شریک ہو تے ہیں۔‘‘(۲)
 ا ور مولوی علی بخش نے یہ شرط ٹھہرائی کہ:
 ’’آپ کی کمیٹی خزنۃ البزاعۃ کو امور مذہبی میں مداخلت نہ ہو؛بلکہ مذہبی تعلیم کے واسطے ایک اور کمیٹی مقرر کی جائے جس کے وہی لوگ ممبر ہوں
 جن پرعام اہل اسلام کو اطمینان ہے۔‘‘
اِس کے جواب میںسر سید نے اُن کی شرط زبان سے تو منظورکرلی؛لیکن عملاً یہ ہواکہ نئے ممبران کے بہت سے نام اپنی قائم کی ہوئی کمیٹی خزنۃ البزاعۃ کی مداخلت سے تجویز ہو ئے،اور کئی ممبر اُسی کمیٹی خزنۃ البزاعۃ کے ہی رکھ لیے گئے جس کی مداخلت نہ ہو نے کی ،اور جسے کالعدم ٹھہرائے جانے کی شرط منظور ہوئی تھی۔یہ وجہ ہے علماء کے سرسید کی درخواست منظور نہ کرنے کی ۔پھرقصہ طویل ہے کہ جن بزرگوں سے شرکت کی درخواست کی گئی تھی،انہوں نے جو کچھ جواب دیا ،سر سید نے ’تہذیب الاخلاق ‘میں اُن کی طرف اشارات کیے ہیں؛لیکن اِن اشارات میں طنز وتعریض کے وہ وہ نشتر چبھوئے ہیں کہ الامان! سر سیدکی اِن تحریروں سے اُن کے تمام اخلاق کی قلعی کھل جاتی ہے جس کے لیے اُن کی شہرت ہے۔اور یہ معلو م ہو جا تا ہے کہ ان کے اخلاق کے مظاہر وہی حدود ہیں جہاں تک دینی بنیاد پر کوئی مزاحمت نہ کرے ،سیکولر ہیومنائیزیشن کے اصولوں پر افادیتی پہلو ملحوظ رکھے۔ورنہ بصورتِ دیگر غیرتِ دین پر عمل کرنے والے کے لیے بد ترین قسم کی بدگمانی کے اِظہار کے علاوہ سوقیانہ زبان کے استعمال سے بھی وہ گریز نہیں کرتے ؛بلکہ  اختلاف کرنے والے کو شریفانہ خطاب کا بھی اہل نہیں گردانتے۔متذکرہ بالا مضمون میں اختلاف کرنے والے مذکورہ بزرگو ں کے لیے جس قسم کے جملے استعمال کیے گئے ہیں،وہ نہایت تیزہیں۔ سب تو ذکر کرنے کی ہمت نہیں ؛البتہ ،چند فقرے درج کیے جا تے ہیں۔سر سیدلکھتے ہیں:
’’جناب مولوی محمد قاسم صاحب اور جناب مولوی محمد یعقوب صاحب نے جو متعصبانہ جواب دیا،اُس سے ہر شخص جس کو خدا نے عقل اور محبت اور 
حبِ ایمانی دی ہوگی،نفرت کرتا ہو گا۔....پس یہ کہنا کیسا بے جا تعصب ہے کہ ہر گاہ اُس مدرسہ میں شیعہ بھی ہوں گے،اس لیے ہم شریک نہیں 

x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 فہرست مضامین 3 1
3 باب-۱=ام المدارس دار العلوم دیوبند کے موسسین کا امتیازی وصف اور اُن کے مقاصد عالیہ 7 1
4 باب-۲=نیچریت (Naturalism) 10 1
5 باب-۳=فکر دیو بند،تحریک علی گڑھ اورتشکیلِ ندوہ 18 1
6 باب-۴=نصابِ تعلیم 28 1
7 باب۵=معقولات کے داخلِ درس ہونے پر اعتراضات 38 1
8 باب ۶=چند دیگرمفکرین 54 1
9 باب۷=نصاب تعلیم کے حوالہ سے بعض درد مندوں کے اِضطرابات 58 1
12 باب-۸=دیوبند میں حضرت نا نوتویؒ کے رائج کردہ نصا بِ تعلیم پر ایک نظر(اشارات) 61 1
13 باب۹=معقولات اور فلسفہ کی ضرورت:افکار جدیدہ کے تناظر میں 65 1
14 باب۱۰=معقولات اور فلسفہ کی ضرورت(اشارات) از. الامام محمد قاسم نا نوتویؒ 70 1
15 باب ۱۱=معقولات اور فلسفہ کی تعلیم اورزمانۂ حال کے اربابِ درس کا اضطراب 75 1
16 باب ۱۲=عصر حاضر میں معقولات و فلسفہ کی شدید ضرورت 78 1
17 باب ۱۳=اصولِ قاسم اور اہلِ مدارس کے تحفظات 79 1
18 باب ۱۴=درسی کتابوں کا طریقۂ تدریس از۔ حکیم الامت مولا نا اشرف علی تھانوی 80 1
19 باب ۱۵=معقولات و فلسفہ کا اِطلاقی پہلو 83 1
20 باب -۱۶= اہل علم کی خدمت میں 88 1
21 باب ۱۷=علوم جدیدہ کا پیدا کردہ مسئلۂ خیر و شر 91 1
25 الف =نیچریت کا پس منظر 10 4
27 ’’انسانیت(Humanism)‘‘ کی حقیقت 10 4
28 ۲-ب= نیچریت کا مفہوم و مصداق اور متعدد شکلیں 12 4
29 حقیقت پسندی (Realism) 13 4
31 افادیت پسندی(Utility) 13 4
32 ندوہ کا منشور 19 5
34 التباساتِ فہد 20 5
35 (۱)مصلحین امت کی تعیین میں خلط 20 5
36 (۲)فاسد اصولوں کے انتساب میں تلبیس 20 5
37 (۳)اعتقادی اجزاء میں خلط و تلبیس 20 5
38 (۴)شعور سر سید کی وضاحت میں تلبیس 21 5
39 (۵)شعورقاسم کے تعارف میں خیانت 22 5
40 استدراک 22 5
41 ناظمِ دینیات کے فرائض مقرر کردہ سرسید احمد خاں 22 5
42 سرسید کی رواداری کا اصل منشا 22 5
43 مدرسۃ العلوم میں دینیات کی تعلیم اور مولانا محمد قاسم نانوتویؒ 23 5
44 مدرسۃ العلوم کی بنیاد اورحضرت مو لانا رشید احمد گنگو ہی،حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی کو شرکت کی دعوت 24 5
45 سر سید کے قاصد اور حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اﷲ علیہ کی گفتگو 25 5
46 قاصد کا حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اﷲ علیہ کو مشورہ اور حضرتؒ کا جواب 25 5
47 یہ جواب کوئی عارف ہی دے سکتا تھا 25 5
48 دو شعور= شعور قاسم اورشعور سر سید 25 5
49 ۴ -جزئ اول=ادب،تاریخ ، اور مغربی عقلیت 29 6
50 ۴ -الف=ادب 29 6
51 ۴-ج=مغربی عقلیت 33 6
52 ۴-جزئِ دوم =تاریخ، ادب و عقلیت میں مغربی اصولوں کی تقلید کرنے والے چند اہم مفکرین 34 6
53 (۱) خواجہ الطاف حسین حالی 34 6
54 (۲)شمس العلماء شبلی نعمانی 35 6
55 (۳)محقق عبد الماجد دریابادی 35 6
57 (۱)سر سید(۲)علامہ شبلی 38 7
58 (۳)نصابِ تعلیم اورعلامہ سید سلیمان ندویؒ 39 7
59 (۴)نصابِ تعلیم اور جناب ابو الکلام آزاد 39 7
60 (۵)جناب سید سلمان حسینی ندوی او ر نصاب تعلیم 40 7
61 اضطرابات سلمان حسینی بشکلِ التباسِ فکری 42 7
73 مدیر ’’ الشریعۃ‘‘ 54 8
74 (۲)منتسبینِ قاسم 54 8
75 (۱)مولانا عبد العلی فاروقی لکھنوی زید مجدہ ۔ مدیر البدر 58 9
76 (۲)جناب ندیم الواجدی صاحب -مدیر ترجمانِ دیو بند 59 9
77 دیوبند میں ’’مروجہ نصابِ تعلیم‘‘ کی تجویز اور اس کی حکمت: 62 12
78 نصابِ درس کی خوبیاں 63 12
79 نصابِ درس کے وہ اہم امور جن پر سب سے زیادہ غم و غصہ ہے 64 12
80 جدید فلاسفی کی شاخیں اور جدید فلاسفرز 66 13
81 تحلیلی فلاسفی( Analytic philosophy) اور معروضی فلاسفی (Objectivism) 67 13
82 معروضی مطالعہ کی ترجیح-ایک لمحۂ فکریہ 68 13
83 این المفر =منطق سے فرارممکن نہیں 68 13
84 کیا منطق اور فلسفہ سے شغف رکھنے والے علوم نقلیہ سے بے زار ہو جاتے ہیں؟ 72 14
85 کیا اکابر سے منطق اور معقولات کی مذمت منقول ہے؟ 72 14
86 فلسفہ اور معقولات میں ا کابر وسلف کی مہارت 73 14
87 اضطراب اعجازی کی توجیہ 75 15
88 قول صائب : مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ ا ﷲ کی آپ بیتی 76 15
89 (الامام محمد قاسم النانوتوی اور حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کے کلام کی روشنی میں) 78 16
90 (جامع معقول و منقول مولانا ریاست علی ظفر بجنوری مد ظلہ کی تنبیات کی روشنی میں ) 79 17
91 حلِّ مطالب پر اِکتفا کرنا چا ہیے،غیر ضروری تقریر مناسب نہیں 81 18
92 استاذ کے لیے بات کی پَچ مناسب نہیں 81 18
93 مولانا یعقوب صاحب رحمۃ ا ﷲ علیہ کے درس کی خصوصیت 81 18
94 حکیم الامت حضرت تھانوی رحمۃ ا ﷲ علیہ کے درس کی خصوصیت 81 18
95 محققین اکابررحمۃ ا ﷲ علیہم کے درس کی خصوصیت 82 18
96 استاذ کے لیے قابلِ لحاظ امر 82 18
97 اِستعداد کس طرح پیدا ہوتی ہے؟ 82 18
98 اِستعداد کے موانع 82 18
99 زبان کھل جائے،بولنے کا عادی ہو جائے،اِس کا انتظام 82 18
100 درسیات میں معقولا ت کی ضرورت:مثال(۱) 83 19
101 درسیات میں معقولا ت کی ضرورت:مثال(۲) 83 19
102 درسیات میں معقولا ت کی ضرورت:مثال(۳) 84 19
103 منطق کے بغیر آدمی درسیات پڑھا نہیں سکتا (حضرۃالاستاذعارف با ا ﷲ مولانا صدیق احمد صاحب رحمہ ا ﷲ ) 84 19
104 آپ بیتی: از مولف -فخر الاسلام 84 19
105 علومِ عالیہ کے لیے علومِ آلیہ کی ضرورت ہے 85 19
106 دور جدید میں جن حضرات سے دین کو نفع ہوا،وہ معقول ہی کی بدولت ہوا 85 19
107 مدارس کو اصول صحیحہ سے سروکار ہے ،محض جدید کا رعب کافی نہیں 86 19
108 نصابِ قدیم وجدید کی آویزش کا نتیجہ 87 19
109 خرابی کااصل سبب بزرگوں کے طریق سے بے نیازی 87 19
110 ۱۶-الف=گفتگوکا سرسری جا ئزہ (تلخیص) 88 20
111 ۱۶-ب=مشورے ، گزارشیں اور تجویزیں 89 20
112 (۱)اسلام پر پڑنے والے شبہات کے ازالہ کے لیے تجویز 89 20
113 (۲)چند مسئلوں کو جانچنے کی تجویز 90 20
114 ۱۷-الف= عقلی استدلال 91 21
115 ۱۷-ب=خیر و شر،بھلائی-برائی کا اصول اہلِ مغرب کی نظر میں 91 21
116 ۱۷-ج=خیر و شر،بھلائی-برائی کا معیار از الامام محمد قاسم النانوتویؒ 92 21
117 خیر و شر کا محسوساتی معیار: 92 21
118 خیر و شر کا عقلی معیار 92 21
119 اصول:۱=’’عقل موجدِ معلومات نہیں مخبر معلومات ہے‘‘ 93 21
120 باریک فرق معلوم کرنے کا مسئلہ،اور عقل کے التباسات 93 21
121 اصول:۲=جو چیز مطلوبِ اہم اور اور مقصودِ اعظم ہو تی ہے،اُسی پر بھلائی،برا ئی کا اِنحصار ہو تا ہے 94 21
122 نیک و بد،بھلا،برا ،خیر و شرکے ا طلاقات 94 21
123 جس بات پر انسان کی بھلائی برائی موقوف ہے،اُس کے دریافت کرنے کا طریقہ: 94 21
124 اصول:۳=انسان کا مقصودِ اہم اور مطلبِ اعظم نفع کے کام کر نا اور نقصان کے کا موں سے بچنا ہے 94 21
125 انسان کے اجزاء ترکیبیہ 95 21
126 نتیجۂ بحث:بعضے کام بھلے اور بعضے برے یقیناً ہیں 95 21
127 اصول:۴=عقل اور قوتِ عمل میں رابطہ حاکم اور محکوم کا ہے ۔قوتِ عمل عقل کے لئے وہی درجہ رکھتی ہے جو قلم کاتب کے لئے 95 21
128 اصول:۵=جو چیز کسی کے حق میں خدا نے اول سے نافع پیدا کی ہے،وہ اُس کی رغبتِ طبع ہو تی 96 21
129 رغبت کی مثال 97 21
130 نفر ت کی مثال 97 21
131 اصولِ فطرت کی حقیقت اور عقلِ سلیم 97 21
132 کامل العقل کی اہمیت اور ضرورت 97 21
133 اصول:۶= کامل طبیبِ روحانی کے نسخہ میں کمی بیشی جائز نہیں 98 21
134 اِس بات کو یاد رکھنا چا ہیے کہ بہت کارآمد ہے 98 21
135 اصول:۷= کوئی طبیبِ روحانی اگر ایسی بات بتلائے کہ اُس کا ہو نا بہت سے 98 21
136 اصول:۸=بھلائی برا ئی ہر شی کی ازلی ہے۔اصول:۹=عقل و روح کے لیے مضر و نافع اعمال کا نام ہی بھلا ئی برا ئی ہے 98 21
137 اصول:۸=بھلائی برا ئی ہر شی کی ازلی ہے۔ 98 21
138 ۹=عقل و روح کے لیے مضر و نافع اعمال کا نام ہی بھلا ئی برا ئی ہے 98 21
139 اصول:۱۰=دینِ حق کے کر نے نہ کرنے کی باتیں وہی ہیںجن سے عقلِ صاف او رروح پا ک کو رغبت یا نفرت ہو 98 21
140 اصول:۱۱= دینِ حق مرغو بِ طبع ہو تا ہے 99 21
141 اصول:۱۲=روح کو بدن پر ہر بات میں قیاس نہیںکیا جا سکتا 100 21
142 اصول:۱۳= طبیعت کی رغبت کا اثر تب ہی ظا ہر ہو گا جب کہ مانع نہ ہو 100 21
143 دینِ حق جب مرغوبِ طبیعت ٹھہرا،تو طبیعت کے موافق عمل درآمد کرنا چا ہیے؟ 101 21
144 امراضِ روحانی کو مرض نہ سمجھنے کی مثالیں 101 21
145 مثال(۱)معاشرتی امراض(Social diseases) 102 21
146 مثال(۲):نسلوں اور قوموں کے امراض 102 21
148 مثال(۳)امراض پیشہ(Occupation) 102 21
149 مثال(۴)امراضِ عادات(Habbitual diseases) 102 21
150 مثال(۵)موروثی(Heriditary) 102 21
151 تبدیلیٔ زمانہ سے احوال و احکام میں تبدیلی 102 21
152 اصول:۱۴=ہر عمل کسی نہ کسی مرتبے کا حسن و قبح رکھتا ہے 103 21
153 اختتامی التماس 104 21
Flag Counter