باب۹=معقولات اور فلسفہ کی ضرورت:افکار جدیدہ کے تناظر میں(اشارات)
’’لوگوں کو یہ معلوم نہیں کہ فلسفہ کس چیز کا نام ہے۔....(عہدِ جدید کے فلاسفر۔ف) کی رسائی مادیات علویہ تک بھی نہیں،اللٰہیات
تو بہت بالا تر ہیں۔ ‘‘
’’ (قدیم فلاسفہ۔ف) کی نظر اِن فلاسفۂ جدیدہ سے بہت دقیق ہے۔‘‘(ملفوظات ج ۲۹ص۱۷۵۱) ج۲۶ص۲۴۳) ‘‘
اور اب بیسویں صدی میں جدید فلسفہ کی جو تحریک اٹھی ہے ،اُس کے تحت یہ امر تسلیم کیا جا چکا ہے کہ فلاسفی کو،منطقی اصولوں،منطقی طریقۂ استدلال اور منطقی ترتیبِ مقدمات پر مبنی ہو نا چا ہیے۔یہی طریقۂ کار ہے جس سے خیالات و نظریات کی تحقیق کی جانی چاہیے اور اِسے ماڈرن سائنس کی کامیا بی میں ،اُس کے ساتھ بطور جزوِ لاینفک کے شامل و داخل رہنا چا ہیے۔(دیکھئے انٹرنیٹ:A quick history of philosophy-by movement)مطلب یہ ہے کہ سائنس کو اِدھر نہ لائیے؛بلکہ اِس معقولات و منطق کی ضرورت اہلِ سائنس کو ہے،وہ اِس باب میں کتنے سنجیدہ ہیں،یہ اُن کا مسئلہ ہے۔