’’ دنیا بھر میں کام کرنے والی دینی قوتوں کا غالب عنصر جدید تعلیم گاہوں سے فارغ دانشوروں اور فضلاء پر مشتمل ہے۔ایسا اس لیے ہوا کہ
دینی بے داری جب تعلیم کے جلو میں آتی ہے،تو اُ س کا نشہ دوآتشہ ہو جا تا ہے۔‘‘
یعنی سیکو لرزم کے ہمراہ ہم ا ٓہنگی کامزاج بنتا ہے،اور جب وہ تعلیم عقائد کے پورے بگاڑ کے ساتھ آتی ہے ،تو اُس کا نشہ سہ آتشہ ہو جاتا ہے۔اور کبھی محرق اور کشتہ ہو کر’’دینی بے داری‘‘کے بجائے دین کی تباہی تک پہنچا تا ہے۔اِس کی مثال ماضی میں کمال اتاترک ہے اور زمانۂ حال میں فتح اﷲ گولن ہے۔کیا عرض کیا جائے فاضل مضمون نگار شاید اِس راز کو نہیں سمجھ پائے کہ کام کرنا اور بات ہے،صحیح خیالات کا ہو نا اور بات ہے۔خیالات کے بگاڑ کے ساتھ بھی افراد متحرک اور فعال ہو سکتے ہیں۔خوش خلقی خوش عملی باطل خیالات کے ساتھ جمع ہو سکتی ہیں۔اس باب میں حضرت تھانویؒ کا رسالہ ’’تحقیق تعلیم انگریزی ‘‘کا مطالعہ نہایت مفید ہے،اُسے ضرور ملاحظہ کرنا چا ہیے۔
(۴)شعور سر سید کی وضاحت میں تلبیس
پھر آگے تعلیم کے باب میں موصوف نے علی گڑھ، ندوہ،’’الاصلاح ‘‘اور’’الفلاح‘‘کی مشترک نمائندگی کرتے ہو ئے بعض تجاویز پیش کی ہیں؛مثلاً:
’’جدید ہندوستان میں....ناگزیر ہو گیا ہے کہ دینی اداروں اور عصری دانش گاہوں کے درمیان رابطہ و اِشتراک مضبوط ہو،اور تعلیم کے
دو دونوں متوازی دھاروںکو حکمت و فراست اور اِحتیاط کے ساتھ یکجا کیا جا ئے۔‘‘اِس مقصد کے لیے انہوں نے پروفیسر علی محمد خسرو
(شیخ الجامعہ علی گڑھ مسلم یو نیورسٹی.۱۹۷۴تا ۱۹۷۹)سیدحامد(۱۹۲۰تا۲۰۱۴ء۔شیخ الجامعہ علی گڑھ مسلم یو نیورسٹی.۱۹۸۰تا ۱۹۸۵ء)کی
علوم اسلامیہ اور علوم جدیدہ کے امتزاج کے باب میں کی گئی کا وشوں کا ذکر کرنے کے بعدلیفٹیننٹ جنرل(ریٹائرڈ) ضمیر الدین شاہ
(شیخ الجامعہ علی گڑھ مسلم یو نیورسٹی.۲۰۱۲ء تا حال)بریگیڈیئر(ریٹائرڈ)سید احمد علی (نائب شیخ الجامعہ علی گڑھ مسلم یو نیورسٹی)کی اِس
کاوش کو بہت سراہا ہے کہ انہوں نے دین اور عقائد کی قربانی پر’’آداب و فنون اور سماجی علوم سے آگے بڑھ کرکامرس ،سائنس،میڈیسن،
مییجمنٹ اور انجیئرنگ کے تمام شعبوںمیں مدارس کے طلبہ کو داخلہ کے مواقع فراہم کر نے کے لیے انہوں نے یک سالہ Bridge
Courseکی تجویز نافذ کی تاکہ...اس کے بعد وہ گریجویشن میں داخلہ کے لیے عام طلبہ کی طرح لازمی مقابلہ جاتی داخلہ امتحان
میں بیٹھ کر اپنی اہلیت منوا سکیں۔(یعنی مطلوب و مقصود، ملجا و ماوی دنیوی ترقی ہے۔)
اور دینی کاوش میں بھی ،اُن کے بقول علی گڑھ کی پیش رفت برابرجاری رہی ہے۔وہ لکھتے ہیں کہ:
’’علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی ہمیشہ یہ کوشش رہی کہ جید علمائے دین اور اکابرین ملت دینی واسلامی مسائل میں اُس کی رہنمائی کریں۔‘‘
اِس میں شک نہیں کہ علی گڑھ کا ادارہ مسلمانوں کا تعلیمی ادارہ ہے،اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو دین کی طرف توجہ اور فکر کرنی چا ہیے؛لیکن اُس کی طرف سے کی جانے والی جس کوشش کا اِجمالی طور پرسلسلۂ تاریخی پیش کیا گیا ہے ،اُس کے حوالہ سے موصوف نے ،ہمارا اندازہ یہ ہے انصاف سے کام نہیں لیاگیا۔موصوف کے تجزیہ اور نتیجہ سے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ علی گڑھ نے اپنی اصلاح کا کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیںکیا؛اب یہ قصور علماء کا ہے کہ انہوں نے توجہ نہیں کی اور علی گڑھ کی کوشش کا مثبت جواب نہیں دیا،اور نہ اُس کی قدر کی؛اس لیے مناسب معلوم ہو تا ہے کہ تاریخی طور پر اُن کوششوں پر روشنی ڈالی جائے،جو ’’مدرسۃ العلوم ‘‘کے وقتِ تاسیس سے ،اب تک ہوئی ہیں،تاکہ صحیح نتائج اخذ کرنے میں آسانی ہو، اوریہ دیکھا جاسکے کہ علی گڑھ کی جانب سے جو کوششیں کی گئئی ہیں ،اُن کی نوعیت و حقیقت کیاتھی؟ ؛اورتاکہ اُن علماء کی صحیح شبیہ سامنے آ سکے،جن پر یہ الزام ہے کہ اُنہوں نے تقاعد برتا اور طالبِ اصلاح کی راہ نمائی کرنے میں پہلو تہی کی۔گزشتہ ڈیڑھ سو سالہ دور کا جائزہ لینے سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ سر سید کے معاصر جوعلما ہیںء اُن میں سب سے اہم نام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ، حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ اورحضرت مو لانا محمد یعقوب نانوتویؒ ہیں، جن سے دینی امور میں رہنمائی خود سر سید احمد خاں نے چا ہی تھی۔رہنمائی اور اصلاح کے باب میں سب سے اہم عقائد کی اصلاح ہے،اور اِسی پہلو سے سر سید اور اُن کے رفقاء کی طرف سے بے نیازی ؛بلکہ مخالفت تھی ؛چناں چہ یہاں دیکھنے کی بات یہی ہے