باب-۸=دیوبند میں حضرت نا نوتویؒ کے رائج کردہ نصا بِ تعلیم پر ایک نظر(اشارات)
خود علامہ شبلی کو درس نظامی کی خوبیوں کا جس قدر اعتراف ہے،اۃسکا اندازہ اِن چند سطروں سے ہو جا تا ہے:
’’ہرفن کی وہ کتابیں لی ہیں،جن سے زیادہ مشکل اُس فن میں کوئی کتاب نہ تھی۔‘‘’’اِس میں فقہ کی کتابیں جو ہیں اُن میں معقولی اِستدلال سے کام لیا گیا ہے۔‘‘
’’اِس نصاب میں سب سے زیادہ مقدم خصوصیت جو ملا صاحب کو پیشِ نظر تھی،یہ تھی کہ قوتِ مطالعہ اِ س قدر ر قوی ہو جائے کہ نصاب کو ختم کرنے کے بعد طالب العلم
جس فن کی جو کتاب چاہے سمجھ سکے۔‘‘’’اِس سے مقصد یہ تھا کہ غور کی قوت پیدا ہو جائے کہ پھر جس کتاب کو چاہے،دیکھ کر سمجھ سکے۔‘‘ ’’اِس سے کوئی شخص انکار نہیں
کر سکتا کہ درسِ نظامیہ کی کتابیں اگر اچھی طرح سمجھ کر پڑھ لی جائیں،توعربی زبان کی کو ئی کتاب لا ینحل نہیں رہ سکتی۔‘‘
الامام محمد قاسم النانوتوی نے دارالعلوم کے بالکل ابتدائی عہد میں کی گئی اپنی تقریر میں’’مروجہ درسیات‘‘کے اختیارکرنے کی وجہ پر بھی کلام فرما یا تھا:’
’’اب ہم اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں جس سے معلوم ہو جا ئے کہ در بابِ تحصیل یہ طریقۂ خاص کیوں تجویز کیا گیا اور علوم جدیدہ کو کیوں شامل نہیں
کیا گیا؟من جملہ دیگر اسباب کے بڑاسبب اِس بات کا تو یہ ہے کہ تربیت عام ہو ،یا خاص،اِس پہلو کا لحاظ چاہیے جس کی طرف سے اُن (طلبہ۔ف)کے کمال میں
رخنہ (نہ۔ف)پڑتا ہو۔ ‘‘
یعنی وہ ہی چیزیںشامل کرنی چا ہئیں جو کمال میں معین ہوں،اور اُن چیزوں سے گریز چا ہیے جو کمال میں حارج ہوں، اس لیے :
’’صرف بجانبِ علومِ نقلی اور نیز ان علوم ِ(عقلی،فلسفہ ومنطق۔ف)کی طرف ،جن سے اِستعدادِ علوم مروجہ اور اِستعدادِ علومِ جدیدہ یقیناً حاصل ہوتی ہے(انعطاف)ضروری سمجھا گیا۔‘‘(حضرت نانوتویؒ)