کے قاعدے بھی تو ہر کسی نے دریافت نہیں کیے۔نہ بقراطؔ،سقراطؔ،افلاطونؔ،ارسطو ہوں،نہ یہ باتیں معلوم ہوں‘۔(جب طبِ بدنی کے قاعدوں کے دریاف کے لیے کاملین کی ضرورت پیش آئی،تو ۔ف)طب روحانی تو بہ طور لطافتِ روح کے،بہ نسبت بدن کے طبِ بدنی سے کمال درجے کو لطیف ہو گی،وہ ہر کسی سے کا ہے کو دریافت ہو سکے گی؟‘‘
------------------------------
حاشیہ (۱):جس کو ۳ صفحات قبل شوق و رغبت اور خوف و نفرت سے تعبیر کیا گیا ہے۔ص۱۴۳)
اصول:۶= کامل طبیبِ روحانی کے نسخہ میں کمی بیشی جائز نہیں:
’’سو اگر کسی شخص کا کامل ہو نا طب روحانی میں کسی طرح ثابت ہو جائے،تو اُ س کے نسخۂ تجویز کردہ میں کمی بیشی ایسی ہی بے جا ہو گی،جیسے کسی کامل طبیبِ جسمانی کی بات میں ہم کو تم کو دخل دینا؛بلکہ اِ س سے بھی زیادہ۔کیوں کہ طب جسما نی کا کمال چنداں کمال نہیں۔اور طب روحانی کا کمال تو کمال ،حصول بھی ہر شخص کو محال ہے۔‘‘
اِس بات کو یاد رکھنا چا ہیے کہ بہت کارآمد ہے:
’’ہاں اگر کوئی طبیب کسی کو شربتِ بنفشہ،یا خمیرہ بنفشہ مرکبات دوا ؤں میں سے بتلائے اور وہ مرکبات اُس کو میسر نہ آئیں،تو لازم ہے کہ اُس کے مفردات کو بہم پہنچا ئے اور اُس کے بنا نے میں آگ،پانی،برتن وغیرہ جس جس چیز کی ضرورت پڑے،سب فراہم کر کے اُس دوا ئے مرکب کو تیار کرے اور اِس سے نہ ڈرے کہ طبیب نے فقط خمیرۂ بنفشہ ہی بتلا یا تھا اور اِس بکھیڑے کے کر نے کو نہیں کہا تھا۔کیوں کہ اُس کا خمیرۂ بنفشہ کو بتلانا،اِس سارے بکھیڑے ہی کا بتلانا ہے۔اِس کے کر نے میں کچھ اُس کے کہے سے کمی بیشی نہیں۔‘‘
اصول:۷= کوئی طبیبِ روحانی اگر ایسی بات بتلائے کہ اُس کا ہو نا بہت سے
سا مان پر موقوف ہو:تو اُس سامان کا فراہم کرنا،کچھ کمی بیشی میں داخل نہیں
’’اِسی طرح کوئی طبیبِ روحانی اگر ایسی بات بتلائے کہ اُس کا ہو نا بہت سے سا مان پر موقوف ہو:تو اُس سامان کا فراہم کرنا،کچھ کمی بیشی میں داخل نہیں؛بلکہ اِس سامان کا فراہم کرنااُسی کے حکم کا بجا لانا ہے۔علی ہذا القیاس،جیسے طبیب کے کہے کو یاد رکھنا،یا لکھ لینا،کچھ کمی بیشی میں داخل نہیں؛بلکہ کمالِ متابعت کی نشا نی ہے،ایسے ہی طبیبِ روحانی کے کہنے کو یاد رکھنا،یا لکھ لینا،کچھ کمی بیشی میں داخل نہیں کمی بیشی میں شمار نہ ہو گا۔اِس بات کو یاد رکھنا چا ہیے کہ بہت کارآمد ہے۔اور جو کبھی دین وا لے بابت کمی بیشی کے آپس میں تکرار کریں،تو حق پرستوں کو لازم ہے کہ اِس قاعدے کے موافق اُن کا فیصلہ کردیں۔اگر وہ دین اصل سے حق ہے،تو بے شک ایسی کمی بیشی کے سبب سب قسم کی کمی بیشی غلط ہو گی۔(جس کا ذکر اوپر کیا گیا کہ اگر کسی شخص کا کامل ہو نا طب رو حانی میں کسی طرح ثابت ہو جائے،تو اُ س کے نسخۂ تجویز کردہ میں کمی بیشی ایسی ہی بے جا ہو گی،جیسے کسی کامل طبیبِ جسمانی کی بات میں ہم کو تم کو دخل دینا۔اور مذکورہ با لا مثال میں سامان کا فراہم کرنا،کچھ کمی بیشی میں داخل نہیں؛بلکہ اِس سامان کا فراہم کرنا بھی گو یا اُسی کے حکم کا بجا لانا ہے۔ف)‘‘ (۱۴۵)
اصول:۸=بھلائی برا ئی ہر شی کی ازلی ہے۔اصول:
۹=عقل و روح کے لیے مضر و نافع اعمال کا نام ہی بھلا ئی برا ئی ہے
اصول:۱۰=دینِ حق کے کر نے نہ کرنے کی باتیں وہی ہیںجن سے عقلِ صاف او رروح پا ک کو رغبت یا نفرت ہو
’’الحاصل بعد ذہن نشیں کرنے اِس بات کے- کہ درمیانِ عقل اور قوتِ عمل کے ایک ایسا رابطہ ہے کہ جس کے سبب عقل و روح کو قوتِ عمل سے نفع نقصان پہنچتا ہے-یہ بات ثابت ہو ئی کہ بہت سے اعمال عقل و روح کو مضر ہیں اور بہت سے نافع۔ اِسی کا نام بھلائی برا ئی ہے۔اور یہ بھی مبنی در اصل طب کا