باب -۱۶= اہل علم کی خدمت میں
۱۶-الف=گفتگوکا سرسری جا ئزہ (تلخیص)
بعض لوگ دیوبند میںمعقولات و فلسفہ داخل کرنے اورسائنس و علوم جدیدہ شامل نہ کرنے کے ذمہ دار مثلاً امام قاسم نا نوتوی ،یا اُس کے حامی ؛مثلاً مولانا محمدیعقوب نانوتویؒ اور حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی ؒوغیرہم پر یہ تعریضات چست کرتے ہیںکہ:
’’وہ یورپ جو کسی زمانہ میں اِس قدر فلسفہ کا دشمن رہ چکا ہے،اور فلسفہ کے جرم میں لاکھوں آدمیوں کو قتل کر چکا ہے،آج اِس قدر فلسفہ کا حامی
اور علم دوست ہے ،تو ہم کو اپنے مذہبی علماء سے اِس بات کی کوئی نا امیدی نہیں ہے کہ ان کو اجنبیت کی وجہ سے جو اِجتناب ہے،جاتا رہے گا
اور وہ یورپ کے فلسفہ اورعلوم جدیدہ کو اس طرح اپنے نصابِ تعلیم میں داخل کر لیں گے جس طرح انہوں نے یونانی کے علوم و فنون کو داخل
کر لیا۔‘‘ (مقالات شبلی جلد ۱ول ص۹)
اس قول کے قائل کو مرحوم ہو ئے بھی سو سال سے زائد کا عرصہ ہو گیا؛لیکن اب اِس کا وش کی جا نشینی کے فرائض پروفیسر راشد شازعلیگ،پروفیسریٰسین مظہر ندوی،جناب غطریف ندوی،جناب سلمان حسینی ندوی،پروفیسر ظفرالاسلام اصلاحی اورپروفیسرعبید اﷲ فہد فلاحی وغیرہ انجا م دے رہے ہیں۔یہ ذرا اہم نام ہیں جو اصلاحِ نصابِ تعلیم کی صدا بلند کرنے والے نمائند ہ اداروں کے ،نمونے کے طور پرذکر کیے گئے۔ باقی اِ ن کے علاوہ بھی ،وہ تمام ہندوستانی مسلمان جو علم دین سے کسی درجہ میں بھی نسبت رکھتے ہیں ؛خواہ مبتدی ہوں یا منتہی،مفکر ہوں،یا تابع محض؛ جو بھی فکر شبلی و سرسیدسے عقیدت رکھتے ہیں،وہ اِنہی کی آواز میں آواز ملا یا کرتے ہیں۔قدرِ مشترک اِن سب کا اعتراض و اضطراب یہ ہے کہ:
(۱)سر سید نے جو اعتراض اٹھایا تھا کہ وہ فلسفہ جو عہد عباسی میں فلاسفہ اور معتزلہ کے رد و انکار کے لیے مسلمان علماء اور متکلمین نے اختیار کیا تھا،وہ اب ۱۹ویں صدی عیسوی میں کسی کام کا نہیں رہا۔ الامام م محمدقاسم نانوتویؒ کو اس نصاب سے اُسی وقت دستبردار ہو جا نا چا ہیے تھا۔
(۲)اوراگر حضرت نا نوتویؒ کی فہم پر سوال نہ اُٹھایا جا ئے ؛جیسا کہ امر واقعہ بھی یہی ہے،معاند و مخالف تک کو تسلیم ہے،تو پھر یہ تاویل ہو گی کہ حضرت نا نوتوی ؒ’’مروجہ نصاب کو مرتب کرنے میں مجبور و مضطر تھے،اور آپ حالتِ اضطراری میں تھے۔‘‘ لہذا اس عہد کے گزر جانے کے بعد یعنی آزادی ہند کے بعد تو اِسے یک قلم موقوف ہو جا نا چاہیے تھا؛کیوں اُس وقت تک بھی جو یہ نصاب چلتا رہا اور نبھتا رہا،تو یہ حضرت نانوتویؒ اور موسسین دارالعلوم و مظاہر علوم کے اخلاص و تدین کی برکت تھی کہ وقفہ وقفہ سے ایسے قدآور علماء پیدا ہو تے رہے جو اپنے اداروں(دارالعلوم و مظاہر علوم) اور اُن کے بانیوں کا نام روشن کرتے رہے،جس سے اُس کا عیب ڈھکا چھپا رہا۔
(۳)۱۹۴۷ء میں انگریزوں کے ہندوستان سے چلے جا نے کے بعد وہ حالتِ اضطرار بھی ختم ہو گئی؛اس لیے اب اُس نصاب کو تبدیل نہ کرنا گویا زمانہ سے لڑنا ہے۔اور اگر ذہنی ورزش کے لیے اُنہیں باقی رکھنا تجویز کیا جا تا ہے،تو ذہنی ورزش تو اُن سے زیادہ سائنسی علوم سے ہو جاتی ہے۔