باب۷=نصاب تعلیم کے حوالہ سے بعض درد مندوں کے اِضطرابات
(۱)مولانا عبد العلی فاروقی لکھنوی زید مجدہ ۔ مدیر البدر
مولانا عبد العلی فاروقی صاحب مد ظلہ لکھتے ہیں:
’’مغربی تہذیب اور مغربی افکار و نظریات سے بے تحاشا مرعوبیت نے ہمارے بہت سے اعلی تعلیم یافتہ افراد اوراچھے دماغوں کو نہ صرف
تہذیب و معاشرت؛بلکہ علم کے میدان میں بھی قدامت او رجدیدیت کی غیر فطری تقسیم قبول کر لینے پر مجبور کر دیا۔ردِّ عمل کے طور پر اِن
ناقدین کی طرف کے افکار و اعمال کو نمونہ میں پیش کرتے ہو ئے نہ صرف اُن کی معاشرت؛بلکہ اُن کے ذریعہ پیش کیے جا نے والے علم کو
بھی مجموعۂ زیغ وضلال قرار دے کر اسے ناقابلِ اعتنا گردانا گیا۔نتیجہ میں علومِ قدیمہ اور علومِ جدیدہ کی غیر منطقی وغیر فطری اصطلاحیں اپنے
ہمہ گیر اثرات کے ساتھ وجود میں آئیں،اور مدارسِ دینیہ نے اپنے کوعلومِ قدیمہ کے محافط کی حیثیت سے پیش کیا۔......سائنس چوں کہ
اِس اصطلاحی تقسیم کے لحاظ سے جدیدیت کے خانہ کا ایک علم قرار پایا؛اس لیے ہمارے بیشتر دینی مدارس ؛بلکہ تمام ہی کلیدی مدارس میں
اِ س کی باقاعدہ تعلیم غیر ضروری اور عبث قرار پائی۔‘‘
اِس کے بعد موصوف نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا دو باتوں پر شکریہ اداکیا۔ایک اِس پر کہ ادارہ کے ذمہ داروں نے سائنس کی تعلیم کا ’فرضِ کفایہ‘ اداکیا۔دوسرے اِس پر کہ’’اصطلاحی قدامت و جدیدیت کی غیر فطری تقسیمِ علم کو ختم‘‘کیا۔اُس کے بعد مدارس میں تعلیمِ سائنس نہ ہونے پر پر ایک سوال قائم کیا ہے:
’’اب سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ سائنس کی تعلیم مدارس کے مقصدِ تاسیس کی راہ میں حارج ہے،یا اُس کے لیے ممد و معاون ؟ ‘‘آگے اِس کا
جواب ہے:’’مدارس کا مقصدِ تاسیس خدا آشنا اور خود آگاہ افراد تیار کرنا ہے۔اور سائنس آفاق و انفس میں غور کر کے اُن کو اُن کے
مقصدِتخلیق میں لگا دینے کا نام ہے۔اِس لحاظ سے سائنس کی تعلیم مدارس کے مقصدِ تاسیس کو حاصل کرنے کے لیے نہ صرف معاون ؛
بلکہ ضروری ہے۔‘‘(۱۲۲،۱۲۳)
پھر اپنے اِس سوال کی وضاحت فرمائی ہے:
’’راقم الحروف کے حاشیۂ خیال میں بھی یہ بات نہیں آسکتی کہ مدارسِ دینیہ میں جن علوم کی تعلیم دی جا رہی ہے ،اُن کی افادیت و اہمیت
میں کچھ کمی ہے؛بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ وہ اِن ہی علوم کو بنیاد مان کر اُن کا تقاضا و مطالبہ ہی سا ئنس کو سمجھتے ہو ئے،سائنسی تعلیم کے رواج کو
مدارس میں ضروری خیال کرتا ہے۔.....راقم الحروف کے خیال میںقرآن کو سمجھنے اور اُس کے مطالبوں کو پوراکر نے دونوں ہی کاموں
کے لیے،سائنس کی تعلیم ضروری ہے۔‘‘
نیز فر ماتے ہیں:
’’یہ بھی ایک المیہ ہے،یا دوسرے لفظوں میں ہماری غفلت کو شی کا نتیجہ ہے کہسائنس کے ذریعہ مذہب کے اِبطال کی کوششیں کی جا نے لگی
ہیں،اور مذہبی حلقوںمیں سائنسی تعلیم کی کمی کی وجہ سے یہ سمجھا جانے لگا ہے کہ سائنس مذہب کی مخالف ہے۔‘‘(۱۲۷)
وہ یہ بھی فرماتے ہیں کہ:
’’اگر علومِ آلیہ میں سے منطق اور فلسفۂ قدیمہ کی تعلیم ہمارے مدرسے میں صرف اِ س و جہ سے ہو سکتی ہے کہ کلامی مسائل میں اِن علوم