باب-۴=نصابِ تعلیم
یہ تو اصلاح مذہب اور اصلاح ا لعلماء کے منشور کے متعلق گفتگو تھی جس کا حاصل یہ ہے کہ خود مذہب میں اور مذہب کی نمائندگی و ترجمانی کرنے والے علماء میں نیچریت پیدا کی جائے ۔اب د وسرا دعوی اِصلاحِ نصاب کے متعلق عرض کرتا ہوں۔
شبلی اور حالی دونوں سر سید کو مذہبی ریفارمر قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ: ’’سر سید ....کو قوم کا پولیٹکل،سوشل اور لٹریری ریفارمر کہا جا سکتا ہے ؛لیکن اِ س مقام
پرریفارمشن سے ہماری مراد قوم کے مذہبی خیالات کی اصلاح ہے۔ ‘‘(حیاتِ جاوید ص۵۱۳ ،یہ حالی کے الفاظ ہیں،اورشبلی کے خیالات کی ترجمانی کے لیے
دیکھئے سر سید کے ساتھ تعلق کی ابتدا کے وقت شبلی کی نظم ’’صبحِ امید‘‘اوراختتام کے وقت مقالاتِ شبلی میں موصوف کا وہ مضمون جوسر سید کی وفات پر لکھا گیا )
الطاف حسین حالی یہ بھی لکھتے ہیں کہ یہ اصلاح،جس طرح سر سید کے ذریعہ مو جودہ آزادی کے دور میں ہو سکتی تھی،اِس سے ما قبل ادوار میں ممکن نہ تھی؛کیوں کہ:’’جو ضرورتیں اسلام کو مو جودہ زمانہ میں پیش آئیں،اُن سے وہ بزرگ بالکل بے خبر تھے(۱)
اِس کے سوا ممالکِ اسلامیہ میں علمائے اسلام کو یہ آزادی نہ تھی کہ بادشاہِ وقت کے مذہب کے خلاف کو ئی بات بے با کا نہ زبان سے نکا ل سکیں۔(حیاتِ جاوید ص۵۱۳ )مزید لکھتے ہیں:’’حکومتِ وقت کے خوف سے ہی امامِ غزالی نے چند جزوی باتوں کے سو ااشاعرہ کے اصول سے اختلاف نہیں کیا۔‘‘ (حیاتِ جاوید ص۵۱۸ )اِسی طرح شبلی نے بھی لکھ رکھا ہے،جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سر سید حالی اور شبلی کے مطابق جمہورِ اہلِ حق اور سلف کا پورا طبقہ کتمانِ حق کا مجرم ہے۔یہ حضرات -جو سلف کے دفاعِ اسلام کے اصولوں سے مطمئن نہیں ہیں-حضرت نانوتوی کے رائج کردہ نصابِ درس سے ،ابتدا ہی سے مطمئن نہیں ہیں۔ مروجہ درسیات کے متعلق ،ان کایہ خیال ہے کہ اِس میں سے فلسفہ خارج ہونا چاہیے،علوم جدیدہ اور سائنس داخل ہونے چا ہئیں : سر سید کو شکایت ہے کہ:
’’جو کتب مذہبی ہمارے یہاں موجود ہیں اور پڑھنے پڑھانے میں آتی ہیں ،ان میں کونسی کتاب ہے جس میں فلسفہ مغربیہ اور علوم جدیدہ
کے مسائل کی تردید یا تطبیق، مسائل مذہبیہ سے کی گئی ہو۔‘‘( سر سید احمد خاں،بحوالہ حیات جاوید ص۲۱۵ تا ۲۱۸ قو می کونسل ... اردو ..، ایڈیشن ۲۰۰۴ ء )
سرسید ہی کی ترجمانی کرتے ہو ئے ،حالی کا الزام ہے کہ علماء کو علوم جدیدہ سے واقفیت نہ ہو نے کی وجہ سے اسلام کے دفاع پر قدرت نہیں:
’’ہمارے علماء جو فلسفہ قدیم اور علومِ دینیہ میں تمام قوم کے نزدیک مسلم ا لثبوت ہیں اور جن کا یہ منصب تھا کہ فلسفہ جدید ہ کے مقابلہ میں
اسلام کی حمایت کے لئے کھڑے ہو تے، ان کو یہ بھی خبر نہ تھی کہ یو نا نی فلسفہ کے سوا کو ئی اور فلسفہ اور عربی زبان کے سوا کو ئی اور علمی زبان
بھی دنیا میں موجود ہے۔‘‘
شبلی علماء کو متعصب کہتے ہیںکہ وہ جدید فلسفہ سے نہ خود واقف ،نہ نصاب میں اسے داخل کرتے ہیں؛اس لیے دفاع اسلام پر قادر نہیں:
’’ مذہب پر عموماً مذہبِ اسلام پر خصوصاً جو اعتراضات یورپ کے لوگ کر رہے ہیں،اُن کا جواب دینا کس کا فرض ہے؟..... کیاعلماء سلف نے یونانیوں
کا فلسفہ نہیں سیکھا تھا اور اُن کے اعتراضات کے جواب نہیں دیے تھے؟......اگر اُس وقت اُس زمانہ کے فلسفہ کا سیکھنا،جائز تھا،تو اب کیوں جائز نہیں؟‘‘