س: درسِ نظامی والے مدارس میں نصابِ تعلیم میں مطلوبہ تبدیلیوں کی رفتار بہت سست ہے،آپ کا کیا خیال ہے؟
ج:’’یہاں عام طور پر ایک ہی جواب ملے گا کہ یہ چیزیں دار العلوم کے مقاصد سے مطابقت نہیں رکھتیں۔‘‘
یہ جواب بہت عمدہ ہے اور یہی اصل جواب ہے کہ وہ’’ نصاب مروجہ‘‘ جسے حضرت نانوتوی نے جاری کیا تھا،دار العلوم کے مقاصد میں معین ہے،اور اُس میں تبدیلیاں جن سے روحِ مقاصد پامال ہوں،’’دار العلوم کے مقاصد سے مطابقت نہیں رکھتیں۔‘‘ محترم جنا ب احمد خضر شاہ صاحب کی جانب سے اگر اسی جواب پر اکتفا کیا جاتا ،تو بہتر ہو تا؛لیکن جواب میں یہ باتیں بھی شامل کی گئیں،مثلاً:
’’اکابر صرف (یہ )کہتے تھے کہ کتاب کوئی بھی ہو،بس مقصد متاثر نہ ہو،وہ جامد ذہن کے نہ تھے۔اسی طرح دار العلوم کا بالکل ابتدائی
جو نصاب تھا،تب سے لے کر آج تک اِتنی تبدیلیاں ہوئی ہیں(کہ)اصل نصاب تو اب صرف ۲۰ فی صد رہ گیا ہے۔ہم نے جو
تبدیلیاں کی ہیں،میں ابھی ان سے مطمئن نہیں ہوں۔ابھی اور تبدیلیاں لائی جانی چاہئیں؛لیکن اس سے پہلے ذہنیت کو بدلنا ہو گا۔
یہ پورا جواب قیاس مع الفارق کا نمونہ ہے۔نصاب اگر ۸۰ فی صد تبدیل ہو چکا ہے تو یہ امر تو مزید دعوتِ فکر دیتا ہے کہ کوئی لائحۂ عمل طے کیا جائے اور سوچا جائے اصل نصاب جس کوحضرت نا نوتوٰؒ نے جاری کیا تھا؛اُس کی طرف لوٹنے کی کیا تدبیر ہو؟۔خیر! موصوف کے اگلے جواب بھی ایسے ہی ملتبس ہیں۔
س:برج کورس کا ایک خوشگوار نتیجہ یہ ہے کہ مختلف مسالک کے طلبہ ایک ساتھ ہیں،اور مفاہمت کے ساتھ رہتے ہیں۔آپ کا کیا خیال ہے؟
ج: مختلف مسالک کے طلبہ کو ایک ساتھ رکھ کر مسلکی اعتدال کا جو نمونہ ہے،وہ بہت ہی اچھا اور خوشگوار ہے ،ہم اس کی تائید کرتے
ہیں۔ایسے نمونے اور بھی قائم ہونے چاہئے۔مدارس میں مثبت تبدیلیاں اوربین المسالک مفاہمت وقت کی ضرورت ہے۔
س:آپ کے نزدیک برج کورس مین اور مدارس کے نساب میں اور کیا بہتری لائی جا سکتی ہے؟
ج:مسلم معاشرہ علماء کی رہنمائی ہر میدان میں چاہتا ہے۔مسئلہ مسائل میں،تعلیم،معاشرت،اقتصاد و سیاست ہر چیز میں۔تو علماء کو ان
چیزوں میں رہنمائی دینے کے لیے اپنے آپ کو تیار کرنا پڑے گا۔لوگوں کو الدین یسر کے مطابق کشادگی دینا ہو گی۔
س:اہل مدارس عموماً یہ شکایت کرتے ہیںکہ یونیورسٹی کے ماحول میںجاکرہمارے طلبہ بدل جاتے ہیں؟
ج:جواہل مدارس یہ شکایت کرتے ہیںکہ طلبہ یونیورسٹی میں جاکربدل جاتے،اپنی ثقافت اور فکربھول جاتے ہیں،تو بنیادی طور پر اُنہیں
خود یہ دیکھنا چا ہیے کہ تربیت میںکہاں خامی رہ گئی؟اس لیے(کہ)ہم طلبہ کوآٹھ،نو سال رکھتے ہیں،تو اِتنی مدت میں اُن میںپختگی اور
شعور نہیں آیا۔ (ایضاًص۴۱ا)
’’جامعہ امام انورمیں نصاب تعلیم میں خاصی انقلابی تبدیلیاں کی گئی ہیں۔‘‘(افکار ملی،مئی۲۰۱۶ء ص۳۹) ۔
جناب ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی اپنے مضمون’دیوبند کا ایک علمی سفر ‘میں جناب ندیم الواجدی صاحب سے ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:’’راقم نے اُن سے برج کورس کی افادیت کے بارے میں اُن کے تاثرات معلوم کیے،مولانا ندیم الواجدی نے فرما یا:دینی مدارس کے فارغین کے لیے یہ کورس نہایت مفید ہے۔اِس کی افادیت میں کوئی شبہہ نہیں؛البتہ ا،س کے ڈائرکٹر پروفیسر راشد شاز کی شخصیت متنا زعہ فیہ بن گئی ہے....ہم نے عرض کیا کہ جناب شاز صاحب اپنی فکر کو اس کورس سے بالکل الگ کر کے رکھتے ہیں۔اِس جواب سے وہ مطمئن ہوئے۔‘‘(افکار ملی،مئی۲۰۱۶ء ص۳۸،۳۹)مطمئن تو کیا ہوئے ہوں گے ؛البتہ جنااب ندیم الواجدی صاحب کی طبیعت میں روشن خیالی اور توسع پہلے ہی سے ہے،جسے ہم آئندہ ’’بعض درد مندوں کے اِضطرابات ‘‘کے عنوان کے تحت ذکر کریں گے۔لیکن جناب محمد غطریف شہباز ندوی نے اگر مولانا ندیم الواجدی کی طرف یہ بات منسوب کرنے میں غلطی نہیں کی ہے کہ ’’جواب سے وہ مطمئن ہوئے۔‘‘،تو مجھے حیرت ہے کہ کس طرح وہ مطمئن ہو گئے،حالاں کہ یہ وہی جواب ہے جو خزینۃ البضاعۃ سے متعلق سر سید احمد خاں نے حضرت نانوتویؒ کو دیا تھا؛لیکن وہ مطمئن نہیں ہو ئے تھے؛بلکہ انہوں نے کہا تھا کہ سر براہ اور بانی کے اثرات ادارہ