’’مولانا محمد اسرار الحق قاسمی نے اپنے ایک حالیہ مضمون میں اِس جانب توجہ دلائی ہے۔اُنہوں نے قدیم و جدید دونوں نظامِ تعلیم کے باہم منقسم
ہو نے اور ملتِ اسلامیہ کو دو مختلف و متضاد دھاروں میں تقسیم کرنے کو ملت کے لیے فالِ بد قرار دیا ہے۔انہوں نے درخواست کی ہے کہ اِس
ثنویت کو فوراً ختم کیا جا ئے اور دونوں کے درمیان مو جود فاصلہ کو کم کر نے کے لیے متین اور درد مند حضرات آگے آئیں۔‘‘
لیکن مقالہ نگار ڈاکٹر عبید اﷲ فہدنے یہ نہ سوچا کہ جناب اسرار الحق القاسمی صاحب ممبر پارلیمنٹ ہیں۔اُنہیں ایسی ہی بات کہنی چا ہیے۔ما قبل میں وزیر تعلیم کا مشورہ بطور نمونہ،ہم دکھلا چکے ہیں،اور بالکل ابتدا میں یہ ظاہر کر چکے ہیں کہ اگر اِن مشوروں کو قبول کیا گیا تو دیوبند دیوبند نہ رہے گا۔
(۲)عربی لنگویج سر ٹیفیکٹ کورس کے استاذ جناب ابصار احمد قاسمی نے جناب سلمان ندوی کی اِس بات کی شدید مذمت کی ہے کہ مولانا محمدقاسم نانوتویؒ:
’’مروجہ نصاب کو مرتب کرنے میں مجبور و مضطر تھے،اور آپ حالتِ اضطراری میں تھے۔‘‘
لیکن خود جو اِستدراک کیا ،وہ اس طرح:
’’ایسا نہیں ہے کہ اِس نصاب میں کبھی ترمیم نہیں ہوئی ہو۔....پہلے نصاب کے اندر صدرا،شمس بازغہ،ہدایۃ الحکمۃ،ملا حسن،ملا مبین...
وغیرہ کتابیں داخلِ نصاب تھیں؛لیکن دارا لعلوم کی مجلس تعلیمی نے اِن کی چنداں ضرور ت محسوس نہ کرتے ہو ئے نصاب سے خارج
کر دیا۔اوراُن کی جگہ مناسب کتابیںشاملِ نصاب کر لی گئیں۔‘‘
عرضِ احقر:لیکن ؛اِس موقع پر سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ کیا وہ متبادل بن سکیں؟یا مخمل کی جگہ ٹاٹ نہیں؛ پلاسٹک ثابت ہو ئیں؟کیا اِن مذکورہ بالا کتابوں کو ہٹانے کے بعد اب کوئی متکلم پیدا ہو پا رہا ہے؟پانچ اہم علوم (فقہ،حدیث،تفسیر،کلا م اور تصوف )میں سے ایک سمجھا جانے والا اہم علم اور بقول حضرت تھانویؒ فقہ کے لیے اصول کا درجہ رکھنے وا لا علم،علم کلام ہی ہے ،اورکیوں نہ ہو؟غور سے دیکھئے تو یہ ہی اہم وجہ ہے کہ دین و مذہب کے متعلق شکو ک وشبہات ،خلجانات اور اسلام کے تمام مزاحم افکار سے نبرد آزما ہونے کے لیے علم کلام کا فن سلف سے متداول چلا آرہا ہے،وہ اِن کتابوں پر ہی مبنی تھا جنہیں خارج کر دیا گیا۔اگر خارج کر دیا گیا،اور خارج کیے جانے کو اپنی روشن دماغی اور بصیرت جان،پھر ندوہ کے کسی’’سلمان‘‘ کے مزید مطابۂ اِخراج پر، اب یہ جوش اور طیش کیسا؟
جناب محمد غطریف شہباز ندوی اپنے سیردیوبند کی تفصیل بتا تے ہوئے لکھا ہے :
دیوبند کے مختلف اداروں کے موجودہ نصابہائے تعلیم بھی میں نے جمع کر لیے تھے،جن کے مطالعے،اپنے مشاہدے اور
علماء سے گفتگو کے بعد دو سوال ایسے ہیں جن کا جواب دیا جانا باقی ہے۔
(۱)مختلف امور میں دینی رہنمائی کے لیے ضروری ہے کہ زمانہ کافہم بھی حاصل کیا جائے۔موجودہ سائنس،اُس کی فکریات،
موجودہ نظام معیشت اور نظام سیاست وغیرہ کی تعلیم اس کا ذریعہ ہے،اور جن کو بغیر اِن علوم کو داخلِ نصاب کیے، نہیں سمجھا
جا سکتا،تو آخرہمارے مدارس کو ان کے سلسلے میں شدید تحفظ کیوں ہے؟
(۲)درس نظامی کے ناقدین کہتے ہیں کہ ابتدا میں یہ دینی کم سیکولر زیادہ تھا۔خود دار العلوم میں جو نصاب شروع میں اختیار کیا
گیا،اُس میں بھی سیکولر علوم(آلیہ)کا حصہ بہت زیادہ تھا۔مگر آج اُس پہلے نصاب کی طرف مراجعت کی کوئی ضرورت
محسوس نہیں کی جا تی؛حالاں کہ خود متعدد دیوبندی اکابر مثلاً علامہ یوسف بنوری اور مولانا مناظر احسن گیلانی نے مروجہ
درس نظامی پر سخت تنقیدیں کی ہیں۔ (افکار ملی،مئی۲۰۱۶ء ص۴۰)
ان د ونوں سوالوں کے جواب دیے جا چکے ہیں۔زیر نظر مقالہ ایک مرتبہ مکمل پڑھ لیا جائے ۔
جناب غطریف ندوی نے دیوبند کے بعض بڑے اداروں کے ذمہ داروں سے نصاب کی تبدیلیوں کے متعلق کچھ سوالات کیے ہیں: