یا تو بالکل مہمل مشورہ ہے ،یاوہ کہنا یہ چا ہتے ہیں کہ صحیح اصولوں کو چھوڑ کر جدید کے نام پر مغربیوں کے گمراہ کن اصولوں کا اتباع کیا جا ئے ۔
التباس ۱۰: جناب سید سلمان حسینی ندوی آگے جو کچھ فرماتے ہیں،اُسے پڑھئے اور سر دھنئے:
’’.....اب رہا یہ مسئلہ کہ ان(عصری)علوم کی کتنی مقدار ضروری ہے اس سلسلہ میں ،میں سمجھتا ہوں کہ عصری علوم کے ما ہرین کی رائے لینی چا ہیے،جس طرح
عصری علوم کے ایک طالب علم کو دینی علوم کا کتنا حصہ در کار ہے،اُس کو ایک ماہر عالم ہی متعین کر سکتا ہے۔‘‘(ص۱۰۷)
یعنی جیسے اہلِ دین سے ،دین حاصل کیا جا تا ہے،ویسے ہی سائنس اور فنونِ عصریہ کے حاملین سے وہ نیچریت لی جائے جو اِلحاد کا زینہ ہے۔ (۱)
حاشیہ:(۱) ’’یہ نیچریت بھی الحاد کا زینہ ہے‘‘ ۔حکیم ا لامت۔
کہ جن سے عام طور پر آخرت کی فکر پیدا نہیں ہو تی،اور قربِ خداوندی کے باعث نہیں بنتے ،اور اُن کی ذات میں بد دینی اور نیچریت کے عناصر ابتدا ہی سے شامل کر دیے گئے ہیں۔ہاں جہاں یہ ضرر نہ ہو؛یعنی پڑھانے والوں میں دین کا فہم اور تدین ہو،اور وہ اُن عناصر کا رد و اِبطال بھی کرتے جائیں،تواِس درجے میں تو کوئی حرج نہیں؛لیکن ضرورت تب بھی ثابت نہیں ہوتی چہ جائے کہ یہ عصریات فلسفہ کے متبادل بنیں۔وجہ یہ ہے کہ سائنس ذریعہ معاش تو بن سکتی ہے،اور اُس کی ایجادات، دینی عقائد کے باب میں خود اہلِ سائنس کے حق میں استعجابات اور استبعادات کو رفع کرنے کے کام بھی آسکتی ہیں؛لیکن نہ ہم اِن ایجادات پر اطلاع کے منتظررہ سکتے ہیں،نہ مکلف ،اور نہ ہی ہمارا جواب ان کی تحصیل پر منحصر ؛بلکہ اس سے تو اورخدشہ ہے مضر ہونے کا کہ جن چیزوں پر ایمان بالغیب کے ہم مکلف تھے ؛جب تک عقل اور حواس سے اُس کی نظیر یااُس کی تائید کا مشاہدہ نہ ہو گیا،اپنے اُس علم کو جو اِخبار نبی سے حاصل ہوا تھا،ناقص ہی سمجھا۔(نعوذ باﷲ منہ)ایسی حالت میں اگر آپ صورتِ حال کی سنگینی کا جائزہ لیں ،تو نظر آئے گا کہ کس قدر گھال میل کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ جن فنونِ عصریہ کی یہ حالت ہے کہ اُن کی طرف احتیاج بھی ثابت نہیں ہو تی، اُن کے ساتھ قرآن،حدیث،فقہ،تفسیر کے اتحاد و اِلصاق کی سازش کی جارہی ہے۔حا لا ں کہ ان فنونِ عصریہ کو اُن علوم دینیہ سے کوئی نسبت ہی نہیںجن کی ذات ہی میں طلبِ آخرت اور قرب و رضا کا خاصہ موجود ہے ۔ھل تستوی الظلمات و النور ۔عدمیوں کو وجودیوں سے کیا نسبت ؟کالجوں اور دوسرے اداروں کے لیے کچھ ہی نصاب تجویز کیا جائے؛لیکن علوم دین اور علوم معاش کا فرق تو ہر حال میں رہے گا۔گزشتہ بیان سییہ بات معلوم ہو گئی کہ لفظاً و معنی ً اِس وقت سر سید ہی کی با ت دہرائی جا رہی ہے۔وہ بھی یہی چاہتے تھے کہ دین میں رواداری یعنی مداہنت برتی جائے ،اور فنون کے تبادلے میں عقیدے کی گفتگو بیچ میں لائے بغیرباہمی تعامل کو راہ دی جائے۔
التباس نمبر۱۱:ہمارا خیال ہے کہ جناب سید سلمان حسینی ندوی کو اقتباس ذیل خود اپنے لیے دلیلِ راہ بنا نا چاہیے اوراس باب میںکسی جمود،سخن سازی اور تعصب و تحزب کوحائل نہ ہو نے دینا چا ہیے:ولا یجرمنکم شنٰان قوم الخ۔وہ پہل کریں،امید کی جاتی ہے کہ اور لوگ بھی ان کے اس عمل حسن کو سنتِ حسنہ سمجھ کر اُن کا ساتھ دیں گے،وہ اقتباس یہ ہے:
’’دیکھا یہ جا تا ہے کہ کسی مکتبِ فکر یا تعلیمی ادارہ کی کسی کمزوری کی طرف نشاندہی کی جا ئے تو فوراً اس کے ذمہ دار اور چا ہنے والے دفاع کی ڈھال استعمال کرنے لگتے ہیں؛بلکہ الٹے کسی اچھی تجویز رکھنے وا لے کو ملامت کا نشانہ بنا لیتے ہیں،اپنے یہاں کے جمود کو جمود اور کمزوری کو کمزوری ماننے کے لیے تیار نہیں ہو تے ۔‘‘(ص۱۰۸)
الحمد ﷲحق واضح ہو گیا،غبار چھنٹ گیا اور آفتاب نکل آیا۔