چلے جانا چا ہیے جہاں دشمن چھپا ہوا ہے۔ اور سب سے عظیم کمین گاہ ’’ فطرت‘‘یا’’ نیچریت ‘‘کی ہے۔چوں کہ سب ہی قوانینِ نیچرکے تابع یا دوسرے الفاظ میں’’ قوانین فطرت کے تابع بنائے گئے ہیں ۔‘‘ اس لیے لازم ہے کہ ہم بھی اپنے وجود کو ثابت کرنے کے لیے ،بقائے اصلح کے اصول پر ’’فطرت‘‘کی تسخیر میں جٹ جائیں؛تاکہ ’’فطرت کے قوانین‘‘ ہم پر مہربان ہو سکیں۔ قوانین فطرت کے معتقدوں کا یہی عقیدہ ہے۔
التباس۹:ایک اور بے بنیادتجزیہ اور تجویز
درسیات کے حوالہ سے جناب سید سلمان حسینی ندوی نے اپنے پیش رووں کی ایک اور تنقید و تجویز دہرا ئی ہے کہ:
’’درس نظامی کا فارغ التحصیل جن علوم میں مہارت حاصل کرتا تھا،وہ اُس وقت کی جدید دنیا کے خالص عصری اور اپ ٹو ڈیٹ مضامین تھے،اب جن مضامین
(علوم جدیدہ۔ف) نے اُن (عقلی علوم۔ف)کی جگہ لے لی ہے،ضرورت ہے کہ اُن(علوم جدیدہ۔ف)کوصحیح تناسب کے ساتھ پڑھایا جا ئے۔‘‘(۱۰۷)
پہلے بھی عرض کیا جا چکا ہے کہ مدرسہ دیوبند قائم ہو تے وقت جن عقلی علوم کو’’اُس وقت کی جدید دنیا کے خالص عصری اور اپ ٹو ڈیٹ مضامین‘‘بتایا جا رہا ہے، وہ علوم عقلی عہدِ نا نوتوی میں ہی ،اہلِ باطل کی نظر میںفرسودہ قرار پا چکے تھے اُن کی فرسودگی ثابت کرنے کا کارنامہ پہلے سر سید،پھر شبلی نے انجام دیا۔اُس کے بعد تو کسی بھی مفکر کے تحقیقی مقالہ کو سند حاصل ہونے کے لیے گویایہی معیار قرار پایا کہ ہر اگلا مفکر اسی پرانے سبق کو سنا سنا کراپنی تحقیقی کاوش ،اور فکری جلا کی داد وصول کرتا رہے۔آخر سر سید کے الفاظکہ:
’’جو کتب مذہبی ہمارے یہاں موجود ہیں اور پڑھنے پڑھانے میں آتی ہیں ،ان میں کونسی کتاب ہے جس میں فلسفہ مغربیہ اور علوم جدیدہ کے مسائل کی تردید
یا تطبیق، مسائل مذہبیہ سے کی گئی ہو۔‘‘(ایضاً ص ۱۵۹ بحوالہ تعلیم مذہبی از سر سید احمد خاں،ونیزحیات جاوید ص۲۱۵ تا ۲۱۸ قو می کونسل برائے فروغ اردو زبان،پانچواں ایڈیشن ۲۰۰۴ ء )
اور سرسید ہی کی ترجمانی کرتے ہو ئے ،حالی کے یہ الفاظ کہ:
’’ہمارے علماء جو فلسفہ قدیم اور علومِ دینیہ میں تمام قوم کے نزدیک مسلم ا لثبوت ہیں اور جن کا یہ منصب تھا کہ فلسفہ جدید ہ کے مقابلہ میں اسلام کی حمایت
کے لئے کھڑے ہو تے، ان کو یہ بھی خبر نہ تھی کہ یو نا نی فلسفہ کے سوا کو ئی اور فلسفہ اور عربی زبان کے سوا کو ئی اور علمی زبان بھی دنیا میں موجود ہے۔‘‘
اور شبلی نے جو کچھ کہا کہ:
’’ مذہب پر عموماً مذہبِ اسلام پر خصوصاً جو اعتراضات یورپ کے لوگ کر رہے ہیں،اُن کا جواب دینا کس کا فرض ہے؟..... کیاعلماء سلف نے یونانیوں کا فلسفہ نہیں سیکھا
تھا اور اُن کے اعتراضات کے جواب نہیں دیے تھے؟......اگر اُس وقت اُس زمانہ کے فلسفہ کا سیکھنا،جائز تھا،تو اب کیوں جائز نہیں؟‘‘
اور جناب سید سلمان حسینی ندوی صاحب کے الفاظ کہ:
’’علماء کو اپنا کردار ادا کرنے کے لیے اور اقامتِ حجت کے لیے جدید علوم اور زبانوں کا اتنا حصہ حاصل کرنا ضروری ہے جس کے ذریعہ وہ دین کی تفہیم موثر اور بلیغ
انداز میں سوسائٹی کے ہر طبقہ کے لیے کر سکیں۔......یہ بات عصری علوم کی ایک مناسب مقدار کی تعلیم سے ہی حاصل ہو سکتی ہے۔‘‘(ص۱۰۷)
اِن سب میں فرق کیا ہے؟سوائے اِس کے اور کیا کہا جائے کہ ایک بات سید احمد خاں نے کہہ دی ،پھر سید سلمان حسینی ندوی تک ہر بعد میں آنے والا محقق وہی سبق دہراتا رہا جو اُس نے اپنے پیش رو سے پڑھا تھا۔اوراگر غور سے دیکھا جا ئے،تو یہ گھسا پِٹا سبق اور بھی پرانا ہے۔ہندوستان میں سر سید نے اپنی ذہانت سے یہ اعتراض نہیں گڑھاہے؛بلکہ یورپ میں پروٹسٹینٹ فرقہ نے منطق و فلسفہ کے حوالہ سے اعتراض کا جو تجربہ اپنے پادریوں پر کیا تھا؛اُسی مجرب نسخہ کو کہ’’ یورپ اگر گپ زند آں نیز مسلم باشد‘‘ ،کے اصول پر ہندوستان میں مذہبِ اسلام پر، علمائے اسلام پر،اور اُن کے دفاعی اصولوں پربھی آزمایا گیا۔ ایسی صورت میں موصوف کا یہ ارشاد کہ :
’’اب جن مضامین نے اُن (عقلی علوم۔ف)کی جگہ لے لی ہے،ضرورت ہے کہ اُن(علوم جدیدہ)کوصحیح تناسب کے ساتھ پڑھایا جا ئے۔‘‘(۱۰۷)