Deobandi Books

الامام محمد قاسم النانوتوی کی فکر اور بدلتے حالات میں مدارس کی تر جیحات

52 - 104
چلے جانا چا ہیے جہاں دشمن چھپا ہوا ہے۔ اور سب سے عظیم کمین گاہ ’’ فطرت‘‘یا’’ نیچریت ‘‘کی ہے۔چوں کہ سب ہی قوانینِ نیچرکے تابع یا دوسرے الفاظ میں’’ قوانین فطرت کے تابع بنائے گئے ہیں ۔‘‘ اس لیے لازم ہے کہ ہم بھی اپنے وجود کو ثابت کرنے کے لیے ،بقائے اصلح کے اصول پر ’’فطرت‘‘کی تسخیر میں جٹ جائیں؛تاکہ ’’فطرت کے قوانین‘‘ ہم پر مہربان ہو سکیں۔ قوانین فطرت کے معتقدوں کا یہی عقیدہ ہے۔
التباس۹:ایک اور بے بنیادتجزیہ اور تجویز
درسیات کے حوالہ سے جناب سید سلمان حسینی ندوی نے اپنے پیش رووں کی ایک اور تنقید و تجویز دہرا ئی ہے کہ:
’’درس نظامی کا فارغ التحصیل جن علوم میں مہارت حاصل کرتا تھا،وہ اُس وقت کی جدید دنیا کے خالص عصری اور اپ ٹو ڈیٹ مضامین تھے،اب جن مضامین
(علوم جدیدہ۔ف) نے اُن (عقلی علوم۔ف)کی جگہ لے لی ہے،ضرورت ہے کہ اُن(علوم جدیدہ۔ف)کوصحیح تناسب کے ساتھ پڑھایا جا ئے۔‘‘(۱۰۷)
پہلے بھی عرض کیا جا چکا  ہے کہ مدرسہ دیوبند قائم ہو تے وقت جن عقلی علوم کو’’اُس وقت کی جدید دنیا کے خالص عصری اور اپ ٹو ڈیٹ مضامین‘‘بتایا جا رہا ہے، وہ علوم عقلی عہدِ نا نوتوی میں ہی ،اہلِ باطل کی نظر میںفرسودہ قرار پا چکے تھے اُن کی فرسودگی ثابت کرنے کا کارنامہ پہلے سر سید،پھر شبلی نے انجام دیا۔اُس کے بعد تو کسی بھی مفکر کے تحقیقی مقالہ کو سند حاصل ہونے کے لیے گویایہی معیار قرار پایا کہ ہر اگلا مفکر اسی پرانے سبق کو سنا سنا کراپنی تحقیقی کاوش ،اور فکری جلا کی داد وصول کرتا رہے۔آخر سر سید کے الفاظکہ:
 ’’جو کتب مذہبی ہمارے یہاں موجود ہیں اور پڑھنے پڑھانے میں آتی ہیں ،ان میں کونسی کتاب ہے جس میں فلسفہ مغربیہ اور علوم جدیدہ کے مسائل کی تردید
 یا تطبیق، مسائل مذہبیہ سے کی گئی ہو۔‘‘(ایضاً ص ۱۵۹ بحوالہ تعلیم مذہبی از سر سید احمد خاں،ونیزحیات جاوید ص۲۱۵ تا ۲۱۸ قو می کونسل برائے فروغ اردو زبان،پانچواں ایڈیشن ۲۰۰۴؁ ء )
اور سرسید ہی کی ترجمانی کرتے ہو ئے ،حالی کے یہ الفاظ کہ:
’’ہمارے علماء جو فلسفہ قدیم اور علومِ دینیہ میں تمام قوم کے نزدیک مسلم ا لثبوت ہیں اور جن کا یہ منصب تھا کہ فلسفہ جدید ہ کے مقابلہ میں اسلام کی حمایت 
کے لئے کھڑے ہو تے، ان کو یہ بھی خبر نہ تھی کہ یو نا نی فلسفہ کے سوا کو ئی اور فلسفہ اور عربی زبان کے سوا کو ئی اور علمی زبان بھی دنیا میں موجود ہے۔‘‘
اور شبلی نے جو کچھ کہا کہ:
’’ مذہب پر عموماً مذہبِ اسلام پر خصوصاً جو اعتراضات یورپ کے لوگ کر رہے ہیں،اُن کا جواب دینا کس کا فرض ہے؟..... کیاعلماء سلف نے یونانیوں کا فلسفہ نہیں سیکھا 
تھا اور اُن کے اعتراضات کے جواب نہیں دیے تھے؟......اگر اُس وقت اُس زمانہ کے فلسفہ کا سیکھنا،جائز تھا،تو اب کیوں جائز نہیں؟‘‘
اور جناب سید سلمان حسینی ندوی صاحب کے الفاظ کہ:
’’علماء کو اپنا کردار ادا کرنے کے لیے اور اقامتِ حجت کے لیے جدید علوم اور زبانوں کا اتنا حصہ حاصل کرنا ضروری ہے جس کے ذریعہ وہ دین کی تفہیم موثر اور بلیغ
 انداز میں سوسائٹی کے ہر طبقہ کے لیے کر سکیں۔......یہ بات عصری علوم کی ایک مناسب مقدار کی تعلیم سے ہی حاصل ہو سکتی ہے۔‘‘(ص۱۰۷)
اِن سب میں فرق کیا ہے؟سوائے اِس کے اور کیا کہا جائے کہ ایک بات سید احمد خاں نے کہہ دی ،پھر سید سلمان حسینی ندوی تک ہر بعد میں آنے والا محقق وہی سبق دہراتا رہا جو اُس نے اپنے پیش رو سے پڑھا تھا۔اوراگر غور سے دیکھا جا ئے،تو یہ گھسا پِٹا سبق اور بھی پرانا ہے۔ہندوستان میں سر سید نے اپنی ذہانت سے یہ اعتراض نہیں گڑھاہے؛بلکہ یورپ میں پروٹسٹینٹ فرقہ نے منطق و فلسفہ کے حوالہ سے اعتراض کا جو تجربہ اپنے پادریوں پر کیا تھا؛اُسی مجرب نسخہ کو کہ’’ یورپ اگر گپ زند آں نیز مسلم باشد‘‘ ،کے اصول پر ہندوستان میں مذہبِ اسلام پر، علمائے اسلام پر،اور اُن کے دفاعی اصولوں پربھی آزمایا گیا۔  ایسی صورت میں موصوف کا یہ ارشاد کہ :
’’اب جن مضامین نے اُن (عقلی علوم۔ف)کی جگہ لے لی ہے،ضرورت ہے کہ اُن(علوم جدیدہ)کوصحیح تناسب کے ساتھ پڑھایا جا ئے۔‘‘(۱۰۷)

x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 فہرست مضامین 3 1
3 باب-۱=ام المدارس دار العلوم دیوبند کے موسسین کا امتیازی وصف اور اُن کے مقاصد عالیہ 7 1
4 باب-۲=نیچریت (Naturalism) 10 1
5 باب-۳=فکر دیو بند،تحریک علی گڑھ اورتشکیلِ ندوہ 18 1
6 باب-۴=نصابِ تعلیم 28 1
7 باب۵=معقولات کے داخلِ درس ہونے پر اعتراضات 38 1
8 باب ۶=چند دیگرمفکرین 54 1
9 باب۷=نصاب تعلیم کے حوالہ سے بعض درد مندوں کے اِضطرابات 58 1
12 باب-۸=دیوبند میں حضرت نا نوتویؒ کے رائج کردہ نصا بِ تعلیم پر ایک نظر(اشارات) 61 1
13 باب۹=معقولات اور فلسفہ کی ضرورت:افکار جدیدہ کے تناظر میں 65 1
14 باب۱۰=معقولات اور فلسفہ کی ضرورت(اشارات) از. الامام محمد قاسم نا نوتویؒ 70 1
15 باب ۱۱=معقولات اور فلسفہ کی تعلیم اورزمانۂ حال کے اربابِ درس کا اضطراب 75 1
16 باب ۱۲=عصر حاضر میں معقولات و فلسفہ کی شدید ضرورت 78 1
17 باب ۱۳=اصولِ قاسم اور اہلِ مدارس کے تحفظات 79 1
18 باب ۱۴=درسی کتابوں کا طریقۂ تدریس از۔ حکیم الامت مولا نا اشرف علی تھانوی 80 1
19 باب ۱۵=معقولات و فلسفہ کا اِطلاقی پہلو 83 1
20 باب -۱۶= اہل علم کی خدمت میں 88 1
21 باب ۱۷=علوم جدیدہ کا پیدا کردہ مسئلۂ خیر و شر 91 1
25 الف =نیچریت کا پس منظر 10 4
27 ’’انسانیت(Humanism)‘‘ کی حقیقت 10 4
28 ۲-ب= نیچریت کا مفہوم و مصداق اور متعدد شکلیں 12 4
29 حقیقت پسندی (Realism) 13 4
31 افادیت پسندی(Utility) 13 4
32 ندوہ کا منشور 19 5
34 التباساتِ فہد 20 5
35 (۱)مصلحین امت کی تعیین میں خلط 20 5
36 (۲)فاسد اصولوں کے انتساب میں تلبیس 20 5
37 (۳)اعتقادی اجزاء میں خلط و تلبیس 20 5
38 (۴)شعور سر سید کی وضاحت میں تلبیس 21 5
39 (۵)شعورقاسم کے تعارف میں خیانت 22 5
40 استدراک 22 5
41 ناظمِ دینیات کے فرائض مقرر کردہ سرسید احمد خاں 22 5
42 سرسید کی رواداری کا اصل منشا 22 5
43 مدرسۃ العلوم میں دینیات کی تعلیم اور مولانا محمد قاسم نانوتویؒ 23 5
44 مدرسۃ العلوم کی بنیاد اورحضرت مو لانا رشید احمد گنگو ہی،حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی کو شرکت کی دعوت 24 5
45 سر سید کے قاصد اور حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اﷲ علیہ کی گفتگو 25 5
46 قاصد کا حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اﷲ علیہ کو مشورہ اور حضرتؒ کا جواب 25 5
47 یہ جواب کوئی عارف ہی دے سکتا تھا 25 5
48 دو شعور= شعور قاسم اورشعور سر سید 25 5
49 ۴ -جزئ اول=ادب،تاریخ ، اور مغربی عقلیت 29 6
50 ۴ -الف=ادب 29 6
51 ۴-ج=مغربی عقلیت 33 6
52 ۴-جزئِ دوم =تاریخ، ادب و عقلیت میں مغربی اصولوں کی تقلید کرنے والے چند اہم مفکرین 34 6
53 (۱) خواجہ الطاف حسین حالی 34 6
54 (۲)شمس العلماء شبلی نعمانی 35 6
55 (۳)محقق عبد الماجد دریابادی 35 6
57 (۱)سر سید(۲)علامہ شبلی 38 7
58 (۳)نصابِ تعلیم اورعلامہ سید سلیمان ندویؒ 39 7
59 (۴)نصابِ تعلیم اور جناب ابو الکلام آزاد 39 7
60 (۵)جناب سید سلمان حسینی ندوی او ر نصاب تعلیم 40 7
61 اضطرابات سلمان حسینی بشکلِ التباسِ فکری 42 7
73 مدیر ’’ الشریعۃ‘‘ 54 8
74 (۲)منتسبینِ قاسم 54 8
75 (۱)مولانا عبد العلی فاروقی لکھنوی زید مجدہ ۔ مدیر البدر 58 9
76 (۲)جناب ندیم الواجدی صاحب -مدیر ترجمانِ دیو بند 59 9
77 دیوبند میں ’’مروجہ نصابِ تعلیم‘‘ کی تجویز اور اس کی حکمت: 62 12
78 نصابِ درس کی خوبیاں 63 12
79 نصابِ درس کے وہ اہم امور جن پر سب سے زیادہ غم و غصہ ہے 64 12
80 جدید فلاسفی کی شاخیں اور جدید فلاسفرز 66 13
81 تحلیلی فلاسفی( Analytic philosophy) اور معروضی فلاسفی (Objectivism) 67 13
82 معروضی مطالعہ کی ترجیح-ایک لمحۂ فکریہ 68 13
83 این المفر =منطق سے فرارممکن نہیں 68 13
84 کیا منطق اور فلسفہ سے شغف رکھنے والے علوم نقلیہ سے بے زار ہو جاتے ہیں؟ 72 14
85 کیا اکابر سے منطق اور معقولات کی مذمت منقول ہے؟ 72 14
86 فلسفہ اور معقولات میں ا کابر وسلف کی مہارت 73 14
87 اضطراب اعجازی کی توجیہ 75 15
88 قول صائب : مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ ا ﷲ کی آپ بیتی 76 15
89 (الامام محمد قاسم النانوتوی اور حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کے کلام کی روشنی میں) 78 16
90 (جامع معقول و منقول مولانا ریاست علی ظفر بجنوری مد ظلہ کی تنبیات کی روشنی میں ) 79 17
91 حلِّ مطالب پر اِکتفا کرنا چا ہیے،غیر ضروری تقریر مناسب نہیں 81 18
92 استاذ کے لیے بات کی پَچ مناسب نہیں 81 18
93 مولانا یعقوب صاحب رحمۃ ا ﷲ علیہ کے درس کی خصوصیت 81 18
94 حکیم الامت حضرت تھانوی رحمۃ ا ﷲ علیہ کے درس کی خصوصیت 81 18
95 محققین اکابررحمۃ ا ﷲ علیہم کے درس کی خصوصیت 82 18
96 استاذ کے لیے قابلِ لحاظ امر 82 18
97 اِستعداد کس طرح پیدا ہوتی ہے؟ 82 18
98 اِستعداد کے موانع 82 18
99 زبان کھل جائے،بولنے کا عادی ہو جائے،اِس کا انتظام 82 18
100 درسیات میں معقولا ت کی ضرورت:مثال(۱) 83 19
101 درسیات میں معقولا ت کی ضرورت:مثال(۲) 83 19
102 درسیات میں معقولا ت کی ضرورت:مثال(۳) 84 19
103 منطق کے بغیر آدمی درسیات پڑھا نہیں سکتا (حضرۃالاستاذعارف با ا ﷲ مولانا صدیق احمد صاحب رحمہ ا ﷲ ) 84 19
104 آپ بیتی: از مولف -فخر الاسلام 84 19
105 علومِ عالیہ کے لیے علومِ آلیہ کی ضرورت ہے 85 19
106 دور جدید میں جن حضرات سے دین کو نفع ہوا،وہ معقول ہی کی بدولت ہوا 85 19
107 مدارس کو اصول صحیحہ سے سروکار ہے ،محض جدید کا رعب کافی نہیں 86 19
108 نصابِ قدیم وجدید کی آویزش کا نتیجہ 87 19
109 خرابی کااصل سبب بزرگوں کے طریق سے بے نیازی 87 19
110 ۱۶-الف=گفتگوکا سرسری جا ئزہ (تلخیص) 88 20
111 ۱۶-ب=مشورے ، گزارشیں اور تجویزیں 89 20
112 (۱)اسلام پر پڑنے والے شبہات کے ازالہ کے لیے تجویز 89 20
113 (۲)چند مسئلوں کو جانچنے کی تجویز 90 20
114 ۱۷-الف= عقلی استدلال 91 21
115 ۱۷-ب=خیر و شر،بھلائی-برائی کا اصول اہلِ مغرب کی نظر میں 91 21
116 ۱۷-ج=خیر و شر،بھلائی-برائی کا معیار از الامام محمد قاسم النانوتویؒ 92 21
117 خیر و شر کا محسوساتی معیار: 92 21
118 خیر و شر کا عقلی معیار 92 21
119 اصول:۱=’’عقل موجدِ معلومات نہیں مخبر معلومات ہے‘‘ 93 21
120 باریک فرق معلوم کرنے کا مسئلہ،اور عقل کے التباسات 93 21
121 اصول:۲=جو چیز مطلوبِ اہم اور اور مقصودِ اعظم ہو تی ہے،اُسی پر بھلائی،برا ئی کا اِنحصار ہو تا ہے 94 21
122 نیک و بد،بھلا،برا ،خیر و شرکے ا طلاقات 94 21
123 جس بات پر انسان کی بھلائی برائی موقوف ہے،اُس کے دریافت کرنے کا طریقہ: 94 21
124 اصول:۳=انسان کا مقصودِ اہم اور مطلبِ اعظم نفع کے کام کر نا اور نقصان کے کا موں سے بچنا ہے 94 21
125 انسان کے اجزاء ترکیبیہ 95 21
126 نتیجۂ بحث:بعضے کام بھلے اور بعضے برے یقیناً ہیں 95 21
127 اصول:۴=عقل اور قوتِ عمل میں رابطہ حاکم اور محکوم کا ہے ۔قوتِ عمل عقل کے لئے وہی درجہ رکھتی ہے جو قلم کاتب کے لئے 95 21
128 اصول:۵=جو چیز کسی کے حق میں خدا نے اول سے نافع پیدا کی ہے،وہ اُس کی رغبتِ طبع ہو تی 96 21
129 رغبت کی مثال 97 21
130 نفر ت کی مثال 97 21
131 اصولِ فطرت کی حقیقت اور عقلِ سلیم 97 21
132 کامل العقل کی اہمیت اور ضرورت 97 21
133 اصول:۶= کامل طبیبِ روحانی کے نسخہ میں کمی بیشی جائز نہیں 98 21
134 اِس بات کو یاد رکھنا چا ہیے کہ بہت کارآمد ہے 98 21
135 اصول:۷= کوئی طبیبِ روحانی اگر ایسی بات بتلائے کہ اُس کا ہو نا بہت سے 98 21
136 اصول:۸=بھلائی برا ئی ہر شی کی ازلی ہے۔اصول:۹=عقل و روح کے لیے مضر و نافع اعمال کا نام ہی بھلا ئی برا ئی ہے 98 21
137 اصول:۸=بھلائی برا ئی ہر شی کی ازلی ہے۔ 98 21
138 ۹=عقل و روح کے لیے مضر و نافع اعمال کا نام ہی بھلا ئی برا ئی ہے 98 21
139 اصول:۱۰=دینِ حق کے کر نے نہ کرنے کی باتیں وہی ہیںجن سے عقلِ صاف او رروح پا ک کو رغبت یا نفرت ہو 98 21
140 اصول:۱۱= دینِ حق مرغو بِ طبع ہو تا ہے 99 21
141 اصول:۱۲=روح کو بدن پر ہر بات میں قیاس نہیںکیا جا سکتا 100 21
142 اصول:۱۳= طبیعت کی رغبت کا اثر تب ہی ظا ہر ہو گا جب کہ مانع نہ ہو 100 21
143 دینِ حق جب مرغوبِ طبیعت ٹھہرا،تو طبیعت کے موافق عمل درآمد کرنا چا ہیے؟ 101 21
144 امراضِ روحانی کو مرض نہ سمجھنے کی مثالیں 101 21
145 مثال(۱)معاشرتی امراض(Social diseases) 102 21
146 مثال(۲):نسلوں اور قوموں کے امراض 102 21
148 مثال(۳)امراض پیشہ(Occupation) 102 21
149 مثال(۴)امراضِ عادات(Habbitual diseases) 102 21
150 مثال(۵)موروثی(Heriditary) 102 21
151 تبدیلیٔ زمانہ سے احوال و احکام میں تبدیلی 102 21
152 اصول:۱۴=ہر عمل کسی نہ کسی مرتبے کا حسن و قبح رکھتا ہے 103 21
153 اختتامی التماس 104 21
Flag Counter