حضرت نا نوتویؒ کی تحقیقات کی طرف التفات فرما لیا ہو تا،تو کو ئی وجہ نہیں تھی کہ اُن کی مشکل دور نہ ہو گئی ہوتی۔اور کوئی وجہ نہیں تھی کہ موضوع سے متعلق آئنسٹائن کی بیس سے زائد کتابیں مطالعہ میں رکھنے کے بعد ڈاکٹر صاحب مرحوم اسلامی نقطۂ نظر کی وضاحت میں تشنگی چھوڑ جاتے۔درسیات کی یہی اہمیت تھی جس کے پیش نظر فیض یافتۂ حکیم الامت نے صراحت کے ساتھ فرمایا تھا:
’’درسِ نظامی کا پڑھا ہواطالب علم اگر محنت سے پڑھے،تو یہ نصاب اتنا کامل و مکمل ہے کہ اِس میں کسی اضافہ کی گنجائش نہیں۔تعلیم کے بعد بھی اگر وہ محنت
جا ری رکھے،تو اُس کو اور کسی نصاب کی ضرورت نہیں۔‘‘
یہ ارشاد مولانا علی میاں ندوی کے والد بزرگوار حکیم عبد الحی صاحبؒکا ہے جو حکیم الامت حضرت تھانوی ؒکے شاگرد رہ چکے تھے؛لیکن بعد میں وہ ندوہ کے بانیوں میں بھی شامل ہوئے؛اس لیے خیال مذ کور میں تبدیلی اُنہیں راس آئی،اورانہوں نے معقولات پر ادب کی فوقیت کی تائید کی۔ ندوہ کے ابتدائی دور کا نصاب ترتیب دیتے وقت کا حال اور اُس وقت کا عمل و رد عمل جس میں وہ بھی شریک تھے،ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ :
’’ منطق و فلسفہ کی غیر ضروری کتابیں کم کر دی گئیں،ادب اور بلاغت اور علوم دینیہ کی کتابیں زیادہ کر دی گئی ہیں؛مگر اِس پر بھی لوگ برہم ہیں کہ زواہدِ ثلاثہ
اور شروحِ سلم اور صدرا اور شمس بازغہ کا ایک ایک حرف پڑھایا جا وے۔‘‘(امداد الفتاوی ج۶ص۲۳۸)
لیکن اگر پڑھایا جاتا تو حرج کیا تھا۔اُن کے پڑھانے کا نفع جو برابر جاری تھا،مسلسل جا ری رہتا۔اور نہ پڑھانے کا جو نقصان ہوا،وہ آنکھوں کے سامنے ہے۔پھر وہی بات کہ ایسے اثرات بہت جلدی متعدی ہو تے ہیں،قدیم درس نظامی کے حامل مدارس کے نصاب سے بھی رفتہ رفتہ تمام ایسی کتامیں ہٹائی گئیں ،یعنی نہ صرف زواہدِ ثلاثہ ، شروحِ سلم ، صدرا وشمس بازغہ ؛بلکہ’’ شرح عقائد جلالی‘‘،’’میر زاہد‘‘،’’شرح مواقف‘‘بھی نصاب بدر کی گئیں۔دار العلوم دیوبند کے نصاب میں:
۱۹۷۷ء تک ملا حسن تو داخلِ نصاب تھی اور حمد اﷲ اختیاری مضمون کے طور پرشامل تھی،جب کہ ’’تکمیل معقولات‘‘کے نصاب میں یہ کتابیں داخل رہیں:
قاضی مبارک تا امہات المطالب،حمد اﷲ تا شرطیات،صدرا تا بحث صورتِ جسمیہ،شمس بازغہ تا بحث مکان ص۴۰،شرح عقائد جلالی تا بحث اصلح ص۷۲،
مسلم الثبوت ۴ باب .....رسالہ حمیدیہ۔تکمیل دینیات میں مناظرہ کے موضوع کے لیے رشیدیہ داخل تھی۔ تکمیل ادب میں تاریخ الادب العربی اور مطالعہ
کے طور پر حیاتی احمد امین اور الایام ڈاکٹر طہ حسین شامل کر دی گئیں ۔ اِس کے بعد ۱۹۹۴ء میں تجویز کردہ جدید نصاب میں سلم،میبذی،شرح عقائد تو اب بھی
داخل ہیں،باقی کتابیں غالباً خارج کر دی گئیں ہیں۔اور جو چیزیں شامل کی گئیں ،وہ یہ ہیں:تاریخ ،علم تمدن،جغرافیہ،تاریخ المذاہب الاسلامیہ(شیخ ابو زہرہ مصری)
با ت طولانی ہو گئی۔ حاصلِ کلام یہ کہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ غیر قوموں کی ترقی دیکھ کر خود اپنے علم و عمل،پر افسوس کیا جاتا،انابت وتوجہ الی اﷲ اور فہم دین کی کمی کو قصور وار ٹھہرا یا جا تا،اور یہ سمجھا جا تا کہ یہ ہماری شامتِ اعمال ہے کہ تمام دنیا میں مغلوب و مقہور زندگی کے دن دیکھنے پڑ رہے ہیں،جس کی وجہ سے غلبہ بالسنان تو آیا گیا ہوا،ایک غلبہ بالبرہان ایسا تھا جس میں ہم کبھی مغلوب نہیں ہو ئے تھے،اور اُس کے لیے علمائے سلف سے محفوظ ومنقول صحیح اصولوں کے تحفظ کے لیے بتوفیقِ الٰہی درسیات کا بند و بست تھا،اور معقولات و فلسفہ کی قوت اُن کی پشت پر تھی ،جومتقدمین سے لے کر حضرت نا نوتویؒ کے عہدتک اور اِن کے بعد متبعین میں ،اب تک محفوظ ہے،لیکن موصوف جناب سلمان حسینی ندوی کی ’’دانشمندی ‘‘کا کرشمہ دیکھئے کہ اُسی جز کو قصور وار ٹھہرا رہے ہیں،جس سے درسیات کو کمک مل ر ہی تھی ۔ موصوف کے نزدیک:
’’منطق میں صرف دو کتابیں کافی ہیں مثلاً تیسیر المنطق اور مرقات۔یہ بھی صرف اصطلاحات سے ما نوس کرنے کے لیے۔ ‘‘اور’’فلسفہ میں صرف وہ
اصطلاحات جو ہماری قدیم فقہی، اصولی اور کلامی کتا بوں میں در آئی ہیں،پڑھا دینی چا ہئیں۔‘‘(ص۱۳۵)
بس چلو چھٹی ہوئی۔تو اب یہ سوال کہ اس کے بعد اسلام کے دفاعی نظام کے تحفظ کے لیے ،اور اسلامی عقائد و احکام پرغیروں کے حملے سے حفاظت کے لیے کیا کرنا ہو گا؟تو جناب سلمان حسینی کی’’ نظر دور بین ‘‘میں اِس کا جواب یہ ہے کہ دشمنوں کے حملوں سے بچنے کے لیے اُنہی کمین گاہوں میں