Deobandi Books

الامام محمد قاسم النانوتوی کی فکر اور بدلتے حالات میں مدارس کی تر جیحات

51 - 104
حضرت نا نوتویؒ کی تحقیقات کی طرف التفات فرما لیا ہو تا،تو کو ئی وجہ نہیں تھی کہ اُن کی مشکل دور نہ ہو گئی ہوتی۔اور کوئی وجہ نہیں تھی کہ موضوع سے متعلق آئنسٹائن کی بیس سے زائد کتابیں مطالعہ میں رکھنے کے بعد ڈاکٹر صاحب مرحوم اسلامی نقطۂ نظر کی وضاحت میں تشنگی چھوڑ جاتے۔درسیات کی یہی اہمیت تھی جس کے پیش نظر  فیض یافتۂ حکیم الامت نے صراحت کے ساتھ فرمایا تھا:
’’درسِ نظامی کا پڑھا ہواطالب علم اگر محنت سے پڑھے،تو یہ نصاب اتنا کامل و مکمل ہے کہ اِس میں کسی اضافہ کی گنجائش نہیں۔تعلیم کے بعد بھی اگر وہ محنت
 جا ری رکھے،تو اُس کو اور کسی نصاب کی ضرورت نہیں۔‘‘
 یہ ارشاد مولانا علی میاں ندوی کے والد بزرگوار حکیم عبد الحی صاحبؒکا ہے جو حکیم الامت حضرت تھانوی ؒکے شاگرد رہ چکے تھے؛لیکن بعد میں وہ ندوہ کے بانیوں میں بھی شامل ہوئے؛اس لیے خیال مذ کور میں تبدیلی اُنہیں راس آئی،اورانہوں نے معقولات پر ادب کی فوقیت کی تائید کی۔ ندوہ کے ابتدائی دور کا نصاب ترتیب دیتے وقت کا حال اور اُس وقت کا عمل و رد عمل جس میں وہ بھی شریک تھے،ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ :
’’ منطق و فلسفہ کی غیر ضروری کتابیں کم کر دی گئیں،ادب اور بلاغت اور علوم دینیہ کی کتابیں زیادہ کر دی گئی ہیں؛مگر اِس پر بھی لوگ برہم ہیں کہ زواہدِ ثلاثہ
 اور شروحِ سلم اور صدرا اور شمس بازغہ کا ایک ایک حرف پڑھایا جا وے۔‘‘(امداد الفتاوی ج۶ص۲۳۸)
لیکن اگر پڑھایا جاتا تو حرج کیا تھا۔اُن کے پڑھانے کا نفع جو برابر جاری تھا،مسلسل جا ری رہتا۔اور نہ پڑھانے کا جو نقصان ہوا،وہ آنکھوں کے سامنے ہے۔پھر وہی بات کہ ایسے اثرات بہت جلدی متعدی ہو تے ہیں،قدیم درس نظامی کے حامل مدارس کے نصاب سے بھی رفتہ رفتہ تمام ایسی  کتامیں ہٹائی گئیں ،یعنی نہ صرف زواہدِ ثلاثہ ، شروحِ سلم ، صدرا وشمس بازغہ ؛بلکہ’’ شرح عقائد جلالی‘‘،’’میر زاہد‘‘،’’شرح مواقف‘‘بھی نصاب بدر کی گئیں۔دار العلوم دیوبند کے نصاب میں:
 ۱۹۷۷ء؁ تک ملا حسن تو داخلِ نصاب تھی اور حمد اﷲ اختیاری مضمون کے طور پرشامل تھی،جب کہ ’’تکمیل معقولات‘‘کے نصاب میں یہ کتابیں داخل رہیں:
قاضی مبارک تا امہات المطالب،حمد اﷲ تا شرطیات،صدرا تا بحث صورتِ جسمیہ،شمس بازغہ تا بحث مکان ص۴۰،شرح عقائد جلالی تا بحث اصلح ص۷۲،
مسلم الثبوت ۴ باب .....رسالہ حمیدیہ۔تکمیل دینیات میں مناظرہ کے موضوع کے لیے رشیدیہ داخل تھی۔ تکمیل ادب میں تاریخ الادب العربی اور مطالعہ
 کے طور پر حیاتی احمد امین اور الایام ڈاکٹر طہ حسین شامل کر دی گئیں ۔ اِس کے بعد ۱۹۹۴ء؁ میں تجویز کردہ جدید نصاب میں سلم،میبذی،شرح عقائد تو اب بھی 
داخل ہیں،باقی کتابیں غالباً خارج کر دی گئیں ہیں۔اور جو چیزیں شامل کی گئیں ،وہ یہ ہیں:تاریخ ،علم تمدن،جغرافیہ،تاریخ المذاہب الاسلامیہ(شیخ ابو زہرہ مصری)  
 با ت طولانی ہو گئی۔ حاصلِ کلام یہ کہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ غیر قوموں کی ترقی دیکھ کر خود اپنے علم و عمل،پر افسوس کیا جاتا،انابت وتوجہ الی اﷲ اور فہم دین کی کمی کو قصور وار ٹھہرا یا جا تا،اور یہ سمجھا جا تا کہ یہ ہماری شامتِ اعمال ہے کہ تمام دنیا میں مغلوب و مقہور زندگی کے دن دیکھنے پڑ رہے ہیں،جس کی وجہ سے غلبہ بالسنان تو آیا گیا ہوا،ایک غلبہ بالبرہان ایسا تھا جس میں ہم کبھی مغلوب نہیں ہو ئے تھے،اور اُس کے لیے علمائے سلف سے محفوظ ومنقول صحیح اصولوں کے تحفظ کے لیے بتوفیقِ الٰہی درسیات کا بند و بست تھا،اور معقولات و فلسفہ کی قوت اُن کی پشت پر تھی ،جومتقدمین سے لے کر حضرت نا نوتویؒ  کے عہدتک اور اِن کے بعد متبعین میں ،اب تک محفوظ ہے،لیکن موصوف جناب سلمان حسینی ندوی کی ’’دانشمندی ‘‘کا کرشمہ دیکھئے کہ اُسی جز کو قصور وار ٹھہرا رہے ہیں،جس سے درسیات کو کمک مل ر ہی تھی ۔ موصوف کے نزدیک:
’’منطق میں صرف دو کتابیں کافی ہیں مثلاً تیسیر المنطق اور مرقات۔یہ بھی صرف اصطلاحات سے ما نوس کرنے کے لیے۔ ‘‘اور’’فلسفہ میں صرف وہ
 اصطلاحات جو ہماری قدیم فقہی، اصولی اور کلامی کتا بوں میں در آئی ہیں،پڑھا دینی چا ہئیں۔‘‘(ص۱۳۵)
بس چلو چھٹی ہوئی۔تو اب یہ سوال کہ اس کے بعد اسلام کے دفاعی نظام کے تحفظ کے لیے ،اور اسلامی عقائد و احکام پرغیروں کے حملے سے حفاظت کے لیے کیا کرنا ہو گا؟تو جناب سلمان حسینی کی’’ نظر دور بین ‘‘میں اِس کا جواب یہ ہے کہ دشمنوں کے حملوں سے بچنے کے لیے اُنہی کمین گاہوں میں

x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 فہرست مضامین 3 1
3 باب-۱=ام المدارس دار العلوم دیوبند کے موسسین کا امتیازی وصف اور اُن کے مقاصد عالیہ 7 1
4 باب-۲=نیچریت (Naturalism) 10 1
5 باب-۳=فکر دیو بند،تحریک علی گڑھ اورتشکیلِ ندوہ 18 1
6 باب-۴=نصابِ تعلیم 28 1
7 باب۵=معقولات کے داخلِ درس ہونے پر اعتراضات 38 1
8 باب ۶=چند دیگرمفکرین 54 1
9 باب۷=نصاب تعلیم کے حوالہ سے بعض درد مندوں کے اِضطرابات 58 1
12 باب-۸=دیوبند میں حضرت نا نوتویؒ کے رائج کردہ نصا بِ تعلیم پر ایک نظر(اشارات) 61 1
13 باب۹=معقولات اور فلسفہ کی ضرورت:افکار جدیدہ کے تناظر میں 65 1
14 باب۱۰=معقولات اور فلسفہ کی ضرورت(اشارات) از. الامام محمد قاسم نا نوتویؒ 70 1
15 باب ۱۱=معقولات اور فلسفہ کی تعلیم اورزمانۂ حال کے اربابِ درس کا اضطراب 75 1
16 باب ۱۲=عصر حاضر میں معقولات و فلسفہ کی شدید ضرورت 78 1
17 باب ۱۳=اصولِ قاسم اور اہلِ مدارس کے تحفظات 79 1
18 باب ۱۴=درسی کتابوں کا طریقۂ تدریس از۔ حکیم الامت مولا نا اشرف علی تھانوی 80 1
19 باب ۱۵=معقولات و فلسفہ کا اِطلاقی پہلو 83 1
20 باب -۱۶= اہل علم کی خدمت میں 88 1
21 باب ۱۷=علوم جدیدہ کا پیدا کردہ مسئلۂ خیر و شر 91 1
25 الف =نیچریت کا پس منظر 10 4
27 ’’انسانیت(Humanism)‘‘ کی حقیقت 10 4
28 ۲-ب= نیچریت کا مفہوم و مصداق اور متعدد شکلیں 12 4
29 حقیقت پسندی (Realism) 13 4
31 افادیت پسندی(Utility) 13 4
32 ندوہ کا منشور 19 5
34 التباساتِ فہد 20 5
35 (۱)مصلحین امت کی تعیین میں خلط 20 5
36 (۲)فاسد اصولوں کے انتساب میں تلبیس 20 5
37 (۳)اعتقادی اجزاء میں خلط و تلبیس 20 5
38 (۴)شعور سر سید کی وضاحت میں تلبیس 21 5
39 (۵)شعورقاسم کے تعارف میں خیانت 22 5
40 استدراک 22 5
41 ناظمِ دینیات کے فرائض مقرر کردہ سرسید احمد خاں 22 5
42 سرسید کی رواداری کا اصل منشا 22 5
43 مدرسۃ العلوم میں دینیات کی تعلیم اور مولانا محمد قاسم نانوتویؒ 23 5
44 مدرسۃ العلوم کی بنیاد اورحضرت مو لانا رشید احمد گنگو ہی،حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی کو شرکت کی دعوت 24 5
45 سر سید کے قاصد اور حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اﷲ علیہ کی گفتگو 25 5
46 قاصد کا حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اﷲ علیہ کو مشورہ اور حضرتؒ کا جواب 25 5
47 یہ جواب کوئی عارف ہی دے سکتا تھا 25 5
48 دو شعور= شعور قاسم اورشعور سر سید 25 5
49 ۴ -جزئ اول=ادب،تاریخ ، اور مغربی عقلیت 29 6
50 ۴ -الف=ادب 29 6
51 ۴-ج=مغربی عقلیت 33 6
52 ۴-جزئِ دوم =تاریخ، ادب و عقلیت میں مغربی اصولوں کی تقلید کرنے والے چند اہم مفکرین 34 6
53 (۱) خواجہ الطاف حسین حالی 34 6
54 (۲)شمس العلماء شبلی نعمانی 35 6
55 (۳)محقق عبد الماجد دریابادی 35 6
57 (۱)سر سید(۲)علامہ شبلی 38 7
58 (۳)نصابِ تعلیم اورعلامہ سید سلیمان ندویؒ 39 7
59 (۴)نصابِ تعلیم اور جناب ابو الکلام آزاد 39 7
60 (۵)جناب سید سلمان حسینی ندوی او ر نصاب تعلیم 40 7
61 اضطرابات سلمان حسینی بشکلِ التباسِ فکری 42 7
73 مدیر ’’ الشریعۃ‘‘ 54 8
74 (۲)منتسبینِ قاسم 54 8
75 (۱)مولانا عبد العلی فاروقی لکھنوی زید مجدہ ۔ مدیر البدر 58 9
76 (۲)جناب ندیم الواجدی صاحب -مدیر ترجمانِ دیو بند 59 9
77 دیوبند میں ’’مروجہ نصابِ تعلیم‘‘ کی تجویز اور اس کی حکمت: 62 12
78 نصابِ درس کی خوبیاں 63 12
79 نصابِ درس کے وہ اہم امور جن پر سب سے زیادہ غم و غصہ ہے 64 12
80 جدید فلاسفی کی شاخیں اور جدید فلاسفرز 66 13
81 تحلیلی فلاسفی( Analytic philosophy) اور معروضی فلاسفی (Objectivism) 67 13
82 معروضی مطالعہ کی ترجیح-ایک لمحۂ فکریہ 68 13
83 این المفر =منطق سے فرارممکن نہیں 68 13
84 کیا منطق اور فلسفہ سے شغف رکھنے والے علوم نقلیہ سے بے زار ہو جاتے ہیں؟ 72 14
85 کیا اکابر سے منطق اور معقولات کی مذمت منقول ہے؟ 72 14
86 فلسفہ اور معقولات میں ا کابر وسلف کی مہارت 73 14
87 اضطراب اعجازی کی توجیہ 75 15
88 قول صائب : مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ ا ﷲ کی آپ بیتی 76 15
89 (الامام محمد قاسم النانوتوی اور حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کے کلام کی روشنی میں) 78 16
90 (جامع معقول و منقول مولانا ریاست علی ظفر بجنوری مد ظلہ کی تنبیات کی روشنی میں ) 79 17
91 حلِّ مطالب پر اِکتفا کرنا چا ہیے،غیر ضروری تقریر مناسب نہیں 81 18
92 استاذ کے لیے بات کی پَچ مناسب نہیں 81 18
93 مولانا یعقوب صاحب رحمۃ ا ﷲ علیہ کے درس کی خصوصیت 81 18
94 حکیم الامت حضرت تھانوی رحمۃ ا ﷲ علیہ کے درس کی خصوصیت 81 18
95 محققین اکابررحمۃ ا ﷲ علیہم کے درس کی خصوصیت 82 18
96 استاذ کے لیے قابلِ لحاظ امر 82 18
97 اِستعداد کس طرح پیدا ہوتی ہے؟ 82 18
98 اِستعداد کے موانع 82 18
99 زبان کھل جائے،بولنے کا عادی ہو جائے،اِس کا انتظام 82 18
100 درسیات میں معقولا ت کی ضرورت:مثال(۱) 83 19
101 درسیات میں معقولا ت کی ضرورت:مثال(۲) 83 19
102 درسیات میں معقولا ت کی ضرورت:مثال(۳) 84 19
103 منطق کے بغیر آدمی درسیات پڑھا نہیں سکتا (حضرۃالاستاذعارف با ا ﷲ مولانا صدیق احمد صاحب رحمہ ا ﷲ ) 84 19
104 آپ بیتی: از مولف -فخر الاسلام 84 19
105 علومِ عالیہ کے لیے علومِ آلیہ کی ضرورت ہے 85 19
106 دور جدید میں جن حضرات سے دین کو نفع ہوا،وہ معقول ہی کی بدولت ہوا 85 19
107 مدارس کو اصول صحیحہ سے سروکار ہے ،محض جدید کا رعب کافی نہیں 86 19
108 نصابِ قدیم وجدید کی آویزش کا نتیجہ 87 19
109 خرابی کااصل سبب بزرگوں کے طریق سے بے نیازی 87 19
110 ۱۶-الف=گفتگوکا سرسری جا ئزہ (تلخیص) 88 20
111 ۱۶-ب=مشورے ، گزارشیں اور تجویزیں 89 20
112 (۱)اسلام پر پڑنے والے شبہات کے ازالہ کے لیے تجویز 89 20
113 (۲)چند مسئلوں کو جانچنے کی تجویز 90 20
114 ۱۷-الف= عقلی استدلال 91 21
115 ۱۷-ب=خیر و شر،بھلائی-برائی کا اصول اہلِ مغرب کی نظر میں 91 21
116 ۱۷-ج=خیر و شر،بھلائی-برائی کا معیار از الامام محمد قاسم النانوتویؒ 92 21
117 خیر و شر کا محسوساتی معیار: 92 21
118 خیر و شر کا عقلی معیار 92 21
119 اصول:۱=’’عقل موجدِ معلومات نہیں مخبر معلومات ہے‘‘ 93 21
120 باریک فرق معلوم کرنے کا مسئلہ،اور عقل کے التباسات 93 21
121 اصول:۲=جو چیز مطلوبِ اہم اور اور مقصودِ اعظم ہو تی ہے،اُسی پر بھلائی،برا ئی کا اِنحصار ہو تا ہے 94 21
122 نیک و بد،بھلا،برا ،خیر و شرکے ا طلاقات 94 21
123 جس بات پر انسان کی بھلائی برائی موقوف ہے،اُس کے دریافت کرنے کا طریقہ: 94 21
124 اصول:۳=انسان کا مقصودِ اہم اور مطلبِ اعظم نفع کے کام کر نا اور نقصان کے کا موں سے بچنا ہے 94 21
125 انسان کے اجزاء ترکیبیہ 95 21
126 نتیجۂ بحث:بعضے کام بھلے اور بعضے برے یقیناً ہیں 95 21
127 اصول:۴=عقل اور قوتِ عمل میں رابطہ حاکم اور محکوم کا ہے ۔قوتِ عمل عقل کے لئے وہی درجہ رکھتی ہے جو قلم کاتب کے لئے 95 21
128 اصول:۵=جو چیز کسی کے حق میں خدا نے اول سے نافع پیدا کی ہے،وہ اُس کی رغبتِ طبع ہو تی 96 21
129 رغبت کی مثال 97 21
130 نفر ت کی مثال 97 21
131 اصولِ فطرت کی حقیقت اور عقلِ سلیم 97 21
132 کامل العقل کی اہمیت اور ضرورت 97 21
133 اصول:۶= کامل طبیبِ روحانی کے نسخہ میں کمی بیشی جائز نہیں 98 21
134 اِس بات کو یاد رکھنا چا ہیے کہ بہت کارآمد ہے 98 21
135 اصول:۷= کوئی طبیبِ روحانی اگر ایسی بات بتلائے کہ اُس کا ہو نا بہت سے 98 21
136 اصول:۸=بھلائی برا ئی ہر شی کی ازلی ہے۔اصول:۹=عقل و روح کے لیے مضر و نافع اعمال کا نام ہی بھلا ئی برا ئی ہے 98 21
137 اصول:۸=بھلائی برا ئی ہر شی کی ازلی ہے۔ 98 21
138 ۹=عقل و روح کے لیے مضر و نافع اعمال کا نام ہی بھلا ئی برا ئی ہے 98 21
139 اصول:۱۰=دینِ حق کے کر نے نہ کرنے کی باتیں وہی ہیںجن سے عقلِ صاف او رروح پا ک کو رغبت یا نفرت ہو 98 21
140 اصول:۱۱= دینِ حق مرغو بِ طبع ہو تا ہے 99 21
141 اصول:۱۲=روح کو بدن پر ہر بات میں قیاس نہیںکیا جا سکتا 100 21
142 اصول:۱۳= طبیعت کی رغبت کا اثر تب ہی ظا ہر ہو گا جب کہ مانع نہ ہو 100 21
143 دینِ حق جب مرغوبِ طبیعت ٹھہرا،تو طبیعت کے موافق عمل درآمد کرنا چا ہیے؟ 101 21
144 امراضِ روحانی کو مرض نہ سمجھنے کی مثالیں 101 21
145 مثال(۱)معاشرتی امراض(Social diseases) 102 21
146 مثال(۲):نسلوں اور قوموں کے امراض 102 21
148 مثال(۳)امراض پیشہ(Occupation) 102 21
149 مثال(۴)امراضِ عادات(Habbitual diseases) 102 21
150 مثال(۵)موروثی(Heriditary) 102 21
151 تبدیلیٔ زمانہ سے احوال و احکام میں تبدیلی 102 21
152 اصول:۱۴=ہر عمل کسی نہ کسی مرتبے کا حسن و قبح رکھتا ہے 103 21
153 اختتامی التماس 104 21
Flag Counter