’’ اُس سے فارغ ہو نے وا لے مسجد و مدرسہ کی چہار دیواری کے لیے رہ گئے۔‘‘
یہ لکھ کر جمود و تعطل کے اسباب کی گفتگو شروع کردی۔آئیے دیکھیں موصوف نے اسباب کیا ذکر کیے ہیں۔
التباس۸:علماء کے جمود و تعطل کے اسباب جناب سلما ن حسینی ندوی کی نظر میں
جمود و محدودیت کے ا سباب ، دو ذکر کیے ہیں:(۱)دین و دنیا کی محدود تفسیر و تشریح(۲)مسلمانوں کا تسخیر کا ئنات سے خود کو دور رکھنا۔
لیکن ابھی بتایا جا چکا ہے کہ یہ اسباب وہی ہیں جنہیں سر سید احمد خاں پہلے ذکر کر چکے ہیں،البتہ؛یہاں پرہم یہ بھی بتا دینا چا ہتے ہیںکہ پہلے سبب کی شکل میں جو اعتراض کیا گیا ہے، وہ صرف دور جدید کے فضلاء مدارس پر و ارد نہیں ہو تا؛بلکہ حضرت نا نوتویؒ ،شاہ ولی اﷲؒ اور ان سے پہلے کے اکابر و اسلاف بھی اِس کی زد میں آتے ہیں؛کیوں کہ حضرت شاہ صاحب کے یہاں بھی دین اور دنیا کی تفریق تھی ۔ رہا دوسرا سبب ،تو وہ اسی پہلے سبب کی فرع ہے۔یہی وجہ ہے کہ جناب وحید الدین احمد خان نے علماء کے جمود پر تنقید کرتے ہوئے لکھا ہے کہ جس وقت شاہ ولی اﷲ صاحب دینی علوم کی تشریح اور اسلام کا عقلی دفاع کر نے میں لگے ہوئے تھے،وہ عین وہی دور ہے جب اسحاق نیوٹن سائنسی تحقیق کے ذریعہ فطرت کے رازہائے سر بستہ سے پردہ اٹھا رہا تھا۔(۱)
حاشیہ:(۱)اگرچہ دونوں کے زمانوں میں کسی قدر تقدم و تاخر ہے،حضرت شاہ صاحب کے والد کا زمانہ عین نیوٹن کا زمانہ ہے۔پھر ایک شاہ ولی اﷲ کیا! حضرت تھانویؒ کے متعلق بھی کہا جا سکتا ہے کہ جس وقت وہ روح میں پاکیزگی لانے کی غرض سے لطائفِ ستہ کی تحقیق اپنے مسترشدین کے سامنے بیان کر رہے تھے،اور صوفیائے کرام کی تحقیقات کے سامنے حکماء و اشراقیین کی تحقیقات کی بے ثباتی اور جدید طبعیین کا جحود اور کوتاہ پروازی ظاہر کر رہے تھے،عین اسی وقت آئنسٹائن نظریۂ کوانٹم(Quantum theory)اور انفجار عظیم(Big bang)کے مسائل بیان کر کے اپنے متبعین کے زعم میں اب تک کی قائم شدہ تمام روایتی و مذہبی بساط الٹ رہا تھا۔لیکن جب یہ معلوم ہو کہ عقلی علوم خودمقصود نہیں ہیں؛بلکہ ذریعۂ مقصود ہو نے کی وجہ سے اور دینی علوم میں معاون ہو نے کی حیثیت سے مقصود بالغیر ہیں،تب اگر دیدۂ بصیرت ہو،تو:جہاں:
(۱)یہ نظر آئے گا کہ جس وقت جان ڈالٹن اور متعدد مغربی محققین ایٹم کے ذرات کو توڑنے میں لگے ہوئے تھے ،وہیں یہ بھی نظر آئے گا کہ حضرت نانوتویؒذی حیات اور غیرذی حیات (Living & Non living)کی تحقیق کے باب میں سائنس کو چیلنج کر چکے تھے ،وجودیات(Ontology)
کے باب میں جدید فلاسرز کے دلائل کے تمام طلسم توڑ چکے تھے زمان و مکان کی تحقیق اوراجزائے غیر منقسمہ(کائنات کی بنیادی اینٹوں) کے ثبوت کی فراہمی سے فارغ ہو چکے تھے،اورتعدادِ عناصر کی پیشگوئی کرنے والے سائنسداں میڈلیفؔ کی طرح یہ پہلے ہی بتلا چکے تھے کہ کسی عظیم حادثہ- جس میں دنیا کا نظام تباہ ہو جائے؛مثلاً قیامت آنے -سے پہلے جس چیز کی تجزِّ ی عمل میں آئے گی،وہ چیز وہ نہیں ہوگی جس کے نہ ٹوٹنے کا دعوی ہے۔
(۲)اور یہ بھی نظر آئے گا کہ حضرتؒ کی یہ اور اس جیسی تحقیقات کے بعد نہ صرف نیوٹن کے وضع کردہ بعضے قانون بے دلیل مفروضے نکلے؛بلکہ بعد میں آنے والے سائنس داں ڈالٹن ، آئنسٹائن، بہر ،ہاکنز اور پیٹرہگ وغیرہ کے اکتشافات بعضے تو ازکار رفتہ نکلے اور دوسرے بعض، حضرت کی تحقیق کے تائیدی اِشارات ہی فراہم کر سکے۔
(۳)نیز یہ بھی معلوم ہو جا ئے گا کہ عقلی علوم تمام اِزموں،نظریوں،سائنس کی تمام شاخوں کے وضع کردہ قانونوں اور علوم جدیدہ کے تمام دعاوی و نتائج کو پرکھنے کے لیے ہواکر تے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اس معیار پر جب ڈاکٹر اقبال کو سائنسی مسائل پرکھنے کی غرض سے شمس بازغہ کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت پیش آئی،تو جو لوگ شمس بازغہ اور صدرا کی مزاولت درسیات میں ترک کر چکے تھے،اُن کی طرف رجوع کر نے سے ڈاکٹر صاحب کی پریشانی دور نہ ہو سکی ۔اگر ڈاکٹر صاحب مرحوم نے اُن با توفیق اہل فہم کی طرف رجوع کیا ہو تا جن کو ان کتابوں( شمس بازغہ اور صدرا) کی طرف توجہ تھی ،نیز