بگڑی ہو ئی صورت ہے،اور وہی آج تک اسلامی تعلیم گا ہوں میں رائج ہے۔‘‘جس سے معلوم ہوا کہ شیخ الہند بگڑے ہوئے نصابِ تعلیم کے ہی فیض یافتہ ہیں۔ اب خیال کرنے کے قابل یہ امر ہے کہ جب اِس کے رائج کرنے وا لے حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ ہیں ،اور مولف کے بقول: اُنہوں نے اس نصاب کو حالتِ اضطرار میں جاری کیا تھا۔تو حالتِ اضطرار میں جاری ہونے والے بگڑے ہو ئے نصاب تعلیم کے ساتھ ہی حضرت شیخ الہند کے ’بندوق کا نشانہ لگا لینے والی روشن خیالی‘کا ظہور تو ’’درسِ نظامی کی بگڑی ہو ئی ‘‘شکل والے نصابِ تعلیم کا ایک بڑا کارنامہ اور بہترین پروڈکشن ہوا۔پھرموصوف کااِس نصاب کو جمود و تعطل کا سبب گرداننا،کیوں کر درست ہو گا؟ جس پر آں موصوف نے بڑا زور لگایا ہے۔
(۲)دوسرے نمبر کا تجزیہ :اس نصاب پر جناب سلما ن حسینی ندوی کو جو اعتراضات آج ہیں ،وہی اعتراضات انیسویں صدی کے ثلثِ آخر میں(یعنی۱۸۶۸ء سے ۱۸۹۸ءتک سر سید احمد خاں کو رہے،۱۸۸۳ء سے ۱۹۱۴ء (آخرِ عمر)تک شبلی کو رہے۔پھر یہ جا نشینی،اُنہوں نے علامہ سید سلیمان ندوی کی طرف منتقل کی جو اِسے تیس سالوں تک نبھا تے رہے۔ مولانا مناظر احسن گیلانی کواپنی نوجوانی میں علامہ فراہی کی اورشبلی و سرسید کے فیض یافتوں کی حیدرا باد میں صحبت میسر آئی،اُس کے اثر سے اُن کا جو خیال قائم ہوا ،اس کے نتیجہ میں اَسّی سال پہلے انہیں بھی وہی اعتراضات پیدا ہوئے۔(۱)حاشیہ:(۱) اگر اہلِ حق میں سے بھی کسی کی طرف اِس قسم کے خیالات منسوب ہوں ،تو وہ سند نہیں۔اگر وہ شخص مقبول ہو،تو ماول ہوں گے ،ورنہ رد کر دیے جا ئیں گے۔ اور یہ بات بھی فراموش کرنے کے قابل نہیں کہ علامہ شبلی اور اِن کے رفقاء نے جو تجویزیں پیش کی تھیں ؛اصولی طور پروہ تمام ’’وقیع ‘‘تجاویز ، سر سید احمدخاں پیش کر چکے تھے۔اِس سے دو باتیں معلوم ہوئیں۔ایک یہ کہ جناب سید سلمان حسینی صاحب کا اعتراض کوئی نیا اعتراض نہیں ہے،ایک سو بیس سال پہلے یعنی شبلی کے اعتزالی مضمون’’الاعتزال وا لمعتزلہ ‘‘ کی تصنیف سے پہلے سے چلا آ رہا ہے۔ دوسرے یہ کہ یہ اُس وقت بھی نیا نہیں تھا جس وقت ندوہ نے اپنے منشور میں اسے شامل کیا تھا؛بلکہ حقیقت وہ ہے جس کا اظہار کیاجا چکاکہ حضرت شیخ الہند کی ساری قابلیت و مہارت سامنے آنے سے پہلے سرسید احمد خاںنہایت شد و مد کے ساتھ اِس نصاب تعلیم کے خلاف صدا بلند کر چکے تھے۔اور بقول خواجہ الطاف حسین حالی سر سید کی اس چیخ پکا رکاہی اثر تھا کہ ندوہ نے منظم طریقہ پر آواز ہ بلند کیا۔البتہ ،یہ ضرور ہوا کہ علماء سے سر سید نے خود کو مستغنی رکھا؛جب کہ شبلی نے علماء کو چھوڑنا گوارا نہ کیا:اُن کا عمل اِس پر تھا کہ’’اگر’’ غزالی ‘‘میں کھل کھیلتا تو علماء برسوں ؛بلکہ قرنوں کے لیے نکل جا تے،اور یہ مجھے گوارا نہیں۔ میں تو ڈوبا ہوں صنم....‘‘یہ بات خود علامہ شبلی نے سر سید کے اصلاحِ مذہب سے متعلق خیالات کو دل و جان سے عزیز رکھنے والے مہدی الافادی کی کتاب ’’الغزالی‘‘میں سر سیدی فکر کی ترجمانی میں تشنگی کے سوال پر،فر ما ئی تھی۔اِس گفتگو سے یہ معلوم ہو گیا کہ نصاب تعلیم پر فرسودگی کا اعتراض بھی جناب سید سلمان حسینی ندوی کا کسی تحقیق پر مبنی نہیں؛بلکہ بے دلیل تقلیدِ آباء پراِس کا مداہے۔
اب اس موقع پرایک بات تو خیال کرنے کی یہ ہے کہ نصاب تعلیم پر جس وقت پہلی مرتبہ آواز اٹھی،اور پہلی ہی مرتبہ نہایت زورو قوت کے ساتھ اُسے فرسودہ باورکرانے کی کوشش کی گئی ،اور اپنے اس ایجنڈاکی حمایت میں بزعم خودشواہد و دلائل،واقعات اور ثبوت پیش کر کے تمام ملک میںایک ہیجان برپا کیا گیا ،حضرت شیخ ا لہند کی فراغت اُس کے بعد کی ہے،اور وہ اسی متکلم فیہ معترض علیہ نصاب کے فیض یافتہ (Product)ہیں جسے سر سید فرسودہ بتا نے کی تحریک چلا چکے تھے؛دوسری بات یہ کہ نصاب تعلیم کی تحصیل سے پہلے اور بعد دونوں حالتوں میں،نشانہ لگا لینے کے بہت سے واقعات ہیں جن میں نصاب تعلیم کے بگاڑ کے ساتھ بھی،وہ جمع ہو گیا ہے۔چناں چہ حضرت نا نوتوی بھی نشانہ بہت عمدہ لگا تے تھے،انہوں نے تو نصاب تعلیم عبور کرنے سے پہلے ہی لڑکوں کے ساتھ کھیلتے ہو ئے،یہ ملکہ حاصل کر لیا تھا۔بس ایک مرتبہ انہوں نے عقلی اصول سمجھ لیا،اورنشا نہ لگا نے میں مہارت حاصل کر لی،اُس کے بعدپھر کوئی اُن سے پیش نہ پا سکا ۔مگر افسوس کہ موصوف نے شاید طے کر لیا ہے کہ اُنہیں سر سید احمد خاں کی تقلید میں یہی دکھلانا ہے کہ نصاب تعلیم ہی ہر قسم کے نکمے پن کی جڑ ہے۔چناں چہ یہ ظاہر کرنے کے بعد کہ ’’مسلمانوں کا نظام تعلیم جمود و محدودیت کا شکار ہو گیا ‘‘،موصوف نے یہ بھی لکھ دیا کہ: