سلمان ندوی نے ادیبانہ پیرایہ میں’’ حقیقت پسندانہ ‘‘نہ قرار دے رکھا ہو۔حیرت انگیز طور پر اس کا جواب اِثبات میں ہے۔ واقعہ یہی ہے کہ مو لا نا مناظر احسن گیلانی پر ایک تو علامہ فراہی کی صحبت کی وجہ سے دوسرے علامہ شبلی کے بعض شاگردوں اور صحبت یافتوںکی صحبت کے اثر سے ،بعض خیالات دل و دماغ میں جم گئے تھے ۔اوروہ اپنے وقت کے ائمۂ معقولیین کے شاگرد ہونے،اورتمام تر دفاعی قوت رکھنے کے باوجود عصری علوم سے یک گونہ متاثر تھے۔
اگرچہ یہ بات بھی درست ہے کہ اُن کے خیا لات میں احوال کی تبدیلی اور موضوعات سے شغف کے حوالے سے یک گونہ تنوع رہا ہے۔چناں چہ کتاب ’’مسلمانوں کا نظام تعلیم و تربیت ‘‘حیدراآباد کے زمانہ میں لکھی گئی ہے ،جہاں عماد الملک وغیرہ کے اثرات بھی موجود تھے،اِن سب کے یہاں ’’حقیقت پسندانہ ‘‘ادب پا یا جاتا ہے جسے انگریزی میں Realismکہتے ہیں،اور اس ادب کی کیا خصوصیت ہے،اس کا ذکر ہم پہلے کر چکے ہیں؛اس لیے اس کتاب ’’مسلمانوں کا نظام تعلیم و تربیت ‘‘ میں اس ادب کااثر موجودہے ،اور اس میںجو رنگ بھرا گیا ہے وہ سوانح قاسمی تک پہنچتے پہنچتے کافی کم ہوگیا ہیجو حیدرآباد سے یکسو ہوکراپنے قیام وطن کے زمانہ میں لکھی گئی ہے ۔ہمیں ،افسوس ہے کہ وہ مثالیں یہاں پیش نہیں کی جا سکتیں جن سے یہ معلوم ہو سکے کہ مولانا مناظر احسن گیلانی بعض ایسے افکار کے حامل رہے ہیںجن سے فکرِ دیوبند کی ترجمانی نہیں ہوتی۔اس سب کے با وصف ایک مرکزی بات اِس کی تائید میں تو سید سلمان حسینی ندوی کے ذریعہ پیش کیے گئے اِس فقرہ میں خود موجود ہے کہ:
’’جس وحدتِ نظام تعلیم کی انہوں نے دعوت دی اور تعلیم کی جس ثنویت کی پرزور مخالفت کی ،ہمارے نظام کی اصلاح کا دارو مدار اصلاً تو اسی میں مضمر ہے۔‘‘
اورمولانا گیلانی کی یہ بات (یعنی علم دین ا ور دیناوی علوم کی تفریق کا انکار)دار المصنفین اور ندوہ کی ترجمانی تو کرتی ہے،دیوبند کی نہیں۔ایسے ہی ان کے متعدد افکار ہیں جوفکر سلیمان سے تو مطابقت رکھتے ہیں،قاسم سے نہیں۔
التباس -۷=مسلمانوں کے نکمے پن کا ذمہ دار نصاب تعلیم؟
مولف سلمان حسینی قدیم نصاب کے ساتھ بزرگوں کی تربیت کے بعض فوائد و نتائج کا ذکر کرتے ہوئے فرما تے ہیں:
’’صرف اِنہی علوم و فنون پر بس نہیں،ہمارے بزرگوں کا طریقہ رہا ہے کہ وہ ذہنی تربیت کے ساتھ رو حانی تربیت کابھی اہتمام کر تے تھے اور جسمانی ورزش
و تربیت بھی۔‘‘
اسی طرح وہ انگریز جنرل سالو مان(سلیمان)کے الفاظ نقل کرتے ہیں کہ
’’سالہا سال کے درس کے بعد ایک طالب علم اپنے سر پر جو آکسفورڈ کے فارغ التحصیل طالب علم کی طرح علم سے بھرا ہو تا ہے،دستارِ فضیلت باندھتا ہے
اور اسی طرح روانی سے سقراط ،ارسطو،بقراط ،جالینوس اور بو علی سینا پر گفتگو کر سکتاہے جس طرح آکسفورڈ کا کامیاب طالب علم۔‘‘(ص۱۰۰)
یہ نقل کر کے یہ ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ وہ نصاب اگر ایک طرف اپنے وقت کی ضرورتوں کی تکمیل کرتا تھا،تو دوسری طرف بزرگوں کی اُس فہم کا بھی غماز تھاکہ انہوں نے مذکورہ نصاب رائج کرتے وقت،ضرورتِ زمانہ کی موافقت کی ؛ا س لیے وہ جمود و تعطل کے الزام سے بری ہیں،اور اسی کا اثر ہے کہ
ٍ’’حضرت شیخ الہند بندوق کا بہترین نشانہ لگا تے تھے۔‘‘
عرض احقر=اب یہ کون کہے کہ مولفِ کتاب مبحث سے متعلق اور غیر متعلق ہر قسم کی باتیں لکھتے ہیں اور یہ محسوس نہیں کرتے کہ کس بات سے اُن کا مقدمہ کمزور ہو جا ئے گا،شیخ الہند کی مثال اِس موقع پر پیش کرنا درست نہیں تھا۔یہاں ہم دو باتوں کا جائزہ لیں گے:(۱)ایک تو اِس بات کا کہ حضرت شیخ الہند کے ’’بندوق کا نشانہ لگا لینے والی روشن خیالی‘‘ فرسودہ نصاب تعلیم کے رواج سے پہلے کی ہے ،یا اُس کے ساتھ ہی جمع ہو گئی۔اگر ساتھ جمع ہو گئی ہے،تو اِستدلال باطل(۲)دوسرے نصاب تعلیم پر فرسودگی کا اعتراض مولف کی کسی تحقیق پر مبنی ہے یا بے دلیل تقلیدِ آباء پر ۔
(۱)واقعہ یہ ہے کہ حضرت شیخ الہندؒ اُس نصابِ تعلیم کے فیض یافتہ ہیں جس کے متعلق مولف خود یہ لکھ چکے ہیں کہ:’’یہ نصابِ تعلیم درسِ نظامی کی