اُسے بھی خراب کریں ،یا حکم معترض علیہ کو احکامِ دین سے خارج کردیں؛اس کے سوا کچھ ان کے بس میں نہیں۔اور اِس کا ضرر ظاہر ہے۔شیخ محمد اکرام بقول کسی صاحب نظر عبقری کے’’نئی تعلیم اور نئی روشنی کا حامل ہے؛مگر ذہن و دماغ متوازن رکھتا ہے‘‘،لکھتے ہیں:’’ندوہ میں نہ جدید کی مادیت آئی،اور نہ قدیم کی روحانیت،اور اُس کا علمی معیار روز بروز تنزل کرتا گیا(تو دینی معیار کو ہم کیا کہیں؟ف)۔‘‘( موج کوثر بحوالہ مدارسِ اسلامیہ :’’مشورے اور گزارشین‘‘ ص۷۸،۷۹۔از مولا نا اعجاز احمد ؒ )
اپنے مذکورہ اقتباس میں جناب سید سلمان حسینی ندوی نے چار باتیں کہی ہیں:
(۱) انہوں نے سر سید کو اس قدرقصور وارتو ٹھہرایا کہ وہ بلا استحقاق مجتہد بن گئے(حالاں کہ یہ’’بلا استحقاق‘‘کا محاورہ موصوف کے اپنے خیال کے تحت ہے،ورنہ وہ خود سر سیدکے بکثر ت اجتہادات کو اور وہ اجتہادات جن اصولوں پر مبنی ہیں،اُن کو،جناب سلمان ندوی صاحب بھی ،نہ صرف درست ہی سمجھتے ہیں؛بلکہ اُن کی تقلید بھی کرتے ہیں۔ موصوف کے مضامین بیانات اور’’آخری وحی‘‘ میں ا ِس کے نمونے دیکھے جا سکتے ہیں،اور خود اِس مضمون میں ،بعض نمونے،ہم نے پیش بھی کیے ہیں)۔باقی اُن کو طبقۂ علماء میں موصوف نے شمار کرنا ضروری خیال فرمایا۔پھر دو قصور علماء کے شمار کرائے:
(۲)علماء نے سر سید کے کام کو خارج از دین قرار دیا،یہ اُن کی سنگین غلطی تھی۔
(۳)کائناتی علوم جسے سر سید رواج دے رہے تھے؛علماء نے ،اُن کے کام میں تعاون کیوں نہ کیا،یہ اُن کی سنگین ترین غلطی تھی جس کی تلافی ندوہ کو کرنی پڑی۔
(۴ )دیوبند اور علی گڑھ کے مقابلہ میں ندوہ کی خیالی برتری کا اظہار
موصوف نے اِن چاروں باتوں کے بیان کرنے میںتلبیسات سے کام لیا ہے۔ہم نے یہاں صرف پہلے اور چوتھے نمبروں میں کیے گئے التباسا ت کو نمایاں کیا ہے ۔دوسرے نمبر کا تذکرہ ڈاکٹر عبید ا ﷲ فہد کے ذریعہ پیش کیے گئے التباس نمبر ۵ کے ذیل میں،تفصیل کے ساتھ کر دیا گیا ہے۔رہاتیسرا نمبر ،تو اُس کا تجزیہ،اول تو ماقبل میں آچکا ہے کہ شعور سر سید اور شعور نانوتوی ،دونوں میں فرق ہے اور دونوں کے اصول الگ الگ ہیں۔سر سید کے اصول حضرت نا نوتوی کی نظر میں فاسد اور باطل ہیں،اُن کے ساتھ اگر شرکت کی جائے،تو گویا دین اور ایمان سے پہلے رخصت چاہی جا ئے ۔اور نیز آئندہ التباس نمبر ۸ کے ذیل میں آرہا ہے ۔
التباس=۶: حقیقت پسندانہ تجزیہ کا مغالطہ
’’مولانا گیلانی قدیم نظامِ تعلیم یعنی درس نظامی کے فارغ التحصیل تھے،اور ہندوستان کے نظام تعلیم و تربیت پر اُن کی جیسی نظر تھی کم
از کم میرے علم میں کسی دوسرے عالم یا دانشور کا مطالعہ اُن کی وسعتِ نظر کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔اور وہ ’’گھر کے بھیدی ‘‘تھے ۔اُنہوں نے وقت کی جدید
ترین جامعات کو بھی دیکھا تھا،اور اُن کے نظام کو بھی سمجھنے کی پوری کوشش کی تھی،اس لیے اُن کا مطالعہ اور تجزیہ بڑا حقیقت پسندانہ اور جامع ہے ۔اور
اس میں بھی شک و شبہہ نہیں کہ جس وحدتِ نظام تعلیم کی انہوں نے دعوت دی اور تعلیم کی جس ثنویت کی پرزور مخالفت کی ،ہمارے نظام کی اصلاح کا
دارو مدار اصلاً تو اسی میں مضمر ہے۔‘‘
عرض احقر=جناب سلمان حسینی صاحب کہنا یہ چا ہتے ہیں کہ مولانا گیلانی ’’گھر کے بھیدی ‘‘تھے ،نصاب تعلیم کی لنکا میں کہاں کہاں شگاف ڈالے جا سکتے ہیں،وہ ان جگہوںسے اور دفاعی نظام کی کمزوریوں سے واقف تھے؛جب اُنہیں ’’جدید ترین جامعات ‘‘کی رویت،اُن کے نظام تعلیم کی فہم اور’’ حقیقت پسندانہ ‘‘مطالعہ کی کمک مہیا ہو گئی،تو اُنہوں نے’’نصاب تعلیم کی لنکا‘‘کو ڈھا دیا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ’’گھر کے بھیدی ‘‘کے لیے کیا صرف وقت کی جدید ترین جامعات کا دیکھنا، سمجھنا اور’’ حقیقت پسندانہ ‘‘مطالعہ اور تجزیہ پیش کر دینا،ہی قلع ڈھادینے کے لیے کافی ہے ،یا یہ خطرہ بھی ہے کہ کہیں ا ن کا تجزیہ اہلِ زیغ کی صحبت اورمغربی اصولوں سے مرعوبیت کا نتیجہ ہو نے کی وجہ سے التباس فکری پیدا کر دینے کا قصور وار نہ ہوا ہو؟،اور اُسی کو جناب سید