Deobandi Books

الامام محمد قاسم النانوتوی کی فکر اور بدلتے حالات میں مدارس کی تر جیحات

46 - 104
 صحیح طریقۂ کار سے اِنحرافات کے اصول بھی وہی ہیں جو سر سیدی عہد میں تھے،اور جوابات کے اصول بھی وہی ہیں جو عہد نا نوتوی میں تھے۔بنا بریں،لا محالہ زمانہ کے امراض و فسادات کی تشخیص کے لیے ، یا تو سر سید احمد خاں کووقت کا نباض قرار دے کرمرض کے ازالہ کی تجویز کے حوالہ سے اُن کے ذریعہ پیش کی گئی ریفارمیشن کو درست بتلائیے اور اُنہیں مصلح قرار دیجئے،اور یا یہی درجہ اور مرتبہ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی کے لیے مختص کیجئے ۔مگریہ نہیں ہو سکتا کہ ایک طرف امام قاسم نانوتویؒ کو حجۃ الاسلام اور حجۃ اﷲ فی الارض بھی تسلیم کیجئے،دوسری طرف سرسید کو بھی مصلح قرار دے کر اُن کے اصول اور طریقۂ کار کو بھی درست کہیے۔جن با خبر اہلِ فہم کی دونوں کی تصنیفات (خصوصاً حضرت نا نوتویؒ کی تصنیفات )پرگہری نظر ہے(جی ہاں گہری نظر کے ساتھ فہم عمیق بھی ہے،تو)،وہ جانتے ہیں کہ فکر و اعتقاداور اصولوں کے اجراء و اطلاق کے باب میں دونوں کے کام اور طریقۂ کار میں کلی منافات ہے۔حسن و احسن یا حیثیت و اضافیت کا فرق نہیں ہے ؛بلکہ حق و باطل صحیح اور غلط،درست و نا درست،صالح اور فاسد کا فرق ہے ۔سر سید احمد خاں کے طریقۂ کار سے دریافت ہو نے والے امور تحقیق کے زمرے میں آکر شائبۂ ظنیت و مرجوحیت کے بھی متحمل نہیں ہیں؛کیوں کہ وہ اُن کی تحقیقات ہیں ہی نہیں؛بلکہ شرعی مزاحمت کے باب میں اُن کی کد و کاوش کاتمام دفترمغرب سے ما خوذ و مستفاد ہے۔اگر اُنہوں نے اصولوں کے اِطلاق میں اپنی فہم کو دخل دیا ہوتا،تو یقیناًذہین آدمی تھے،کسی تحقیق تک پہنچ سکتے تھے اور شائبۂ ظنیت اُن میں آ سکتا تھا؛لیکن بقول حضرت تھانویؒ :
ان ’’کا مذہب اہلِ یورپ کی سائنس تھی ...اگر یہ شخص دینیات میں دخل نہ دیتا،تو کام کا شخص تھا۔مگر برا کیا جو دینیات میں دخیل ہوا،یہ کیا جا نے تفسیر کو۔‘‘
وجہ یہ ہے کہ اِس(شخص )کی تحصیل مقاماتِ حریری اور مختصر المعانی تک ہے۔ایسا شخص تفسیر لکھنے لگے،تو حماقت نہیں تو اور کیا ہے؟‘‘(ملفوظات جلد ۱۹ ص۸۴)
اُن کی یہ ادھوری تعلیم حالی کو بھی تسلیم ہے ۔خواجہ حالی تو یہ بھی لکھتے ہیں کہ سر سید کی تعلیم ناقص تھی اور اُچاٹ طریقہ پر تھی؛یعنی پڑھائی کی طرف وہ مائیل نہیں تھے؛پھر اُس کے بعد کا مطالعہ اور فکری اٹھان،جو کچھ بھی ہوا،وہ خود روطرز پر تھا(دیکھئے حیات جاوید۔)۔
مولف سلمان حسینی کا کہنا ہے دیوبند اور علی گڑھ دونوں کی غلطیوں اور ضدا ضدی کے نتیجہ میں دو طبقے وجود میں آئے:
’’ جن کے خلا کو پر کرنے کے واسطے ندوہ کے نام سے تحریک شروع کی گئی تھی۔‘‘(۲۵۸)
ندوہ کی بر زخیت 
اب اِس کی بھی روداد سن لیجئے کہ وہ دو طبقے(دیوبند اور علی گڑھ) تو ویسے ہی رہے؛یعنی اپنے طرز پر قائم رہے؛البتہ ندوہ کی بر زخیت آج تک کسی کے سمجھ میں نہ آئی ۔شیخ محمد اکرام لکھتے ہیں:
’’ندوہ کا دعوی تھا کہ قدیم و جدید یا بالفاظ دیگر دیوبند وعلی گڑھ کا مجموعہ ہو گا؛لیکن جس طرح آدھا تیتر،آدھا بٹیر،نہ اچھا تیتر ہو تا ہے،نہ اچھا بٹیر۔ندوہ
 میں نہ علی گڑھ کی پوری خوبیاں آئیں،نہ دیوبند کی۔......جب ندوہ کی بنیا دیں ذرا گہری ہوئیں،اُس نے اپنے آپ کو دوسرے اداروں کے مقابلہ
 میں حریفانہ حیثیت سے پیش کیا۔....اربابِ ندوہ کا دعوی تھا کہ وہ قوم کے دونوں بڑے تعلیمی اداروں سے اشتراکِ عمل کریں گے ؛لیکن  ندوہ میں
 دونوں کی مخالفت ہو تی رہی۔.....کیا وجہ تھی کہ علم و روحانیت کا وہ پودا جسے بعض اﷲ والوں نے دہلی سے ستر میل دور ایک قصبے میں لگایا تھا،پھولتا،
پھلتا رہا ۔اور لکھنوی ندوۃ العلوم کا تناور درخت  چند دن کی بہار دکھانے کے بعد زمین پر آ گیا۔اے عقل چہ می گوئی،اے عشق چہ می فرمائی۔‘‘
اور جو بہار دکھائی وہ یہ کہ چند مورخ ،ادیب ،صحافی،عمرانی اور اثری تحقیقات پر مبنی معلومات بہم پہنچا نے وا لے بعض افراد اُس نے پیدا کر دئے،جن کے اصولوں کا کچھ اطمینان نہیں کہ کہاں مغربی اصولِ فطرت کو ترجیح دے دیں،اور کہاں اصول صحیحہ کی پیروی کریں۔ جس نے پُر کرنے کے بجائے مزید بڑی خلیج پیدا کر دی۔علی گڑھ نے تو کم از کم یہ پیش رفت کی کہ سائنس جاننے والے پیدا کیے ،صرف ان کا یہ قصور رہا کہ اسلام کا دفاع سائنس کے حوالہ سے نہ کر سکے،دیوبند کی یہ خوبی ہے کہ اُس فکر کے حاملین فلسفہ جانتے ہیں،اور دفاعِ اسلام کے لیے اُس سے خدمت لینا بھی جانتے ہیں؛لیکن ندوہ کے حاملین افسوس ہے کہ نہ سائنس جانتے ہیں،نہ فلسفہ،نتائج جو کچھ ہیں وہ سا منے ہیں کہ صرف مغرب کے فاسد اصولوں کے ساتھ اسلام کی تطبیق کرکے

x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 فہرست مضامین 3 1
3 باب-۱=ام المدارس دار العلوم دیوبند کے موسسین کا امتیازی وصف اور اُن کے مقاصد عالیہ 7 1
4 باب-۲=نیچریت (Naturalism) 10 1
5 باب-۳=فکر دیو بند،تحریک علی گڑھ اورتشکیلِ ندوہ 18 1
6 باب-۴=نصابِ تعلیم 28 1
7 باب۵=معقولات کے داخلِ درس ہونے پر اعتراضات 38 1
8 باب ۶=چند دیگرمفکرین 54 1
9 باب۷=نصاب تعلیم کے حوالہ سے بعض درد مندوں کے اِضطرابات 58 1
12 باب-۸=دیوبند میں حضرت نا نوتویؒ کے رائج کردہ نصا بِ تعلیم پر ایک نظر(اشارات) 61 1
13 باب۹=معقولات اور فلسفہ کی ضرورت:افکار جدیدہ کے تناظر میں 65 1
14 باب۱۰=معقولات اور فلسفہ کی ضرورت(اشارات) از. الامام محمد قاسم نا نوتویؒ 70 1
15 باب ۱۱=معقولات اور فلسفہ کی تعلیم اورزمانۂ حال کے اربابِ درس کا اضطراب 75 1
16 باب ۱۲=عصر حاضر میں معقولات و فلسفہ کی شدید ضرورت 78 1
17 باب ۱۳=اصولِ قاسم اور اہلِ مدارس کے تحفظات 79 1
18 باب ۱۴=درسی کتابوں کا طریقۂ تدریس از۔ حکیم الامت مولا نا اشرف علی تھانوی 80 1
19 باب ۱۵=معقولات و فلسفہ کا اِطلاقی پہلو 83 1
20 باب -۱۶= اہل علم کی خدمت میں 88 1
21 باب ۱۷=علوم جدیدہ کا پیدا کردہ مسئلۂ خیر و شر 91 1
25 الف =نیچریت کا پس منظر 10 4
27 ’’انسانیت(Humanism)‘‘ کی حقیقت 10 4
28 ۲-ب= نیچریت کا مفہوم و مصداق اور متعدد شکلیں 12 4
29 حقیقت پسندی (Realism) 13 4
31 افادیت پسندی(Utility) 13 4
32 ندوہ کا منشور 19 5
34 التباساتِ فہد 20 5
35 (۱)مصلحین امت کی تعیین میں خلط 20 5
36 (۲)فاسد اصولوں کے انتساب میں تلبیس 20 5
37 (۳)اعتقادی اجزاء میں خلط و تلبیس 20 5
38 (۴)شعور سر سید کی وضاحت میں تلبیس 21 5
39 (۵)شعورقاسم کے تعارف میں خیانت 22 5
40 استدراک 22 5
41 ناظمِ دینیات کے فرائض مقرر کردہ سرسید احمد خاں 22 5
42 سرسید کی رواداری کا اصل منشا 22 5
43 مدرسۃ العلوم میں دینیات کی تعلیم اور مولانا محمد قاسم نانوتویؒ 23 5
44 مدرسۃ العلوم کی بنیاد اورحضرت مو لانا رشید احمد گنگو ہی،حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی کو شرکت کی دعوت 24 5
45 سر سید کے قاصد اور حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اﷲ علیہ کی گفتگو 25 5
46 قاصد کا حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اﷲ علیہ کو مشورہ اور حضرتؒ کا جواب 25 5
47 یہ جواب کوئی عارف ہی دے سکتا تھا 25 5
48 دو شعور= شعور قاسم اورشعور سر سید 25 5
49 ۴ -جزئ اول=ادب،تاریخ ، اور مغربی عقلیت 29 6
50 ۴ -الف=ادب 29 6
51 ۴-ج=مغربی عقلیت 33 6
52 ۴-جزئِ دوم =تاریخ، ادب و عقلیت میں مغربی اصولوں کی تقلید کرنے والے چند اہم مفکرین 34 6
53 (۱) خواجہ الطاف حسین حالی 34 6
54 (۲)شمس العلماء شبلی نعمانی 35 6
55 (۳)محقق عبد الماجد دریابادی 35 6
57 (۱)سر سید(۲)علامہ شبلی 38 7
58 (۳)نصابِ تعلیم اورعلامہ سید سلیمان ندویؒ 39 7
59 (۴)نصابِ تعلیم اور جناب ابو الکلام آزاد 39 7
60 (۵)جناب سید سلمان حسینی ندوی او ر نصاب تعلیم 40 7
61 اضطرابات سلمان حسینی بشکلِ التباسِ فکری 42 7
73 مدیر ’’ الشریعۃ‘‘ 54 8
74 (۲)منتسبینِ قاسم 54 8
75 (۱)مولانا عبد العلی فاروقی لکھنوی زید مجدہ ۔ مدیر البدر 58 9
76 (۲)جناب ندیم الواجدی صاحب -مدیر ترجمانِ دیو بند 59 9
77 دیوبند میں ’’مروجہ نصابِ تعلیم‘‘ کی تجویز اور اس کی حکمت: 62 12
78 نصابِ درس کی خوبیاں 63 12
79 نصابِ درس کے وہ اہم امور جن پر سب سے زیادہ غم و غصہ ہے 64 12
80 جدید فلاسفی کی شاخیں اور جدید فلاسفرز 66 13
81 تحلیلی فلاسفی( Analytic philosophy) اور معروضی فلاسفی (Objectivism) 67 13
82 معروضی مطالعہ کی ترجیح-ایک لمحۂ فکریہ 68 13
83 این المفر =منطق سے فرارممکن نہیں 68 13
84 کیا منطق اور فلسفہ سے شغف رکھنے والے علوم نقلیہ سے بے زار ہو جاتے ہیں؟ 72 14
85 کیا اکابر سے منطق اور معقولات کی مذمت منقول ہے؟ 72 14
86 فلسفہ اور معقولات میں ا کابر وسلف کی مہارت 73 14
87 اضطراب اعجازی کی توجیہ 75 15
88 قول صائب : مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ ا ﷲ کی آپ بیتی 76 15
89 (الامام محمد قاسم النانوتوی اور حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کے کلام کی روشنی میں) 78 16
90 (جامع معقول و منقول مولانا ریاست علی ظفر بجنوری مد ظلہ کی تنبیات کی روشنی میں ) 79 17
91 حلِّ مطالب پر اِکتفا کرنا چا ہیے،غیر ضروری تقریر مناسب نہیں 81 18
92 استاذ کے لیے بات کی پَچ مناسب نہیں 81 18
93 مولانا یعقوب صاحب رحمۃ ا ﷲ علیہ کے درس کی خصوصیت 81 18
94 حکیم الامت حضرت تھانوی رحمۃ ا ﷲ علیہ کے درس کی خصوصیت 81 18
95 محققین اکابررحمۃ ا ﷲ علیہم کے درس کی خصوصیت 82 18
96 استاذ کے لیے قابلِ لحاظ امر 82 18
97 اِستعداد کس طرح پیدا ہوتی ہے؟ 82 18
98 اِستعداد کے موانع 82 18
99 زبان کھل جائے،بولنے کا عادی ہو جائے،اِس کا انتظام 82 18
100 درسیات میں معقولا ت کی ضرورت:مثال(۱) 83 19
101 درسیات میں معقولا ت کی ضرورت:مثال(۲) 83 19
102 درسیات میں معقولا ت کی ضرورت:مثال(۳) 84 19
103 منطق کے بغیر آدمی درسیات پڑھا نہیں سکتا (حضرۃالاستاذعارف با ا ﷲ مولانا صدیق احمد صاحب رحمہ ا ﷲ ) 84 19
104 آپ بیتی: از مولف -فخر الاسلام 84 19
105 علومِ عالیہ کے لیے علومِ آلیہ کی ضرورت ہے 85 19
106 دور جدید میں جن حضرات سے دین کو نفع ہوا،وہ معقول ہی کی بدولت ہوا 85 19
107 مدارس کو اصول صحیحہ سے سروکار ہے ،محض جدید کا رعب کافی نہیں 86 19
108 نصابِ قدیم وجدید کی آویزش کا نتیجہ 87 19
109 خرابی کااصل سبب بزرگوں کے طریق سے بے نیازی 87 19
110 ۱۶-الف=گفتگوکا سرسری جا ئزہ (تلخیص) 88 20
111 ۱۶-ب=مشورے ، گزارشیں اور تجویزیں 89 20
112 (۱)اسلام پر پڑنے والے شبہات کے ازالہ کے لیے تجویز 89 20
113 (۲)چند مسئلوں کو جانچنے کی تجویز 90 20
114 ۱۷-الف= عقلی استدلال 91 21
115 ۱۷-ب=خیر و شر،بھلائی-برائی کا اصول اہلِ مغرب کی نظر میں 91 21
116 ۱۷-ج=خیر و شر،بھلائی-برائی کا معیار از الامام محمد قاسم النانوتویؒ 92 21
117 خیر و شر کا محسوساتی معیار: 92 21
118 خیر و شر کا عقلی معیار 92 21
119 اصول:۱=’’عقل موجدِ معلومات نہیں مخبر معلومات ہے‘‘ 93 21
120 باریک فرق معلوم کرنے کا مسئلہ،اور عقل کے التباسات 93 21
121 اصول:۲=جو چیز مطلوبِ اہم اور اور مقصودِ اعظم ہو تی ہے،اُسی پر بھلائی،برا ئی کا اِنحصار ہو تا ہے 94 21
122 نیک و بد،بھلا،برا ،خیر و شرکے ا طلاقات 94 21
123 جس بات پر انسان کی بھلائی برائی موقوف ہے،اُس کے دریافت کرنے کا طریقہ: 94 21
124 اصول:۳=انسان کا مقصودِ اہم اور مطلبِ اعظم نفع کے کام کر نا اور نقصان کے کا موں سے بچنا ہے 94 21
125 انسان کے اجزاء ترکیبیہ 95 21
126 نتیجۂ بحث:بعضے کام بھلے اور بعضے برے یقیناً ہیں 95 21
127 اصول:۴=عقل اور قوتِ عمل میں رابطہ حاکم اور محکوم کا ہے ۔قوتِ عمل عقل کے لئے وہی درجہ رکھتی ہے جو قلم کاتب کے لئے 95 21
128 اصول:۵=جو چیز کسی کے حق میں خدا نے اول سے نافع پیدا کی ہے،وہ اُس کی رغبتِ طبع ہو تی 96 21
129 رغبت کی مثال 97 21
130 نفر ت کی مثال 97 21
131 اصولِ فطرت کی حقیقت اور عقلِ سلیم 97 21
132 کامل العقل کی اہمیت اور ضرورت 97 21
133 اصول:۶= کامل طبیبِ روحانی کے نسخہ میں کمی بیشی جائز نہیں 98 21
134 اِس بات کو یاد رکھنا چا ہیے کہ بہت کارآمد ہے 98 21
135 اصول:۷= کوئی طبیبِ روحانی اگر ایسی بات بتلائے کہ اُس کا ہو نا بہت سے 98 21
136 اصول:۸=بھلائی برا ئی ہر شی کی ازلی ہے۔اصول:۹=عقل و روح کے لیے مضر و نافع اعمال کا نام ہی بھلا ئی برا ئی ہے 98 21
137 اصول:۸=بھلائی برا ئی ہر شی کی ازلی ہے۔ 98 21
138 ۹=عقل و روح کے لیے مضر و نافع اعمال کا نام ہی بھلا ئی برا ئی ہے 98 21
139 اصول:۱۰=دینِ حق کے کر نے نہ کرنے کی باتیں وہی ہیںجن سے عقلِ صاف او رروح پا ک کو رغبت یا نفرت ہو 98 21
140 اصول:۱۱= دینِ حق مرغو بِ طبع ہو تا ہے 99 21
141 اصول:۱۲=روح کو بدن پر ہر بات میں قیاس نہیںکیا جا سکتا 100 21
142 اصول:۱۳= طبیعت کی رغبت کا اثر تب ہی ظا ہر ہو گا جب کہ مانع نہ ہو 100 21
143 دینِ حق جب مرغوبِ طبیعت ٹھہرا،تو طبیعت کے موافق عمل درآمد کرنا چا ہیے؟ 101 21
144 امراضِ روحانی کو مرض نہ سمجھنے کی مثالیں 101 21
145 مثال(۱)معاشرتی امراض(Social diseases) 102 21
146 مثال(۲):نسلوں اور قوموں کے امراض 102 21
148 مثال(۳)امراض پیشہ(Occupation) 102 21
149 مثال(۴)امراضِ عادات(Habbitual diseases) 102 21
150 مثال(۵)موروثی(Heriditary) 102 21
151 تبدیلیٔ زمانہ سے احوال و احکام میں تبدیلی 102 21
152 اصول:۱۴=ہر عمل کسی نہ کسی مرتبے کا حسن و قبح رکھتا ہے 103 21
153 اختتامی التماس 104 21
Flag Counter