صحیح طریقۂ کار سے اِنحرافات کے اصول بھی وہی ہیں جو سر سیدی عہد میں تھے،اور جوابات کے اصول بھی وہی ہیں جو عہد نا نوتوی میں تھے۔بنا بریں،لا محالہ زمانہ کے امراض و فسادات کی تشخیص کے لیے ، یا تو سر سید احمد خاں کووقت کا نباض قرار دے کرمرض کے ازالہ کی تجویز کے حوالہ سے اُن کے ذریعہ پیش کی گئی ریفارمیشن کو درست بتلائیے اور اُنہیں مصلح قرار دیجئے،اور یا یہی درجہ اور مرتبہ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی کے لیے مختص کیجئے ۔مگریہ نہیں ہو سکتا کہ ایک طرف امام قاسم نانوتویؒ کو حجۃ الاسلام اور حجۃ اﷲ فی الارض بھی تسلیم کیجئے،دوسری طرف سرسید کو بھی مصلح قرار دے کر اُن کے اصول اور طریقۂ کار کو بھی درست کہیے۔جن با خبر اہلِ فہم کی دونوں کی تصنیفات (خصوصاً حضرت نا نوتویؒ کی تصنیفات )پرگہری نظر ہے(جی ہاں گہری نظر کے ساتھ فہم عمیق بھی ہے،تو)،وہ جانتے ہیں کہ فکر و اعتقاداور اصولوں کے اجراء و اطلاق کے باب میں دونوں کے کام اور طریقۂ کار میں کلی منافات ہے۔حسن و احسن یا حیثیت و اضافیت کا فرق نہیں ہے ؛بلکہ حق و باطل صحیح اور غلط،درست و نا درست،صالح اور فاسد کا فرق ہے ۔سر سید احمد خاں کے طریقۂ کار سے دریافت ہو نے والے امور تحقیق کے زمرے میں آکر شائبۂ ظنیت و مرجوحیت کے بھی متحمل نہیں ہیں؛کیوں کہ وہ اُن کی تحقیقات ہیں ہی نہیں؛بلکہ شرعی مزاحمت کے باب میں اُن کی کد و کاوش کاتمام دفترمغرب سے ما خوذ و مستفاد ہے۔اگر اُنہوں نے اصولوں کے اِطلاق میں اپنی فہم کو دخل دیا ہوتا،تو یقیناًذہین آدمی تھے،کسی تحقیق تک پہنچ سکتے تھے اور شائبۂ ظنیت اُن میں آ سکتا تھا؛لیکن بقول حضرت تھانویؒ :
ان ’’کا مذہب اہلِ یورپ کی سائنس تھی ...اگر یہ شخص دینیات میں دخل نہ دیتا،تو کام کا شخص تھا۔مگر برا کیا جو دینیات میں دخیل ہوا،یہ کیا جا نے تفسیر کو۔‘‘
وجہ یہ ہے کہ اِس(شخص )کی تحصیل مقاماتِ حریری اور مختصر المعانی تک ہے۔ایسا شخص تفسیر لکھنے لگے،تو حماقت نہیں تو اور کیا ہے؟‘‘(ملفوظات جلد ۱۹ ص۸۴)
اُن کی یہ ادھوری تعلیم حالی کو بھی تسلیم ہے ۔خواجہ حالی تو یہ بھی لکھتے ہیں کہ سر سید کی تعلیم ناقص تھی اور اُچاٹ طریقہ پر تھی؛یعنی پڑھائی کی طرف وہ مائیل نہیں تھے؛پھر اُس کے بعد کا مطالعہ اور فکری اٹھان،جو کچھ بھی ہوا،وہ خود روطرز پر تھا(دیکھئے حیات جاوید۔)۔
مولف سلمان حسینی کا کہنا ہے دیوبند اور علی گڑھ دونوں کی غلطیوں اور ضدا ضدی کے نتیجہ میں دو طبقے وجود میں آئے:
’’ جن کے خلا کو پر کرنے کے واسطے ندوہ کے نام سے تحریک شروع کی گئی تھی۔‘‘(۲۵۸)
ندوہ کی بر زخیت
اب اِس کی بھی روداد سن لیجئے کہ وہ دو طبقے(دیوبند اور علی گڑھ) تو ویسے ہی رہے؛یعنی اپنے طرز پر قائم رہے؛البتہ ندوہ کی بر زخیت آج تک کسی کے سمجھ میں نہ آئی ۔شیخ محمد اکرام لکھتے ہیں:
’’ندوہ کا دعوی تھا کہ قدیم و جدید یا بالفاظ دیگر دیوبند وعلی گڑھ کا مجموعہ ہو گا؛لیکن جس طرح آدھا تیتر،آدھا بٹیر،نہ اچھا تیتر ہو تا ہے،نہ اچھا بٹیر۔ندوہ
میں نہ علی گڑھ کی پوری خوبیاں آئیں،نہ دیوبند کی۔......جب ندوہ کی بنیا دیں ذرا گہری ہوئیں،اُس نے اپنے آپ کو دوسرے اداروں کے مقابلہ
میں حریفانہ حیثیت سے پیش کیا۔....اربابِ ندوہ کا دعوی تھا کہ وہ قوم کے دونوں بڑے تعلیمی اداروں سے اشتراکِ عمل کریں گے ؛لیکن ندوہ میں
دونوں کی مخالفت ہو تی رہی۔.....کیا وجہ تھی کہ علم و روحانیت کا وہ پودا جسے بعض اﷲ والوں نے دہلی سے ستر میل دور ایک قصبے میں لگایا تھا،پھولتا،
پھلتا رہا ۔اور لکھنوی ندوۃ العلوم کا تناور درخت چند دن کی بہار دکھانے کے بعد زمین پر آ گیا۔اے عقل چہ می گوئی،اے عشق چہ می فرمائی۔‘‘
اور جو بہار دکھائی وہ یہ کہ چند مورخ ،ادیب ،صحافی،عمرانی اور اثری تحقیقات پر مبنی معلومات بہم پہنچا نے وا لے بعض افراد اُس نے پیدا کر دئے،جن کے اصولوں کا کچھ اطمینان نہیں کہ کہاں مغربی اصولِ فطرت کو ترجیح دے دیں،اور کہاں اصول صحیحہ کی پیروی کریں۔ جس نے پُر کرنے کے بجائے مزید بڑی خلیج پیدا کر دی۔علی گڑھ نے تو کم از کم یہ پیش رفت کی کہ سائنس جاننے والے پیدا کیے ،صرف ان کا یہ قصور رہا کہ اسلام کا دفاع سائنس کے حوالہ سے نہ کر سکے،دیوبند کی یہ خوبی ہے کہ اُس فکر کے حاملین فلسفہ جانتے ہیں،اور دفاعِ اسلام کے لیے اُس سے خدمت لینا بھی جانتے ہیں؛لیکن ندوہ کے حاملین افسوس ہے کہ نہ سائنس جانتے ہیں،نہ فلسفہ،نتائج جو کچھ ہیں وہ سا منے ہیں کہ صرف مغرب کے فاسد اصولوں کے ساتھ اسلام کی تطبیق کرکے