Deobandi Books

الامام محمد قاسم النانوتوی کی فکر اور بدلتے حالات میں مدارس کی تر جیحات

45 - 104
 ہوئے لکھا ہے :
’’ لیکن عقلیت کے خلاف اُن کا سارا کلام جیسا کہ پڑھنے والوں پر مخفی نہیں سراسر عقلی رنگ میں ڈوبا ہوا ہے۔یہی حال شاہ ولی اﷲ اور مولانا محمدقاسم
 رحمۃاﷲ علیہ جیسے بزرگوں کا ہے،کہ نشانہ وہی غلط عقلیت ہے جس میں لوگ مذہب کے باب میں بھی مبتلا ہو جا تے ہیں؛لیکن عقلیت کی تردید جب
تک خود اسی عقلیت کی راہ سے نہیں کی گئی ہو،ایسی تردیدوں کو اپنے زمانہ میں بھی پذیرائی میسر نہیں آتی۔‘‘
 عرض احقر=مولانا کہنا یہ چاہتے ہیں کہ حضرت نانوتویؒ نے جو عقلیت سے کام لیا،وہ اُس دور کی ضرورت تھی؛لیکن اب زمانہ سائنس کا ہے۔
مگر معلوم ہو نا چا ہیے کہ حضرت مولانا محمد قاسم صاحبؒ کا سارا کام جس غلط عقلیت کی تردید میں اور جس بدلے ہوئے زمانہ میں پیش آیا ہے،ہمارا یہ زمانہ اُسی کا توسیعہ ہے۔اور سائنس کے جتنے اصول اور مسائل آتے چلے جا رہے ہیں،ہوا میں بات کرنے سے کچھ حاصل نہیں ؛تجربہ کر کے دیکھا جا ئے کہ حضرت نانوتوی کے اصول ،اُن مسائل کے لیے کفایت کرتے ہیں یا نہیں۔مجھے توسائنس کا کوئی مسئلہ اب تک ایسا مل نہ سکا جسے حضرت نانوتویؒ کے بتائے ہو ئے  اصول پر رکھ کر دیکھا ہو اور حل نہ ہوا ہو۔اور آئندہ آنے والے ازمنہ ۱۹ ویں صدی کا توسیعہ اس لیے ہیں کہ حضرت نانوتویؒ کا کام اُن تبدیلیوں کے تناظر میں سامنے آیا ہے جن کا حل سر سید احمد خاں غلط عقلیت کے ساتھ جدید کا لیبل لگا کر اپنی ریفارمیشن تحریک کے ذریعہ پیش کر رہے تھے۔ایسی صورت میں سر سید کا کام اگر جدید حالات میں جدید مسائل اور سائنسی اصولوں سے ہم آہنگ ہونے کے لیے،یا اُن سے نبرد آزما ہونے کے لیے اور زمانہ کے چیلینجز کا مقابلہ کرنے کے لیے (اُن کے مدافعین کی نظر میں تھا)،توعین اُسی زمانہ میں مولانا محمد قاسم صاحب کاکام فرسودہ عقلی اصولوں پر مبنی کیسے قرار پایا ؟بلکہ حقیقت یہ ہے کہ حضرت نانوتویؒ کے بتائے گئے اصول جہاں اہلِ مغرب کے حملوں کا جواب ہیں،وہیں مسلمان اہلِ زیغ کے ذریعہ پیدا کیے گئے اِ لتباسِ فکری کا بھی جواب ہیں۔جیسے جیسے زمانہ آگے بڑھتا جا رہا ہے،مولانا فخرالحسن گنگوہیؒ،شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ، حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی ؒاور شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی ؒکے الامام محمد قاسم نا نوتویؒ کی تصنیفات کے متعلق دعاوی وسفارشات کی ،تجربے اور مشاہدوں سے توثیق وتائید ہو تی جا رہی ہے۔یہ ستم نہیں تو اور کیا ہے؟کہ حضرت نا نو تویؒ کی فہم و ذہانت کا پاس ولحاظ رکھتے ہوئے ایک طرف تو یہ کہا جا ئے کہ ’’اُنہوں نے اپنے دور کی آخری تحقیقات مد نظر رکھیں۔اور عقل پرستوں کا طاقتور جواب فراہم کیا۔‘‘لیکن دوسری طرف اُن اصولوں کوجن کو حضرت نا نوتویؒ نے استعمال کیا ’’ یو نانیوں کے جاہلیت زدہ علوم کا خلاصہ ‘‘کہہ کر’’  صرف قیل و قال‘‘میں وقت کی بربادی،اور ذہنی عیاشی کا مصداق بھی قرار دیا جا ئے۔
التباس-۵=سر سید کی بے احتیاطی اور علماء کے قصورِ فہم کا مغالطہ
’’سر سید بھی حلقۂ علماء میں سے تھے،اگر وہ تشریعی امور میں بلا اِستحقاق مجتہد نہ بنتے۔اور ہمارے دیگر علماء اُن کے کام کو خارج ازدین نہ قرار
 دیتے۔ اورآگے بڑھ کر کائناتی علوم اور تشریعی علوم کے معاون علوم کے مرکز کی حیثیت سے علی گڑھ کالج کو قبول کر کے،اُس کو بھی اپنے فکر و عمل کے زیرِ نگیں
 لا نے کی کوشش کرتے ،تو شایدوہ دو طبقے وجود میں نہ آتے جن کے خلا کو پر کرنے کے واسطے ندوہ کے نام سے تحریک شروع کی گئی تھی۔‘‘(۲۵۸)
عرضِ احقر=فیا للاسف!یہ زمانہ کی ستم ظریفی نہیں تو اور کیا ہے کہ ‘’’جنوں کانام خرد رکھا،خرد کا جنوں۔‘‘امر واقعہ یہ ہے کہ جن اصولوں پر حضرت نا نوتویؒ نے اپنے دور کے باطل افکار کو رد فرما یا ہے،وہ اصول ایسے نہیں ہیں کہ حضرت نا نوتویؒ نے تو اُن سے کام نکال لیا؛ورنہ در حقیقت وہ جاہلیت زدہ فرسودہ تھے،ہر گز نہیں؛بلکہ وہ اصول ایسے اٹل ہیں کہ اُن کی اطلاقی حیثیت آج بھی قائم ہے،جس کی وجہ یہ ہے کہ سترہویں اور اٹھارہویں صدی عیسوی میں شریعت مزاحم جو مسائل اور افکارتھے،وہ ،مغربی محققین کے وضع کردہ اصولوں پر مبنی تھے،(جن کی اشاعت انیسویں صدی میں ہندوستان میں ہو ئی،اور جن کے ساتھ سر سید نے تطبیق اور مصالحت کی روش اختیار کی ،دوسری طرف حضرت نا نوتویؒ نے اُن کا تجزیہ کر کے،اُن کا کھرا اور کھوٹاواضح کیا۔اور صحیح اصولوںپر بنا رکھ کر براہین قطعیہ قائم کیے اوراسلام کے دفاع کی لا زوال خدمت انجام دی۔ )بعد کے زمانوں میں بعض تحقیقات کے نتیجہ میں کچھ نئے مسائل ضرورپیداہوئے،لیکن اُن کا شریعت کے ساتھ مزاحمتی پہلو اُنہی اٹھارہویں اور انیسویں صدی کے مغربی اصولوں پر مبنی تھا۔ اِس سے معلوم ہوا کہ

x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 فہرست مضامین 3 1
3 باب-۱=ام المدارس دار العلوم دیوبند کے موسسین کا امتیازی وصف اور اُن کے مقاصد عالیہ 7 1
4 باب-۲=نیچریت (Naturalism) 10 1
5 باب-۳=فکر دیو بند،تحریک علی گڑھ اورتشکیلِ ندوہ 18 1
6 باب-۴=نصابِ تعلیم 28 1
7 باب۵=معقولات کے داخلِ درس ہونے پر اعتراضات 38 1
8 باب ۶=چند دیگرمفکرین 54 1
9 باب۷=نصاب تعلیم کے حوالہ سے بعض درد مندوں کے اِضطرابات 58 1
12 باب-۸=دیوبند میں حضرت نا نوتویؒ کے رائج کردہ نصا بِ تعلیم پر ایک نظر(اشارات) 61 1
13 باب۹=معقولات اور فلسفہ کی ضرورت:افکار جدیدہ کے تناظر میں 65 1
14 باب۱۰=معقولات اور فلسفہ کی ضرورت(اشارات) از. الامام محمد قاسم نا نوتویؒ 70 1
15 باب ۱۱=معقولات اور فلسفہ کی تعلیم اورزمانۂ حال کے اربابِ درس کا اضطراب 75 1
16 باب ۱۲=عصر حاضر میں معقولات و فلسفہ کی شدید ضرورت 78 1
17 باب ۱۳=اصولِ قاسم اور اہلِ مدارس کے تحفظات 79 1
18 باب ۱۴=درسی کتابوں کا طریقۂ تدریس از۔ حکیم الامت مولا نا اشرف علی تھانوی 80 1
19 باب ۱۵=معقولات و فلسفہ کا اِطلاقی پہلو 83 1
20 باب -۱۶= اہل علم کی خدمت میں 88 1
21 باب ۱۷=علوم جدیدہ کا پیدا کردہ مسئلۂ خیر و شر 91 1
25 الف =نیچریت کا پس منظر 10 4
27 ’’انسانیت(Humanism)‘‘ کی حقیقت 10 4
28 ۲-ب= نیچریت کا مفہوم و مصداق اور متعدد شکلیں 12 4
29 حقیقت پسندی (Realism) 13 4
31 افادیت پسندی(Utility) 13 4
32 ندوہ کا منشور 19 5
34 التباساتِ فہد 20 5
35 (۱)مصلحین امت کی تعیین میں خلط 20 5
36 (۲)فاسد اصولوں کے انتساب میں تلبیس 20 5
37 (۳)اعتقادی اجزاء میں خلط و تلبیس 20 5
38 (۴)شعور سر سید کی وضاحت میں تلبیس 21 5
39 (۵)شعورقاسم کے تعارف میں خیانت 22 5
40 استدراک 22 5
41 ناظمِ دینیات کے فرائض مقرر کردہ سرسید احمد خاں 22 5
42 سرسید کی رواداری کا اصل منشا 22 5
43 مدرسۃ العلوم میں دینیات کی تعلیم اور مولانا محمد قاسم نانوتویؒ 23 5
44 مدرسۃ العلوم کی بنیاد اورحضرت مو لانا رشید احمد گنگو ہی،حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی کو شرکت کی دعوت 24 5
45 سر سید کے قاصد اور حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اﷲ علیہ کی گفتگو 25 5
46 قاصد کا حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اﷲ علیہ کو مشورہ اور حضرتؒ کا جواب 25 5
47 یہ جواب کوئی عارف ہی دے سکتا تھا 25 5
48 دو شعور= شعور قاسم اورشعور سر سید 25 5
49 ۴ -جزئ اول=ادب،تاریخ ، اور مغربی عقلیت 29 6
50 ۴ -الف=ادب 29 6
51 ۴-ج=مغربی عقلیت 33 6
52 ۴-جزئِ دوم =تاریخ، ادب و عقلیت میں مغربی اصولوں کی تقلید کرنے والے چند اہم مفکرین 34 6
53 (۱) خواجہ الطاف حسین حالی 34 6
54 (۲)شمس العلماء شبلی نعمانی 35 6
55 (۳)محقق عبد الماجد دریابادی 35 6
57 (۱)سر سید(۲)علامہ شبلی 38 7
58 (۳)نصابِ تعلیم اورعلامہ سید سلیمان ندویؒ 39 7
59 (۴)نصابِ تعلیم اور جناب ابو الکلام آزاد 39 7
60 (۵)جناب سید سلمان حسینی ندوی او ر نصاب تعلیم 40 7
61 اضطرابات سلمان حسینی بشکلِ التباسِ فکری 42 7
73 مدیر ’’ الشریعۃ‘‘ 54 8
74 (۲)منتسبینِ قاسم 54 8
75 (۱)مولانا عبد العلی فاروقی لکھنوی زید مجدہ ۔ مدیر البدر 58 9
76 (۲)جناب ندیم الواجدی صاحب -مدیر ترجمانِ دیو بند 59 9
77 دیوبند میں ’’مروجہ نصابِ تعلیم‘‘ کی تجویز اور اس کی حکمت: 62 12
78 نصابِ درس کی خوبیاں 63 12
79 نصابِ درس کے وہ اہم امور جن پر سب سے زیادہ غم و غصہ ہے 64 12
80 جدید فلاسفی کی شاخیں اور جدید فلاسفرز 66 13
81 تحلیلی فلاسفی( Analytic philosophy) اور معروضی فلاسفی (Objectivism) 67 13
82 معروضی مطالعہ کی ترجیح-ایک لمحۂ فکریہ 68 13
83 این المفر =منطق سے فرارممکن نہیں 68 13
84 کیا منطق اور فلسفہ سے شغف رکھنے والے علوم نقلیہ سے بے زار ہو جاتے ہیں؟ 72 14
85 کیا اکابر سے منطق اور معقولات کی مذمت منقول ہے؟ 72 14
86 فلسفہ اور معقولات میں ا کابر وسلف کی مہارت 73 14
87 اضطراب اعجازی کی توجیہ 75 15
88 قول صائب : مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ ا ﷲ کی آپ بیتی 76 15
89 (الامام محمد قاسم النانوتوی اور حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کے کلام کی روشنی میں) 78 16
90 (جامع معقول و منقول مولانا ریاست علی ظفر بجنوری مد ظلہ کی تنبیات کی روشنی میں ) 79 17
91 حلِّ مطالب پر اِکتفا کرنا چا ہیے،غیر ضروری تقریر مناسب نہیں 81 18
92 استاذ کے لیے بات کی پَچ مناسب نہیں 81 18
93 مولانا یعقوب صاحب رحمۃ ا ﷲ علیہ کے درس کی خصوصیت 81 18
94 حکیم الامت حضرت تھانوی رحمۃ ا ﷲ علیہ کے درس کی خصوصیت 81 18
95 محققین اکابررحمۃ ا ﷲ علیہم کے درس کی خصوصیت 82 18
96 استاذ کے لیے قابلِ لحاظ امر 82 18
97 اِستعداد کس طرح پیدا ہوتی ہے؟ 82 18
98 اِستعداد کے موانع 82 18
99 زبان کھل جائے،بولنے کا عادی ہو جائے،اِس کا انتظام 82 18
100 درسیات میں معقولا ت کی ضرورت:مثال(۱) 83 19
101 درسیات میں معقولا ت کی ضرورت:مثال(۲) 83 19
102 درسیات میں معقولا ت کی ضرورت:مثال(۳) 84 19
103 منطق کے بغیر آدمی درسیات پڑھا نہیں سکتا (حضرۃالاستاذعارف با ا ﷲ مولانا صدیق احمد صاحب رحمہ ا ﷲ ) 84 19
104 آپ بیتی: از مولف -فخر الاسلام 84 19
105 علومِ عالیہ کے لیے علومِ آلیہ کی ضرورت ہے 85 19
106 دور جدید میں جن حضرات سے دین کو نفع ہوا،وہ معقول ہی کی بدولت ہوا 85 19
107 مدارس کو اصول صحیحہ سے سروکار ہے ،محض جدید کا رعب کافی نہیں 86 19
108 نصابِ قدیم وجدید کی آویزش کا نتیجہ 87 19
109 خرابی کااصل سبب بزرگوں کے طریق سے بے نیازی 87 19
110 ۱۶-الف=گفتگوکا سرسری جا ئزہ (تلخیص) 88 20
111 ۱۶-ب=مشورے ، گزارشیں اور تجویزیں 89 20
112 (۱)اسلام پر پڑنے والے شبہات کے ازالہ کے لیے تجویز 89 20
113 (۲)چند مسئلوں کو جانچنے کی تجویز 90 20
114 ۱۷-الف= عقلی استدلال 91 21
115 ۱۷-ب=خیر و شر،بھلائی-برائی کا اصول اہلِ مغرب کی نظر میں 91 21
116 ۱۷-ج=خیر و شر،بھلائی-برائی کا معیار از الامام محمد قاسم النانوتویؒ 92 21
117 خیر و شر کا محسوساتی معیار: 92 21
118 خیر و شر کا عقلی معیار 92 21
119 اصول:۱=’’عقل موجدِ معلومات نہیں مخبر معلومات ہے‘‘ 93 21
120 باریک فرق معلوم کرنے کا مسئلہ،اور عقل کے التباسات 93 21
121 اصول:۲=جو چیز مطلوبِ اہم اور اور مقصودِ اعظم ہو تی ہے،اُسی پر بھلائی،برا ئی کا اِنحصار ہو تا ہے 94 21
122 نیک و بد،بھلا،برا ،خیر و شرکے ا طلاقات 94 21
123 جس بات پر انسان کی بھلائی برائی موقوف ہے،اُس کے دریافت کرنے کا طریقہ: 94 21
124 اصول:۳=انسان کا مقصودِ اہم اور مطلبِ اعظم نفع کے کام کر نا اور نقصان کے کا موں سے بچنا ہے 94 21
125 انسان کے اجزاء ترکیبیہ 95 21
126 نتیجۂ بحث:بعضے کام بھلے اور بعضے برے یقیناً ہیں 95 21
127 اصول:۴=عقل اور قوتِ عمل میں رابطہ حاکم اور محکوم کا ہے ۔قوتِ عمل عقل کے لئے وہی درجہ رکھتی ہے جو قلم کاتب کے لئے 95 21
128 اصول:۵=جو چیز کسی کے حق میں خدا نے اول سے نافع پیدا کی ہے،وہ اُس کی رغبتِ طبع ہو تی 96 21
129 رغبت کی مثال 97 21
130 نفر ت کی مثال 97 21
131 اصولِ فطرت کی حقیقت اور عقلِ سلیم 97 21
132 کامل العقل کی اہمیت اور ضرورت 97 21
133 اصول:۶= کامل طبیبِ روحانی کے نسخہ میں کمی بیشی جائز نہیں 98 21
134 اِس بات کو یاد رکھنا چا ہیے کہ بہت کارآمد ہے 98 21
135 اصول:۷= کوئی طبیبِ روحانی اگر ایسی بات بتلائے کہ اُس کا ہو نا بہت سے 98 21
136 اصول:۸=بھلائی برا ئی ہر شی کی ازلی ہے۔اصول:۹=عقل و روح کے لیے مضر و نافع اعمال کا نام ہی بھلا ئی برا ئی ہے 98 21
137 اصول:۸=بھلائی برا ئی ہر شی کی ازلی ہے۔ 98 21
138 ۹=عقل و روح کے لیے مضر و نافع اعمال کا نام ہی بھلا ئی برا ئی ہے 98 21
139 اصول:۱۰=دینِ حق کے کر نے نہ کرنے کی باتیں وہی ہیںجن سے عقلِ صاف او رروح پا ک کو رغبت یا نفرت ہو 98 21
140 اصول:۱۱= دینِ حق مرغو بِ طبع ہو تا ہے 99 21
141 اصول:۱۲=روح کو بدن پر ہر بات میں قیاس نہیںکیا جا سکتا 100 21
142 اصول:۱۳= طبیعت کی رغبت کا اثر تب ہی ظا ہر ہو گا جب کہ مانع نہ ہو 100 21
143 دینِ حق جب مرغوبِ طبیعت ٹھہرا،تو طبیعت کے موافق عمل درآمد کرنا چا ہیے؟ 101 21
144 امراضِ روحانی کو مرض نہ سمجھنے کی مثالیں 101 21
145 مثال(۱)معاشرتی امراض(Social diseases) 102 21
146 مثال(۲):نسلوں اور قوموں کے امراض 102 21
148 مثال(۳)امراض پیشہ(Occupation) 102 21
149 مثال(۴)امراضِ عادات(Habbitual diseases) 102 21
150 مثال(۵)موروثی(Heriditary) 102 21
151 تبدیلیٔ زمانہ سے احوال و احکام میں تبدیلی 102 21
152 اصول:۱۴=ہر عمل کسی نہ کسی مرتبے کا حسن و قبح رکھتا ہے 103 21
153 اختتامی التماس 104 21
Flag Counter