ہوئے لکھا ہے :
’’ لیکن عقلیت کے خلاف اُن کا سارا کلام جیسا کہ پڑھنے والوں پر مخفی نہیں سراسر عقلی رنگ میں ڈوبا ہوا ہے۔یہی حال شاہ ولی اﷲ اور مولانا محمدقاسم
رحمۃاﷲ علیہ جیسے بزرگوں کا ہے،کہ نشانہ وہی غلط عقلیت ہے جس میں لوگ مذہب کے باب میں بھی مبتلا ہو جا تے ہیں؛لیکن عقلیت کی تردید جب
تک خود اسی عقلیت کی راہ سے نہیں کی گئی ہو،ایسی تردیدوں کو اپنے زمانہ میں بھی پذیرائی میسر نہیں آتی۔‘‘
عرض احقر=مولانا کہنا یہ چاہتے ہیں کہ حضرت نانوتویؒ نے جو عقلیت سے کام لیا،وہ اُس دور کی ضرورت تھی؛لیکن اب زمانہ سائنس کا ہے۔
مگر معلوم ہو نا چا ہیے کہ حضرت مولانا محمد قاسم صاحبؒ کا سارا کام جس غلط عقلیت کی تردید میں اور جس بدلے ہوئے زمانہ میں پیش آیا ہے،ہمارا یہ زمانہ اُسی کا توسیعہ ہے۔اور سائنس کے جتنے اصول اور مسائل آتے چلے جا رہے ہیں،ہوا میں بات کرنے سے کچھ حاصل نہیں ؛تجربہ کر کے دیکھا جا ئے کہ حضرت نانوتوی کے اصول ،اُن مسائل کے لیے کفایت کرتے ہیں یا نہیں۔مجھے توسائنس کا کوئی مسئلہ اب تک ایسا مل نہ سکا جسے حضرت نانوتویؒ کے بتائے ہو ئے اصول پر رکھ کر دیکھا ہو اور حل نہ ہوا ہو۔اور آئندہ آنے والے ازمنہ ۱۹ ویں صدی کا توسیعہ اس لیے ہیں کہ حضرت نانوتویؒ کا کام اُن تبدیلیوں کے تناظر میں سامنے آیا ہے جن کا حل سر سید احمد خاں غلط عقلیت کے ساتھ جدید کا لیبل لگا کر اپنی ریفارمیشن تحریک کے ذریعہ پیش کر رہے تھے۔ایسی صورت میں سر سید کا کام اگر جدید حالات میں جدید مسائل اور سائنسی اصولوں سے ہم آہنگ ہونے کے لیے،یا اُن سے نبرد آزما ہونے کے لیے اور زمانہ کے چیلینجز کا مقابلہ کرنے کے لیے (اُن کے مدافعین کی نظر میں تھا)،توعین اُسی زمانہ میں مولانا محمد قاسم صاحب کاکام فرسودہ عقلی اصولوں پر مبنی کیسے قرار پایا ؟بلکہ حقیقت یہ ہے کہ حضرت نانوتویؒ کے بتائے گئے اصول جہاں اہلِ مغرب کے حملوں کا جواب ہیں،وہیں مسلمان اہلِ زیغ کے ذریعہ پیدا کیے گئے اِ لتباسِ فکری کا بھی جواب ہیں۔جیسے جیسے زمانہ آگے بڑھتا جا رہا ہے،مولانا فخرالحسن گنگوہیؒ،شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ، حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی ؒاور شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی ؒکے الامام محمد قاسم نا نوتویؒ کی تصنیفات کے متعلق دعاوی وسفارشات کی ،تجربے اور مشاہدوں سے توثیق وتائید ہو تی جا رہی ہے۔یہ ستم نہیں تو اور کیا ہے؟کہ حضرت نا نو تویؒ کی فہم و ذہانت کا پاس ولحاظ رکھتے ہوئے ایک طرف تو یہ کہا جا ئے کہ ’’اُنہوں نے اپنے دور کی آخری تحقیقات مد نظر رکھیں۔اور عقل پرستوں کا طاقتور جواب فراہم کیا۔‘‘لیکن دوسری طرف اُن اصولوں کوجن کو حضرت نا نوتویؒ نے استعمال کیا ’’ یو نانیوں کے جاہلیت زدہ علوم کا خلاصہ ‘‘کہہ کر’’ صرف قیل و قال‘‘میں وقت کی بربادی،اور ذہنی عیاشی کا مصداق بھی قرار دیا جا ئے۔
التباس-۵=سر سید کی بے احتیاطی اور علماء کے قصورِ فہم کا مغالطہ
’’سر سید بھی حلقۂ علماء میں سے تھے،اگر وہ تشریعی امور میں بلا اِستحقاق مجتہد نہ بنتے۔اور ہمارے دیگر علماء اُن کے کام کو خارج ازدین نہ قرار
دیتے۔ اورآگے بڑھ کر کائناتی علوم اور تشریعی علوم کے معاون علوم کے مرکز کی حیثیت سے علی گڑھ کالج کو قبول کر کے،اُس کو بھی اپنے فکر و عمل کے زیرِ نگیں
لا نے کی کوشش کرتے ،تو شایدوہ دو طبقے وجود میں نہ آتے جن کے خلا کو پر کرنے کے واسطے ندوہ کے نام سے تحریک شروع کی گئی تھی۔‘‘(۲۵۸)
عرضِ احقر=فیا للاسف!یہ زمانہ کی ستم ظریفی نہیں تو اور کیا ہے کہ ‘’’جنوں کانام خرد رکھا،خرد کا جنوں۔‘‘امر واقعہ یہ ہے کہ جن اصولوں پر حضرت نا نوتویؒ نے اپنے دور کے باطل افکار کو رد فرما یا ہے،وہ اصول ایسے نہیں ہیں کہ حضرت نا نوتویؒ نے تو اُن سے کام نکال لیا؛ورنہ در حقیقت وہ جاہلیت زدہ فرسودہ تھے،ہر گز نہیں؛بلکہ وہ اصول ایسے اٹل ہیں کہ اُن کی اطلاقی حیثیت آج بھی قائم ہے،جس کی وجہ یہ ہے کہ سترہویں اور اٹھارہویں صدی عیسوی میں شریعت مزاحم جو مسائل اور افکارتھے،وہ ،مغربی محققین کے وضع کردہ اصولوں پر مبنی تھے،(جن کی اشاعت انیسویں صدی میں ہندوستان میں ہو ئی،اور جن کے ساتھ سر سید نے تطبیق اور مصالحت کی روش اختیار کی ،دوسری طرف حضرت نا نوتویؒ نے اُن کا تجزیہ کر کے،اُن کا کھرا اور کھوٹاواضح کیا۔اور صحیح اصولوںپر بنا رکھ کر براہین قطعیہ قائم کیے اوراسلام کے دفاع کی لا زوال خدمت انجام دی۔ )بعد کے زمانوں میں بعض تحقیقات کے نتیجہ میں کچھ نئے مسائل ضرورپیداہوئے،لیکن اُن کا شریعت کے ساتھ مزاحمتی پہلو اُنہی اٹھارہویں اور انیسویں صدی کے مغربی اصولوں پر مبنی تھا۔ اِس سے معلوم ہوا کہ