اور بعض میں متاخرین متقدمین کا مطلب نہیں سمجھے ،ایسی بعض جگہوں کی نشاندہی محققین کے کلام میں بسہولت مل جائے گی۔
التباس:(ب)اور ایک التباس یہ پیدا کیا کہ تبدیل ہو جانے والے مسائل کی نہ مثالیں ذکر کیں،اور نہ ہی فلسفۂ قدیمہ اور فلسفۂ جدیدہ کی نوعیتوں میں کچھ فرق کیا۔ایک ہی لاٹھی سے دونوں کو ہانکتے ہوئے یہ لکھ دیا کہ:
’’عقلی و منطقی علوم میں’’ تغیرات ہو تے رہتے ہیں،مضامین بھی بدل جا تے ہیں اور اُسلوب بھی،جیسا کہ فلسفۂ قدیمہ اور فلسفۂ جدیدہ کا حال ہے۔‘‘(ص۹۸)
عرض احقر=حالاں کہ دونوں میں فرق کرنا ضروری تھا جس کا ذکر حکیم الامت حضرت مولا نا اشرف علی تھا نویؒ نے کیا ہے،وہ فرماتے ہیں:
’’ فلسفۂ قدیم کے اصول علمی ہیں۔ ان کی بناء پر جو استبعاد ہوتاہے وہ علوم ہی سے رفع ہوجاتاہے ۔مگر اس سے صرف عقل کو قناعت ہوجاتی ہے جو کہ واقع میں
کافی ہے لیکن فلسفۂ جدیدہ زیادہ تربلکہ تمام تر بزعم خود مشاہدات کا پابند ہے اور بزعم خود اس لئے عرض کیا کہ واقع میں وہ اس کا بھی پابند نہیں چناںچہ مادہ کے
متعلق اکثر احکام محض خزافی وخیالی ہی ہیںتاہم اس کو ناز ہے کہ میں بے دیکھے نہیں مانتا اس لئے ایک وہ شخص جس نے اول ہی سے عقل کو چھوڑ کر حواس ہی کی
خدمت کی ہو وہ(تمام امور حتی کہ ۔) باب معجزات میں بھی ان کے نظائر کے مشاہدات کا جویاںرہتاہے اور بدوں اس کے اس کی قوت وہمیہ کو قناعت نہیں
ہوتی اور استبعاد رفع نہیں ہوتا۔ ...‘‘(بوادر النوادر حصہ دوم)
البتہ یہ ضرور ہے کہ فلاسفہ نے اپنے خیالات کے تحت بعض اصول قائم کیے اور اُن پر بنا رکھ کر فاسد قسم کے مسائل اور دلائل بیان کردیے؛لیکن یہ بات فلسفۂ جدیدہ میں فلسفۂ قدیمہ سے بھی زیادہ ہے،اور اسی لحاظ سے فلسفۂ جدیدہ کا ضرر بھی بڑھا ہوا ہے۔حکیم الامت حضرت تھانویؒ لکھتے ہیں:
’’کماتضر الفلسفۃ القدیمۃ(فان مسائلہا ودلائلہافاسدۃ مبنیۃ علی الفاسدۃ) تضر الفلسفۃ الجدیدۃ اکثرمنہا۔‘‘( تلخیصات عشر ص۱۷۳)
اگر موقع ہوتا تو حضرت تھانوی کے اِس متن کی شرح تقابلی مطالعہ کے ساتھ بیان کرتا۔
التباس(ج)انگریزوں کے زمانہ میں مسلمانوں کے’’خالص دینی علوم کے تحفظ کی فکر‘‘کے نتیجہ میں:
’’اُن کا نصاب دو عملی کا شکار ہو گیا۔ایک طرف دین کے وہ علوم تھے جن پر عمل کیا جاتا ہے،دوسری طرف وہ فلسفیانہ علوم جن پر صرف قیل و قال ہوتی ہے۔
اُن کا زندگی کے تجربات اور عمل سے کوئی تعلق نہیں،وہ یو نانیوں کے جاہلیت زدہ علوم کا خلاصہ ہو نے کے علاوہ کچھ نہیں۔‘‘
عرض احقر=یہاں پر بھی خلط و اِلتباس سے کام لیا گیا ہے؛کیوں کہ تمام شرعیات دو اجزاء پر مشتمل ہے۔(۱)جزئِ عملی(۲)جزئِ علمی و اعتقادی۔جزء علمی میں فلسفہ اور علومِ عقلیہ کی ضرورت اس لیے پیش آتی ہے تاکہ غیروں کی طرف سے پیش آنے والے مذہبی حملوں کا جواب دیا جا سکے۔اِسی ضرورت سے مدرسوں میں فلسفہ اور عقلی علوم پڑھائے جا تے ہیں،ایسی صورت میں اِن کو’’یو نانیوں کے جاہلیت زدہ علوم کا خلاصہ ‘‘ ،کہنا اگر اس معنی میں ہے کہ علم کے نام پر اُسی جاہلیت کو اہلِ مدارس اختیار کیے ہوئے ہیں(اور بظاہر مولف کی یہی مراد ہے)،تو یہ سخط مغالطہ اور اتہام ہے۔قدماء کی کتابوں میں کیا کچھ ہے،سرِ دست اِس سے بحث نہیں،اس وقت تو دورِ حاضر کے ہی مسائل پیش نظر ہیں،اُنہیں کو سامنے رکھئے،اور اصول عقلیہ و فلسفیہ کو حا لا تِ حاضرہ کے مسائل پر اِطلاق و اِنطباق کی فہم حضرت نانوتوی ؒاور حضرت تھانویؒ کی تصنیفات سے حاصل کیجئے،پھر بتائیے کہ شریعت کے جزء علمی و اعتقادی پورے طور پر انہی اصولوں کے ذریعہ محفوظ ہیں کہ نہیں ،اور شریعت پر واقع ہونے والے تمام اعتراضات انہی اصولوں کے ذریعہ دفع ہو جا تے ہیں یا نہیں۔
التباس-۴=دور قاسم کی آخری تحقیقات کا مغالطہ
مولف نے بعض متضاد باتیں لکھی ہیں،مثلاًفرماتے ہیں:
’’ہمارے جن بزرگوں نے اپنے دور میں علوم عقلیہ کی طرف توجہ کی،اُنہوں نے اپنے دور کی آخری تحقیقات مد نظر رکھیں۔اور عقل پرستوں کا طاقتور جواب فراہم کیا۔‘‘
پھر مو لانا گیلانی کے اقتباسات سے استناد و استشہاد کرتے ہو ئے،مذکورہ ’’ علوم عقلیہ کی طرف توجہ ‘‘کے باب میں کسی قدر اِستدراک فرماتے