کا یہ مرتبہ جو کچھ گل کھلائے،بعید نہیں۔
التباس-۲=زمانہ کی تبدیلی کا مغالطہ
درس نظامی میں’’نصاب کا بڑا حصہ علوم عقلیہ پر مشتمل تھا،جو نہ صرف یہ کہ یو نان کے برآمد کردہ علوم تھے؛بلکہ اکثر مسلمان مصنفین
جنہوں نے اِن علوم سے اشتغال رکھا،خوش نام اور صحیح العقیدہ نہ تھے۔اس سب کے باوجود اگر علماء نے اِن علوم و فنون کو جزئِ نصاب بنا یا،اور یہ کتا بیں
داخلِ نصاب کیں،تو دو باتوں میں سے کوئی بات ہی اس کا سبب ہو سکتی ہے:
(الف)یاعلماء اِن کتابوں سے اِتنا مرعوب ہو گئے تھے کہ یان میں یونانی و ایرانی یلغار کے مقابلہ کی طاقت اس قدر جواب دے چکی تھی کہ ان کو نصابیات
کا جائزہ لینے کی بھی ہمت نہ ہوئی۔
(ب)یا علماء ایسے نباض دور اندیش،اور معاملہ فہم تھے کہ ہر دور کے عصری علوم اور اُس کے تقاضوں اور ضرورتوں کو پوری طرح سمجھتے تھے،اور اُن کے مطابق
اپنے نصابِ درس میں تبدیلیاں لاتے تھے،اگرچہ اس اقدام میں اندیشہائے دور دراز ہی کیوں نہ پائے جاتے ہوں ،اور اس نصاب کے بعض اوقات بعض
کچے ذہنوں پرمضر اثرات ہی کیوں نہ مرتب ہوجا تے ہوں،منطق و فلسفہ نے عام طور پر بے دینی، غفلت،ادعا اور جھوٹا پندار پیدا کیا ہے؛لیکن اس دور میں
ان کی ضرورت نے علماء کو مجبور کیا کہ وہ اِن علوم سے تغافل نہ برتیں۔‘‘
عرض احقر=:پہلی بات قطعا غلط ہے۔اس پر متکلمین کی کتابیں شاہد عدل ہیں۔اور پانچویں دور کے نصاب تعلیم کے حوالہ سے حضرت نا نوتوی ؒکی تصنیفات خود اس کی تغلیط کرتی ہیں۔دوسری بات کا تانا درست ہے،با نا، نا درست۔ درست جو کچھ ہے،وہ یہ ہے:’’علماء ایسے دور اندیش،اور معاملہ فہم تھے کہ ہر دور کے عصری علوم اور اُس کے تقاضوں اور ضرورتوں کو پوری طرح سمجھتے تھے۔‘‘اس کے آگے کی بات مولف کا اپنا وہمی تخمینہ ہے‘،اور اس پر استدراک یہ ہے کہ نصاب ترتیب دیتے وقت حضرت نا نوتویؒ کے سامنے دو چیزیں تھیں:
(۱)سائنسی تہذیب پر مبنی مغربی افکار جوجان ڈا لٹن کی انیسویں صدی میں اپنے عروج کو پہنچ گئے تھے،جنہوں نے بعد میں بیسویں صدی کے آئنسٹائنی عہد(۱۸۷۸تا۱۹۵۱) میں کیا کیا کرشمے دکھلائے،اور پیٹر ہگ کی اکیسویں صدی(۲۰۱۳) میں سطحی نظر میں حقائق کہی جانے والی اشیاء کو زیر و زبر کر کے رکھ دیا،اُن کے مقابلہ میں ایسے اصول متعارف کرا ئے جا ئیں جن پر زمانے اور اکتشافات کی تبدیلیاں اثر انداز نہ ہوں۔
(۲)علوم جدیدہ اور قواعد تمدن کی راہ سے پیش آنے والے مغالطوں اور التباس فکری کو دفع کرنے کی صلاحیت کا پیدا کر نا
اِ دونوں باتوں میں یہ نصاب کامیاب ہے یا نہیں،اِس پر گفتگو آئندہ’’مشورے اور تجویزیں‘‘کے تحت کی جا ئے گی۔
التباس۳=عقلی و منطقی علوم میں تغیرات کا
:(۱لف)’’عقلی و منطقی علوم تو اِن میں تغیرات ہو تے رہتے ہیں،...لہذا اِن مضامین میں جو فرسودہ اور تجربات کی روشنی میں مفروضات؛
بلکہ بے بنیاد ثابت ہو چکے ہیں،اُن کو درس میں جگہ دینا،اور اِس طرح حقائق و تجربات کے خلاف مفروضات کی بحث کرتے چلے جانا،اِضاعتِ وقت؛
بلکہ علم آمیز جہالت ہے۔‘‘(ص۹۸)
عرض احقر=مولف کا مذکورہ تجزیہ درست نہیں۔اصولِ موضوعہ بدلا نہیں کرتے،منطق قواعدِ عقلیہ و میزانیہ کا نام ہے،وہ تو کسی حال میں نہیں بدلتے
،ہاں کوئی شخص مقدمات کی ترتیب میں یاقواعد کے اطلاق میں خطا کرے ،یا ذہن نا رسا کوتاہی کرے،جیسا کہ بعض منطقیوں نے ایسا کیا ہے،اُس کی مثالیں بھی ہم نے ذکر کی ہیں،یہ اُن کی خطا ہے۔اِس باب میں محققین کے اقوال و دلائل پر نظر رہنا ضروری ہے ۔اور عقل وفلسفہ کے مسلمات اور اصولی قواعد بھی ایسے ہیںکہ تبدیلِ زمانہ ،اقوام،مذاہب،اکتشافات و تحقیقات کے بدلنے سے وہ بھی نہیں بدلتے۔ہاں بعض مسائل میںفلاسفہ نے غلطی کی ہے