متکلم کے پیچھے نماز مکروہ بتا ئی تھی۔اور ایک امامِ شافعی کیا ،اِس آخری دور میں حضرت امامِ ربانی رشید احمد گنگوہی رحمۃ اﷲ علیہ نے بھی اسی و جہ اس فلسفہ سے جو سے نہایت شدت کے ساتھ روکا،آپ کے الفاظ یہ تھے:
’’فلسفہ محض بے کا ر ہے،اِس سے کو ئی نفع معتد بہ حاصل نہیں،سوائے اِس کے کہ چار سال ضائع ہوں،اور آدمی خر دماغ ،غبی دینیات سے ہو جا ئے،اور
کلماتِ کفریہ زبان سے نکال کر ظلماتِ فلسفہ میں قلب کو کدورت ہو جا ئے،اور کوئی فائدہ نہیں۔‘‘(اِس اقتباس کو فاضل مو صوف نے بھی نقل کیا ہے دیکئے ص۱۴۴)
یہ بات اگر اب کسی کے اندر ہو تو اب بھی وہی حکم رہے گا۔چناں چہ اِس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے حکیم الامت حضرت تھانوی قدس سرہ نے فرمایا:
’’ایک بار حضرت گنگوہی قُدِسَ سِرُّہ نے دیوبند کے نصاب سے بعض کتبِ فلسفہ کو خارج فرما یا تو بعض طلبہ حضرت مولانا محمد یعقوب صاحب سے شکایت
کرنے لگے کہ حضرت (گنگوہیؒ)نے فلسفہ کو حرام کر دیا۔فرمایا :ہرگز نہیں؛حضرت نے نہیں حرام فر مایا؛بلکہ تمہاری طبیعتوں نے حرام کیا ہے۔ہم تو پڑھاتے
ہیں اور ہم کو امید ہے کہ جیسے بخاری اور مسلم کے پڑھنے میں ہم کو ثواب ملتا ہے،ایسے ہی فلسفہ کے پڑھنے میں بھی ملے گا۔ہم تو اِعانت فی الدین کی وجہ سے
فلسفہ کو پڑھتے پڑھاتے ہیں۔‘‘(ملفوظات جلد۲۹ص۱۶۶،۱۶۷) ’
اِس پر مفصل کلام امام قاسم نانوتوی کے ایک مضمون کے ذیل میں آئندہ آ رہا ہے۔
کیا مغرب کی اندھی تقلید درست ہے اور اپنی ہوائے نفسانی کے مقابلہ میں اکابر کی فہم پر اعتماد نا درست؟
(۴)’’قرآن میں اندھی تقلید کو برا ٹھہرا یا گیا ہے۔‘‘(ص۷۶)
اندھی تقلید جو خلافِ دلیل یعنی دلیلِ صحیح کے معارض ہو،وہ تو مذموم ہے ہی؛لیکن موصوف اِس لفظ کی آڑ میں صحیح اصولوں سے ہٹا کر مغرب کے باطل اصولوںپر لا ناچا ہتے ہیں۔ فرماتے ہیں:
’’کسی اور مذہبی کتاب میں فطرت کے مطالعہ پر اِتنا زور نہیں دیا گیا ہوگا جتنا قرآن مجید میں ہے۔سورج،چاند،سمندر کی موجیں،دن اور رات
کے چمکتے ہوئے ستارے،دمکتی فجر،پودے،حیوانات،تمام ہی قوانین فطرت کے تابع بنائے گئے ہیں۔‘‘(ص۸۱)
’’اندھی تقلید ‘‘کے سلوگن کے پیچھے ’’قوانین فطرت‘‘کے دریافت کی یہ وہ حرص ہے جس نے یورپ کو آخرت کی مقصودیت کے انکار،خداکے احکام کی تعمیل سے باغی کر کے چھوڑا۔اُن کے ذہنوں میں یہ بات جمی ہوئی ہے کہ قوانین فطرت اورفطرت کے رازہائے سر بستہ ہمیں اس لیے دریافت کرنا ہیں کہ خدائی احکام اور مذہبی عقید وںسے انسان بے نیاز ہو سکے اور اِن قوانین فطرت کے سہارے ہی انسانی مفادات متعین کر سکے۔قوانین فطرت کی دریافت کا ذریعہ سائنس ہے ،اور سائنس کا حال یہ ہے کہ اس کے اصول ،دلائل اور مسائل بعضے ظنی ،بعضے وہمی اور بعضے خلافِ دلیل بھی ہیں،جن پر مفصل کلام امامِ قاسم نانوتویؒ اورحکیم ا لامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کی تصنیفا ت میں موجود ہے۔اہل حق نے تو کبھی تقلید بے جا یا اندھی تقلید کی حمایت کی ہی نہیں؛لیکن اپنے بڑوں کے فہم و علم پر اعتماد،البتہ اس سے کہیں بہتر ہے جس کی ترجیح ’’دمکتی فجر‘‘’’معادنِ ثلاثہ‘‘اور’’تکونات(Ontology)‘‘کے مغربی ا صول اور تحقیقاتی ہدف کے تحت موصوف کے پیش نظر ہے ۔
’’صحا بہ نے حضور ﷺسے دریافت کیا تھا کہ چاند کے گھٹنے،بڑھنے کی کیا وجہ ہے؟اِس پر یہ آیت{ یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْاَہِلَّۃ ؛البقرۃ؛۱۸۹}نازل ہوئی
جس میں وجہ اور علت نہیں بتلائی گئی ؛بلکہ حکمت بتلادی گئی۔اِس سے سائنس دانی کا فضول ہو نا یقیناً ثابت ہو گیا۔‘‘(اشرف التفاسیرج۱ ص۱۷۲)
یہ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کا اِفادہ ہے،اگر اِس پرنظر رکھ کروہ چار امورپیش نظر رکھے جائیں جو حضرت نے سائنس کی قرآن کے ساتھ تطبیق کے باب میں غلوکے متعلق ذکر کیے ہیں،تو مجھے نہیں لگتا کہ’’ مذہبی کتاب میں فطرت کے مطالعہ ‘‘ کا لوتھر اور گلیلیو کاجو سہر عیسائیت پر کام کر گیا،وہ اسلام پرسر سید و شبلی کاتو نہ چل سکا تھا؛سلمان کا کیوں کر چل سکے گا۔اپنے دین کا محافظ خدائے تعا لی ہے۔ افسوس جناب سلمان حسینی ندوی وہی