سید نے اُن کے متعدد مضامین کو اپنی زبان میں ادا کیا۔ ‘‘(مقالات شبلی جلد ۲ ص۶۴)
------------------------------
حاشیہ:(۱)لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ’’دینی اور بعض مجلسی امور میں وہ جس قدر روایت شکن معلوم ہو تے ہیں،اُتنے ہی بعض فکری و عملی باتوں میں مقلد نظر آتے ہیں۔سر سید کے ذہن کا یہ تضاد در اصل گزشتہ صدی کی مبہوت کر دینے والی فضا کا نتیجہ ہے۔‘‘ یہیں سے یہ عقدہ بھی کھل گیا کہ مبہوت و مضطر، سر سید اور اُن کے تحریری و فکری اصولوں کی پیروی کر نے والے متبعین ہوئے ہیں، جنہوں نے نصا بِ تعلیم کی ہر حال میں مخالفت ضرورسمجھی۔حضرت نانوتوی کے متعلق ایسا کہنا غلط ہے ،جیسا کہ جناب سید سلمان حسینی ندوی نے بے تحقیق یہ بات کہہ دی ہے۔دیکھئے روزنامہ’’ اردو ٹائمز‘‘۱۷؍اکتوبر ۲۰۱۱ )
حاشیہ:(۲)اِن ادبی نظریات میں سر سید کے رفقائے خاص اُن سے اکثر با توں میں ہم خیال اور ہم قدم ہیں۔شبلی،حا لی،نذیر احمد،ذکاء اﷲ،چراغ علی،محسن الملک،یہ سب اُن کے ہم کار و رفیقِ سفر تھے۔اِن کی تحریروں میں بھی سر سید کے افکار و خیالا ت کے نقوش موجود ہیں۔اگرچہ ان میں اکثر کے یہاں مزاج اور فکر کی انفرادیت بھی پائی جاتی ہے۔
حاشیہ:(۳)یہ مضمون ہماری طالب علمی کے زمانہ میں۱۹۸۰ءکے ہائی اسکول یو پی بورڈ کے نصاب میں شامل تھا۔
ماڈرن تصور کے نقطۂ نظرسے معاشرہ کی ترقیات نیزسیاسی اور تعلیمی اصلاحات کے باب میں روسو(DJean Jacques Rausseau۔۱۷۱۲تا ۱۷۷۸ء)کے افکار بنیادی اہمیت کے حامل ہیں۔یہ رومانٹک تحریک کا ایک اہم علمبردار تھا۔روسو نے کلیدی عقیدوں پر حملہ کیا،اوراہلِ مغرب کے خیالات میں ایک خاص تبدیلی لانے میں کامیاب رہاتھا؛اس نے:
’’شر کا خالق خدا(کو) نہیں ؛بلکہ انسان کو ٹھہرایا،اس نے انسان کو یہ بھی تنبیہ کی کہ اے انسان شر کے خالق کو اِدھراُدھر مت ڈھونڈ چوں ک شر کا خالق تو ہی ہے۔...جوکام سیاست کے لیے میکیاولی نے کیا تھا اورگلیلیو نے سائنس کے لیے کیا وہ کام روسو نے مذہب کے لیے کیا
یعنی شر کے مسئلہ کو مذہب کے احکامات سے علٰحدہ کر دیا۔‘‘
روسو نے جو کتابیں لکھیں،اُن میں بتا یا گیا ہے کہ
’’کس طرح لو گوں کو فطری طور پر زندگی گزارنی چا ہیے۔یعنی گاؤں میں او درختوں کے بیچ اپنے دل کی آواز اور ضمیر کی ندرونی ہدایتوں کے
تحت۔روسو کا کہنا تھا کہ انسان کے اعمال کو’’فطری‘‘اخلاق کے ضابطوں پر پرکھنا چا ہیے ۔‘‘
روسو کے اثرات کا تعدیہ کس قدر شدید ہے،اِس کا اندازہ اِس سے لگایا جا سکتا ہے کہ قرآن کریم کی آیت اِلّا مَنْ اَتیَ اﷲَ بِقَلْبِِ سَلِیْمِِ کی تفسیر کرتے ہوئے محقق دریا بادی نے لکھا ہے:
’’ آج کی زبان میں یوں سمجھئے کہ قلب سلیم وہ قلب ہوتا ہے،جو خیر و شر کا شعور زندہ و بیدار رکھتا ہے۔‘‘(دیکھئے؛ت۔ماجدی الشعراء:۸۸جلد ۵،ص ۳۶۔)
حا لاں کہ اگر تفسیربیا ن القرآن جسے موصوف نے دلیلِ راہ بنانے کی بات کہی ہے،اُس میں دیکھا جائے،تو صاف اِس کے معنی یہ ہیں:’’جو اﷲ کے پاس (کفر و شرک سے)پاک دل لے کر آوے گا۔‘‘
آخر کوئی تو بات ہے کہ جس زمانہ میں سر سید اور شبلی اپنی تحریروں میں رومانی سرور،ناول کا سا طرز ،’’مغربی سادگی‘‘،’’مغربی معروضییتجاری کر رہے تھے،اور’’مغربی فطری‘‘طریقہ اختیار کر رہے ہیں اور حالی مضمون نگاروں اور مصنفوں کو ورڈز ورتھ کی اتباع کا مشورہ دے رہے ہیں، عین اُسی زمانہ میں الامام محمد
قاسم نانوتوی اور حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ،ہر دو بزرگ جہاں دین کی توجیہ و تشریح میں اور عقائد و افکار کی فہم و تفہیم میں معقولات اور فلسفہ کی اہمیت و ضرورت محسوس کررہے تھے اور معقولات کے ترک یا تخفیف کے باب میںمفکرین عصر کے مشورے قبول نہیں کر رہے تھے؛وہیں، وہ ایسے اسلوب سے بھی اجتناب برت رہے ہیں جس میں قلبِ حقیقت کا اندیشہ ہ رہتاہو ۔اپنی ایک کتاب کا ذکر کرتے ہوئے حکیم الامت حضرت تھانویؒ فرماتے ہیں:
’’اس میں چھوٹی چھوٹی عبارتوں میں بڑے بڑے اشکال کا حل کردیا گیا ہے طالب علموں کے نہایت کام کی چیز ہے مگر مشکل یہ ہے آج کل لوگ ان
مضامین کو پسند کر تے ہیں کہ جن میں نئے طرز کے الفاظ ہوں اور ناول کا سا طرز اور رنگ ہو۔ ‘‘(ملفوظات :ج۲ ص۹۹)
ادب کا یہ وہ اسلوب ہے جوفضا میں سرایت کیے ہوئے ہے،اور تفسیر تک میں جاری و ساری ہے۔
۴-ب=تاریخ