Deobandi Books

الامام محمد قاسم النانوتوی کی فکر اور بدلتے حالات میں مدارس کی تر جیحات

32 - 104
سر سید(کے اثر سے اُن) کے رفقاء نے تاریخ اور سونح نگاری میں بڑی دلچسپی لی۔‘‘لیکن آثار الصنادید جیسی تصنیفات کے بعد جب سر سید کی زندگی میں’’جدید سیاسی دینیت‘‘ کا رنگ کچھ زیادہ گہرا ہوا،تو اُن کی تاریخ بھی’’افادیت ‘‘کے تابع ہو گئی۔انہوں نے تاریخ کو’’ اجتماعیات‘‘کی روشنی میں سمجھنے اور پیش کرنے کی اہمیت پرزور دیا۔واقعاتِ تاریخی کے اسباب کی دریافت یعنی جدید مغربی تصور کے تحت عمرانی عوامل کی تلاش ضروری قرار پائی۔
’’شبلی نے سیرۃ النبی کے مقدمہ میں  اِس بات پر خاص زور دیا ہے کہ تاریخ میں کوئی بات اصولِ مسلمہ(یعنی مغرب کے وضع کردہ اصولِ مسلمہ
۔ف)اور عقل(جس کادائرہ کار مغرب کااصول فطرت ہے۔ف)اور مشاہدہ کے خلاف نہ ہو۔اور یہ وہ اصول ہیں جس کی جڑیں سر سید کی
 تحریروں سے ابھر کر باہر پھیلی ہیں۔‘‘(علی گڑھ میگزین نمبر ۱۹۵۳-۱۹۵۵؁ء ص۶۶)
’’شبلی کے بعد اگر کوئی شخص مورخانہ حیثیت کا مالک ہے،تو وہ مولوی ذکاء اﷲ ہیں... ذکاء اﷲ نے تاریخ کے لیے عقل و نیچر کے قوانین کا اسی
 طرح اعتراف کیا ہے جس طرح دیگر رفقائے سر سید نے کیا ہے۔‘‘(علی گڑھ میگزین نمبر ۱۹۵۳-۱۹۵۵؁ء ص۶۷))
پرانی شاعری کی بڑی خرابی سر سید کے نزدیک یہ تھی کہ:
’’ اس میں فطری جذبات کی کمی تھی۔‘‘نیز’’اس سے تعجب تو پیدا ہوتا ہے،اثر نہیں۔‘‘
اور ملٹن ؔ اور شیکسپیئر وغیرہ ڈرامہ نگاروں کے بارے میں سرسید کی یہ پختہ رائے ہے کہ:
ملٹن ؔکی پیراڈ ائزلاسٹ کچھ چیز نہیں بجز اِ س کے کہ انسان کی حالت کی تصویر ہے جس کا ہر ہر شعر دل میں گھر کر جا تا ہے۔شیکسپیئر میں کچھ چیز نہیں ہے 
بجز اِ س کے کہ اُس نے انسان کا نیچریعنی قدرتی بناوٹ طبیعت کو بیان کیا ہے جو نہایت موثر انسان کی طبیعت پر ہے۔‘‘(علی گڑھ میگزین نمبر ۱۹۵۳-۱۹۵۵؁ء ص۷۲)
ڈاکٹر سید عبد اﷲ مزید لکھتے ہیں:
’’ شاعری کا اِجتماع کے لیے مفید ہو نا،اور اُس کی افادی ....صلاحیت،یہ سب امور سر سید کے ارشادات کی صدائے باز گشت ہیں۔ شبلی کی
 تنقیدی صلاحیت میں بظاہر مجددانہ اور مجتہدانہ رنگ نظر آتا ہے،مگر غور کرنے سے یہ معلوم ہو گا کہ اُن کی تصریحات میں بھی روحِ سرسید ہی جلوہ
 گر ہے۔‘‘وجہ اس کی یہ ہے کہ ’’سر سید کے خیالات ایک بڑی تحریک کا حصہ تھے،اس لیے وہ تحریک کی طرح ہر طرف چھا گئے۔اِن خیالات کے
 زیرِ اثر شاعری میں  سب سے بڑا اور نمایاں نمونہ حالی نے قائم کیا جن کی شاعری خصوصاً مسدس گو یا تہذیب الاخلاق کی منظوم شرح ہے، اور حالی 
کو اِس کا اقرار بھی ہے۔یہ شاعری ہی نہیں ایک تہذیب کی داستان اور ایک نئی تہذیب (اہلِ مغرب کی برپا کردہ فطری تہذیب۔)کی دعوت بھی ہے۔‘‘
 پھر ڈاکٹر سید عبد اﷲ نے اِس’ نئی تہذیب‘یافطری(ونیچری)تہذیب کے دور رس اثرات کا جائزہ پیش کرتے ہوئے لکھا ہے کہ: 
’’سر سید نے اپنے تصورات میں نیچر کو جو اہمیت دی ہے،اُس کا اثر انجمن پنجاب کی نیچر پرستی سے زیادہ دیر پا اور مستقل ہے۔‘‘..... تہذیب الاخلاق کے ذریعہ انہوں نے’ مضمون‘(’’ادب کی ایک ’’صنف جسے انگریزی میں Essayکہا جا تا ہے۔‘‘) لکھنے کی وہ روش عام کی جو اُن کے بعد ترقی پا کر لطیف،عمدہ،فرحت بخش اور خوشگوار ادبی مضمونوں کی صورت میں متشکل ہو ئی(جس میں مذہبی پابندیوں سے آزادی اور افادی و اجتماعی پیغام روح کی طرح قائم و دائم تھا۔اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے۔ف) ....سر سید نے تہذیب الاخلاق کو(مغربی ادیبوں۔ف)  اسٹیلؔ اور ایڈیسن ؔ کے مشہور رسائل اسپیکٹیٹر اور ٹیٹسلر کے نمونے پر ڈھالنا چاہا تھا(لیکن لطف یہ کہ سر سید ان دونوں سے چار قدم آگے نکل گئے۔ف)چناں چہ....جہاں انگریز انشا پردازوں نے مذہبی مناقشات اور فرقہ اور جماعت کی بحثوں سے اِجتناب کیا ہے،وہاں سر سید کا مضمونِ خاص یہی  ہے،اِس کا اُنہیں خود بھی احساس تھا۔‘‘دین بے زاری کی یہ وہ بنیاد تھی جو سر سید نے قائم کردی،جس کے سہارے آگے چل کراردو کا اولین اور غالباً عظیم ترین مضمون نگار سجاد حیدر یلدرم علی گڑھ کی ہی خاک سے پیدا ہوا۔’’اب وہ وقت آگیا تھا جب علی گڑھ کے قلم کاروں کے سامنے صرف سر سید کے نمونے ہی نہ تھے؛بلکہ مغربی خصوصاً انگریزی  Essay کے بڑے بڑے نادر شاہ کار ،نظر افروز اور دل فریب ثابت ہو رہے تھے۔ سجاد حیدر یلدرم نہ صرف انگریزی ادب سے بہرہ ور تھے؛اِنہیںترکی ادب سے بھی واقفیت اور دلچسپی تھی۔بعد کی مقالہ 

x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 فہرست مضامین 3 1
3 باب-۱=ام المدارس دار العلوم دیوبند کے موسسین کا امتیازی وصف اور اُن کے مقاصد عالیہ 7 1
4 باب-۲=نیچریت (Naturalism) 10 1
5 باب-۳=فکر دیو بند،تحریک علی گڑھ اورتشکیلِ ندوہ 18 1
6 باب-۴=نصابِ تعلیم 28 1
7 باب۵=معقولات کے داخلِ درس ہونے پر اعتراضات 38 1
8 باب ۶=چند دیگرمفکرین 54 1
9 باب۷=نصاب تعلیم کے حوالہ سے بعض درد مندوں کے اِضطرابات 58 1
12 باب-۸=دیوبند میں حضرت نا نوتویؒ کے رائج کردہ نصا بِ تعلیم پر ایک نظر(اشارات) 61 1
13 باب۹=معقولات اور فلسفہ کی ضرورت:افکار جدیدہ کے تناظر میں 65 1
14 باب۱۰=معقولات اور فلسفہ کی ضرورت(اشارات) از. الامام محمد قاسم نا نوتویؒ 70 1
15 باب ۱۱=معقولات اور فلسفہ کی تعلیم اورزمانۂ حال کے اربابِ درس کا اضطراب 75 1
16 باب ۱۲=عصر حاضر میں معقولات و فلسفہ کی شدید ضرورت 78 1
17 باب ۱۳=اصولِ قاسم اور اہلِ مدارس کے تحفظات 79 1
18 باب ۱۴=درسی کتابوں کا طریقۂ تدریس از۔ حکیم الامت مولا نا اشرف علی تھانوی 80 1
19 باب ۱۵=معقولات و فلسفہ کا اِطلاقی پہلو 83 1
20 باب -۱۶= اہل علم کی خدمت میں 88 1
21 باب ۱۷=علوم جدیدہ کا پیدا کردہ مسئلۂ خیر و شر 91 1
25 الف =نیچریت کا پس منظر 10 4
27 ’’انسانیت(Humanism)‘‘ کی حقیقت 10 4
28 ۲-ب= نیچریت کا مفہوم و مصداق اور متعدد شکلیں 12 4
29 حقیقت پسندی (Realism) 13 4
31 افادیت پسندی(Utility) 13 4
32 ندوہ کا منشور 19 5
34 التباساتِ فہد 20 5
35 (۱)مصلحین امت کی تعیین میں خلط 20 5
36 (۲)فاسد اصولوں کے انتساب میں تلبیس 20 5
37 (۳)اعتقادی اجزاء میں خلط و تلبیس 20 5
38 (۴)شعور سر سید کی وضاحت میں تلبیس 21 5
39 (۵)شعورقاسم کے تعارف میں خیانت 22 5
40 استدراک 22 5
41 ناظمِ دینیات کے فرائض مقرر کردہ سرسید احمد خاں 22 5
42 سرسید کی رواداری کا اصل منشا 22 5
43 مدرسۃ العلوم میں دینیات کی تعلیم اور مولانا محمد قاسم نانوتویؒ 23 5
44 مدرسۃ العلوم کی بنیاد اورحضرت مو لانا رشید احمد گنگو ہی،حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی کو شرکت کی دعوت 24 5
45 سر سید کے قاصد اور حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اﷲ علیہ کی گفتگو 25 5
46 قاصد کا حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اﷲ علیہ کو مشورہ اور حضرتؒ کا جواب 25 5
47 یہ جواب کوئی عارف ہی دے سکتا تھا 25 5
48 دو شعور= شعور قاسم اورشعور سر سید 25 5
49 ۴ -جزئ اول=ادب،تاریخ ، اور مغربی عقلیت 29 6
50 ۴ -الف=ادب 29 6
51 ۴-ج=مغربی عقلیت 33 6
52 ۴-جزئِ دوم =تاریخ، ادب و عقلیت میں مغربی اصولوں کی تقلید کرنے والے چند اہم مفکرین 34 6
53 (۱) خواجہ الطاف حسین حالی 34 6
54 (۲)شمس العلماء شبلی نعمانی 35 6
55 (۳)محقق عبد الماجد دریابادی 35 6
57 (۱)سر سید(۲)علامہ شبلی 38 7
58 (۳)نصابِ تعلیم اورعلامہ سید سلیمان ندویؒ 39 7
59 (۴)نصابِ تعلیم اور جناب ابو الکلام آزاد 39 7
60 (۵)جناب سید سلمان حسینی ندوی او ر نصاب تعلیم 40 7
61 اضطرابات سلمان حسینی بشکلِ التباسِ فکری 42 7
73 مدیر ’’ الشریعۃ‘‘ 54 8
74 (۲)منتسبینِ قاسم 54 8
75 (۱)مولانا عبد العلی فاروقی لکھنوی زید مجدہ ۔ مدیر البدر 58 9
76 (۲)جناب ندیم الواجدی صاحب -مدیر ترجمانِ دیو بند 59 9
77 دیوبند میں ’’مروجہ نصابِ تعلیم‘‘ کی تجویز اور اس کی حکمت: 62 12
78 نصابِ درس کی خوبیاں 63 12
79 نصابِ درس کے وہ اہم امور جن پر سب سے زیادہ غم و غصہ ہے 64 12
80 جدید فلاسفی کی شاخیں اور جدید فلاسفرز 66 13
81 تحلیلی فلاسفی( Analytic philosophy) اور معروضی فلاسفی (Objectivism) 67 13
82 معروضی مطالعہ کی ترجیح-ایک لمحۂ فکریہ 68 13
83 این المفر =منطق سے فرارممکن نہیں 68 13
84 کیا منطق اور فلسفہ سے شغف رکھنے والے علوم نقلیہ سے بے زار ہو جاتے ہیں؟ 72 14
85 کیا اکابر سے منطق اور معقولات کی مذمت منقول ہے؟ 72 14
86 فلسفہ اور معقولات میں ا کابر وسلف کی مہارت 73 14
87 اضطراب اعجازی کی توجیہ 75 15
88 قول صائب : مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ ا ﷲ کی آپ بیتی 76 15
89 (الامام محمد قاسم النانوتوی اور حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کے کلام کی روشنی میں) 78 16
90 (جامع معقول و منقول مولانا ریاست علی ظفر بجنوری مد ظلہ کی تنبیات کی روشنی میں ) 79 17
91 حلِّ مطالب پر اِکتفا کرنا چا ہیے،غیر ضروری تقریر مناسب نہیں 81 18
92 استاذ کے لیے بات کی پَچ مناسب نہیں 81 18
93 مولانا یعقوب صاحب رحمۃ ا ﷲ علیہ کے درس کی خصوصیت 81 18
94 حکیم الامت حضرت تھانوی رحمۃ ا ﷲ علیہ کے درس کی خصوصیت 81 18
95 محققین اکابررحمۃ ا ﷲ علیہم کے درس کی خصوصیت 82 18
96 استاذ کے لیے قابلِ لحاظ امر 82 18
97 اِستعداد کس طرح پیدا ہوتی ہے؟ 82 18
98 اِستعداد کے موانع 82 18
99 زبان کھل جائے،بولنے کا عادی ہو جائے،اِس کا انتظام 82 18
100 درسیات میں معقولا ت کی ضرورت:مثال(۱) 83 19
101 درسیات میں معقولا ت کی ضرورت:مثال(۲) 83 19
102 درسیات میں معقولا ت کی ضرورت:مثال(۳) 84 19
103 منطق کے بغیر آدمی درسیات پڑھا نہیں سکتا (حضرۃالاستاذعارف با ا ﷲ مولانا صدیق احمد صاحب رحمہ ا ﷲ ) 84 19
104 آپ بیتی: از مولف -فخر الاسلام 84 19
105 علومِ عالیہ کے لیے علومِ آلیہ کی ضرورت ہے 85 19
106 دور جدید میں جن حضرات سے دین کو نفع ہوا،وہ معقول ہی کی بدولت ہوا 85 19
107 مدارس کو اصول صحیحہ سے سروکار ہے ،محض جدید کا رعب کافی نہیں 86 19
108 نصابِ قدیم وجدید کی آویزش کا نتیجہ 87 19
109 خرابی کااصل سبب بزرگوں کے طریق سے بے نیازی 87 19
110 ۱۶-الف=گفتگوکا سرسری جا ئزہ (تلخیص) 88 20
111 ۱۶-ب=مشورے ، گزارشیں اور تجویزیں 89 20
112 (۱)اسلام پر پڑنے والے شبہات کے ازالہ کے لیے تجویز 89 20
113 (۲)چند مسئلوں کو جانچنے کی تجویز 90 20
114 ۱۷-الف= عقلی استدلال 91 21
115 ۱۷-ب=خیر و شر،بھلائی-برائی کا اصول اہلِ مغرب کی نظر میں 91 21
116 ۱۷-ج=خیر و شر،بھلائی-برائی کا معیار از الامام محمد قاسم النانوتویؒ 92 21
117 خیر و شر کا محسوساتی معیار: 92 21
118 خیر و شر کا عقلی معیار 92 21
119 اصول:۱=’’عقل موجدِ معلومات نہیں مخبر معلومات ہے‘‘ 93 21
120 باریک فرق معلوم کرنے کا مسئلہ،اور عقل کے التباسات 93 21
121 اصول:۲=جو چیز مطلوبِ اہم اور اور مقصودِ اعظم ہو تی ہے،اُسی پر بھلائی،برا ئی کا اِنحصار ہو تا ہے 94 21
122 نیک و بد،بھلا،برا ،خیر و شرکے ا طلاقات 94 21
123 جس بات پر انسان کی بھلائی برائی موقوف ہے،اُس کے دریافت کرنے کا طریقہ: 94 21
124 اصول:۳=انسان کا مقصودِ اہم اور مطلبِ اعظم نفع کے کام کر نا اور نقصان کے کا موں سے بچنا ہے 94 21
125 انسان کے اجزاء ترکیبیہ 95 21
126 نتیجۂ بحث:بعضے کام بھلے اور بعضے برے یقیناً ہیں 95 21
127 اصول:۴=عقل اور قوتِ عمل میں رابطہ حاکم اور محکوم کا ہے ۔قوتِ عمل عقل کے لئے وہی درجہ رکھتی ہے جو قلم کاتب کے لئے 95 21
128 اصول:۵=جو چیز کسی کے حق میں خدا نے اول سے نافع پیدا کی ہے،وہ اُس کی رغبتِ طبع ہو تی 96 21
129 رغبت کی مثال 97 21
130 نفر ت کی مثال 97 21
131 اصولِ فطرت کی حقیقت اور عقلِ سلیم 97 21
132 کامل العقل کی اہمیت اور ضرورت 97 21
133 اصول:۶= کامل طبیبِ روحانی کے نسخہ میں کمی بیشی جائز نہیں 98 21
134 اِس بات کو یاد رکھنا چا ہیے کہ بہت کارآمد ہے 98 21
135 اصول:۷= کوئی طبیبِ روحانی اگر ایسی بات بتلائے کہ اُس کا ہو نا بہت سے 98 21
136 اصول:۸=بھلائی برا ئی ہر شی کی ازلی ہے۔اصول:۹=عقل و روح کے لیے مضر و نافع اعمال کا نام ہی بھلا ئی برا ئی ہے 98 21
137 اصول:۸=بھلائی برا ئی ہر شی کی ازلی ہے۔ 98 21
138 ۹=عقل و روح کے لیے مضر و نافع اعمال کا نام ہی بھلا ئی برا ئی ہے 98 21
139 اصول:۱۰=دینِ حق کے کر نے نہ کرنے کی باتیں وہی ہیںجن سے عقلِ صاف او رروح پا ک کو رغبت یا نفرت ہو 98 21
140 اصول:۱۱= دینِ حق مرغو بِ طبع ہو تا ہے 99 21
141 اصول:۱۲=روح کو بدن پر ہر بات میں قیاس نہیںکیا جا سکتا 100 21
142 اصول:۱۳= طبیعت کی رغبت کا اثر تب ہی ظا ہر ہو گا جب کہ مانع نہ ہو 100 21
143 دینِ حق جب مرغوبِ طبیعت ٹھہرا،تو طبیعت کے موافق عمل درآمد کرنا چا ہیے؟ 101 21
144 امراضِ روحانی کو مرض نہ سمجھنے کی مثالیں 101 21
145 مثال(۱)معاشرتی امراض(Social diseases) 102 21
146 مثال(۲):نسلوں اور قوموں کے امراض 102 21
148 مثال(۳)امراض پیشہ(Occupation) 102 21
149 مثال(۴)امراضِ عادات(Habbitual diseases) 102 21
150 مثال(۵)موروثی(Heriditary) 102 21
151 تبدیلیٔ زمانہ سے احوال و احکام میں تبدیلی 102 21
152 اصول:۱۴=ہر عمل کسی نہ کسی مرتبے کا حسن و قبح رکھتا ہے 103 21
153 اختتامی التماس 104 21
Flag Counter