سر سید(کے اثر سے اُن) کے رفقاء نے تاریخ اور سونح نگاری میں بڑی دلچسپی لی۔‘‘لیکن آثار الصنادید جیسی تصنیفات کے بعد جب سر سید کی زندگی میں’’جدید سیاسی دینیت‘‘ کا رنگ کچھ زیادہ گہرا ہوا،تو اُن کی تاریخ بھی’’افادیت ‘‘کے تابع ہو گئی۔انہوں نے تاریخ کو’’ اجتماعیات‘‘کی روشنی میں سمجھنے اور پیش کرنے کی اہمیت پرزور دیا۔واقعاتِ تاریخی کے اسباب کی دریافت یعنی جدید مغربی تصور کے تحت عمرانی عوامل کی تلاش ضروری قرار پائی۔
’’شبلی نے سیرۃ النبی کے مقدمہ میں اِس بات پر خاص زور دیا ہے کہ تاریخ میں کوئی بات اصولِ مسلمہ(یعنی مغرب کے وضع کردہ اصولِ مسلمہ
۔ف)اور عقل(جس کادائرہ کار مغرب کااصول فطرت ہے۔ف)اور مشاہدہ کے خلاف نہ ہو۔اور یہ وہ اصول ہیں جس کی جڑیں سر سید کی
تحریروں سے ابھر کر باہر پھیلی ہیں۔‘‘(علی گڑھ میگزین نمبر ۱۹۵۳-۱۹۵۵ء ص۶۶)
’’شبلی کے بعد اگر کوئی شخص مورخانہ حیثیت کا مالک ہے،تو وہ مولوی ذکاء اﷲ ہیں... ذکاء اﷲ نے تاریخ کے لیے عقل و نیچر کے قوانین کا اسی
طرح اعتراف کیا ہے جس طرح دیگر رفقائے سر سید نے کیا ہے۔‘‘(علی گڑھ میگزین نمبر ۱۹۵۳-۱۹۵۵ء ص۶۷))
پرانی شاعری کی بڑی خرابی سر سید کے نزدیک یہ تھی کہ:
’’ اس میں فطری جذبات کی کمی تھی۔‘‘نیز’’اس سے تعجب تو پیدا ہوتا ہے،اثر نہیں۔‘‘
اور ملٹن ؔ اور شیکسپیئر وغیرہ ڈرامہ نگاروں کے بارے میں سرسید کی یہ پختہ رائے ہے کہ:
ملٹن ؔکی پیراڈ ائزلاسٹ کچھ چیز نہیں بجز اِ س کے کہ انسان کی حالت کی تصویر ہے جس کا ہر ہر شعر دل میں گھر کر جا تا ہے۔شیکسپیئر میں کچھ چیز نہیں ہے
بجز اِ س کے کہ اُس نے انسان کا نیچریعنی قدرتی بناوٹ طبیعت کو بیان کیا ہے جو نہایت موثر انسان کی طبیعت پر ہے۔‘‘(علی گڑھ میگزین نمبر ۱۹۵۳-۱۹۵۵ء ص۷۲)
ڈاکٹر سید عبد اﷲ مزید لکھتے ہیں:
’’ شاعری کا اِجتماع کے لیے مفید ہو نا،اور اُس کی افادی ....صلاحیت،یہ سب امور سر سید کے ارشادات کی صدائے باز گشت ہیں۔ شبلی کی
تنقیدی صلاحیت میں بظاہر مجددانہ اور مجتہدانہ رنگ نظر آتا ہے،مگر غور کرنے سے یہ معلوم ہو گا کہ اُن کی تصریحات میں بھی روحِ سرسید ہی جلوہ
گر ہے۔‘‘وجہ اس کی یہ ہے کہ ’’سر سید کے خیالات ایک بڑی تحریک کا حصہ تھے،اس لیے وہ تحریک کی طرح ہر طرف چھا گئے۔اِن خیالات کے
زیرِ اثر شاعری میں سب سے بڑا اور نمایاں نمونہ حالی نے قائم کیا جن کی شاعری خصوصاً مسدس گو یا تہذیب الاخلاق کی منظوم شرح ہے، اور حالی
کو اِس کا اقرار بھی ہے۔یہ شاعری ہی نہیں ایک تہذیب کی داستان اور ایک نئی تہذیب (اہلِ مغرب کی برپا کردہ فطری تہذیب۔)کی دعوت بھی ہے۔‘‘
پھر ڈاکٹر سید عبد اﷲ نے اِس’ نئی تہذیب‘یافطری(ونیچری)تہذیب کے دور رس اثرات کا جائزہ پیش کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:
’’سر سید نے اپنے تصورات میں نیچر کو جو اہمیت دی ہے،اُس کا اثر انجمن پنجاب کی نیچر پرستی سے زیادہ دیر پا اور مستقل ہے۔‘‘..... تہذیب الاخلاق کے ذریعہ انہوں نے’ مضمون‘(’’ادب کی ایک ’’صنف جسے انگریزی میں Essayکہا جا تا ہے۔‘‘) لکھنے کی وہ روش عام کی جو اُن کے بعد ترقی پا کر لطیف،عمدہ،فرحت بخش اور خوشگوار ادبی مضمونوں کی صورت میں متشکل ہو ئی(جس میں مذہبی پابندیوں سے آزادی اور افادی و اجتماعی پیغام روح کی طرح قائم و دائم تھا۔اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے۔ف) ....سر سید نے تہذیب الاخلاق کو(مغربی ادیبوں۔ف) اسٹیلؔ اور ایڈیسن ؔ کے مشہور رسائل اسپیکٹیٹر اور ٹیٹسلر کے نمونے پر ڈھالنا چاہا تھا(لیکن لطف یہ کہ سر سید ان دونوں سے چار قدم آگے نکل گئے۔ف)چناں چہ....جہاں انگریز انشا پردازوں نے مذہبی مناقشات اور فرقہ اور جماعت کی بحثوں سے اِجتناب کیا ہے،وہاں سر سید کا مضمونِ خاص یہی ہے،اِس کا اُنہیں خود بھی احساس تھا۔‘‘دین بے زاری کی یہ وہ بنیاد تھی جو سر سید نے قائم کردی،جس کے سہارے آگے چل کراردو کا اولین اور غالباً عظیم ترین مضمون نگار سجاد حیدر یلدرم علی گڑھ کی ہی خاک سے پیدا ہوا۔’’اب وہ وقت آگیا تھا جب علی گڑھ کے قلم کاروں کے سامنے صرف سر سید کے نمونے ہی نہ تھے؛بلکہ مغربی خصوصاً انگریزی Essay کے بڑے بڑے نادر شاہ کار ،نظر افروز اور دل فریب ثابت ہو رہے تھے۔ سجاد حیدر یلدرم نہ صرف انگریزی ادب سے بہرہ ور تھے؛اِنہیںترکی ادب سے بھی واقفیت اور دلچسپی تھی۔بعد کی مقالہ