اُس زمانے کے مشرق و مغرب کی اکثر و بیشتر ذہنی آویزشوں اور کشمکشوں کی طویل سر گزشتیں پوشیدہ ہیں۔اِنہی چند الفاظ میں انیسویں اور
بیسویں(بلکہ اب اکیسویں۔ف)صدی کے ہندوستان کی سماجی اور ادبی تاریخ کے بڑے بڑے عقیدوں اور بڑے نعروں کی گونج سنائی دیتی
ہے۔سر سید نے اردو ادب کو جو ذہن دیا،اُس کے عناصرِ ترکیبی کی اگر فہرست تیار کی جا ئے،تو اُس کے بڑے بڑے عنوان ہوں گے:مادیت،
عقلیت،اجتماعیت اور حقائق نگاری۔سر سید کے مجموعی فکر و ادب کی عمارت انہی بنیادوں پر قائم ہے۔اور شاید یہی وہ نمایاں اور اہم رجحانات
ہیں جو اردو ادبیات میں سر سید کا فیضِ خاص سمجھے جا سکتے ہیں۔اِن رجحانات سے اردو کا سار ادب اُن کے زمانے میں متاثر ہوا،اور ایک معمولی
سے ردعمل سے قطعِ نظر آج کا مجموعی عمل اور فکری رجحان بھی اُسی سلسلۂ فکر و عمل کی ارتقائی شکل ہے۔ ‘‘(علی گڑھ میگزین نمبر ۱۹۵۳-۱۹۵۵ء ص۵۵ )
ڈاکٹر سید عبد اﷲ نے جس ردعمل کو’’ معمولی سا ردعمل‘‘ کہا ہے وہ غالباً حضرت نانوتوی،حضرت تھانوی وغیرہما یعنی مکتبِ دیوبند کا رد عمل ہے۔
’’سر سید کے پیدا کردہ ادبی سرمائے میں مندرجہ بالا فکر(’’مادیت،عقلیت،اجتماعیت اور حقائق نگاری‘‘۔ف)تقریباً ہر جگہ موجود ہے۔...
سر سید کی دینی تصانیف اور مضامین میں یہ خیال بار بار دہرایا گیا ہے کہ حقیقت تک پہنچنے اور سچائی حاصل کرنے کا واحد طریقہ تحقیق ہے،نہ کہ نقلید۔.....آگے چل کر اِسی رجحان سے وہ انقلابی خیالات پیدا ہوئے جن پر نئے دور کی ساری بغاوت قائم ہے۔‘‘(۱)
سر سید نے اپنے اِنہی اصولوں پر جو ابھی ذکر کیے گئے ’’اجتماع (آگسٹ کامٹے کے دیے ہوئے تصورِسماجsocialism)کے درمیان رشتہ قائم کیا،
اور ادیبانہ ذہن و فکر کی کاوشوں کو جمہور کی خدمت میں لگایا۔‘‘
انہوں نے مغرب سے برآمد کردہ اپنے انہی اصولوں سے یہ بتا یا کہ ادب سے اجتماع کے مقاصد حاصل ہو نے چاہئیں۔جس ادب سے اِجتماع کے فوائد یعنی افادی اور معروضی نتائج حاصل نہ ہوں،وہ محض فضول ہے۔(۲)
قوم کی دنیوی ترقی’’ سر سید کی تحریک کا اصولِ اولیں تھا جس کے تحت اُس زمانہ کا(سر سید کا جاری کردہ) ’سادا ادب،مقصدی اور منفعتی بن کراجتماعی
مقاصد کا آلۂ کار بنا رہا۔‘‘اور سرسید کے اثر سے اُن کے متبعین میں بھی یہی رنگ چڑھا۔’’حالی کی اولین سوانح عمریاں سا دہ اور ادبی سوانح عمریاں
ہیں،مگر اِن دونوں میں بھی قومی خدمت کا جذبہ پیش پیش ہے۔اِن میں انہوں نے قوم کے لیے خوش طبعی،ظرافت او زندہ دلی کے لیے عمدہ نمونے تیار
کیے ہیں،مگر بایں طور کہ اس سے اجتماعی اخلاق کی اصلاح ہو۔....شررؔ نے محض دل چسپ(گو قابلِ توجہ)شخصیتوں کی ہمہ رنگ سیرتوں کے صرف
چند پہلؤں کے خاکے پیش کیے ہیں۔مگر اِس غرض سے کہ قوم کو اِن بزرگوں سے بہت کچھ سیکھنا ہے۔غرض قومی ترقی اور اصلاح اِن سب کے پیش نظر
رہی۔اور یہی وہ نصب العین تھا جو سر سید کا دیا ہوا تھا،‘‘ اور یہی وہ نصب العین تھاجس ’’کے سبب اردو سوانح نگاری ادب کی دوسری شاخوں کی طرح قوم
اور اِجتماع کی خادم بنی رہی۔‘‘(علی گڑھ میگزین نمبر ۱۹۵۳-۱۹۵۵ء ص۶۹)
پہلے ذکر کیا جا چکا ہے کہ’’ علماء نے انگریزوں کے فلسفہ اور ادب اختیار کرنے سے انکار کر دیا تھا؛’’لیکن سر سید نے زیادہ زور فلسفہ اور ادب پر دیا۔‘‘علماء اور سر سید کے اِس اختلاف کے بڑے دور رس اثرات مرتب ہو ئے۔ لازم ہے کہ مغرب کے اُن حالات کا مختصر تذکرہ کر دیا جائے جہاں سے سر سید نے اپنے خیالات اخذ کیے تھے۔
ہم بتا چکے ہیں کہ مغرب میں ۱۸ ویں صدی میں فروغ پانے والے افکار ہی ۱۹ ویں صدی میں ہندوستان میں جاری ہو ئے ہیں۔ اصل میں اٹھارہویں صدی کی روش یہ تھی کہ اس زمانے میں مذہبی خیالات کے بدلے لوگوں کا رجحان سائنسی خیالات کی طرف ہو گیا تھا ،اور اب انسان کو گناہ کے خیال سے اِس دنیا میں پشیمان رہنے کی ضرورت نہ تھی؛بلکہ ہر وقت پر امید رہنا،خوشی اور خوش حالی کی تلاش میں ،کوئی نہ کوئی منصوبہ اور ہمہ وقت کوئی نہ کوئی دنیاوی لگن ہو نا ضروری تھی ۔اِس انقلابی ریفارمیشن کے لیے مغربی مفکروں نے مضامین کے ڈھیر لگا دیے،کتابیں تصنیف کیں،اور جریدے نکالے۔ہندوستان میں،اُنہی مغربی اہلِ قلم کی نقل اختیار کی گئی۔ مورخ شبلی لکھتے ہیں:
سر سید کا لکھا ہوا’’امید کی خوشی کا مضمون(۳)ایک انگریزی مضمون سے ماخوذ ہے،انگریزی میں ایڈیسن اور اسنیل بڑے مضمون نگار گزرے ہیں،سر