subjects)مثلاً تاریخ،جغرافیہ،فنون لطیفہ آرٹ،’’ہماری تہذیب اور علم تمدن‘‘ ،عمرانیات،سماجی علوم،ادب وغیرہ کی اِس کے نزدیک ذرا وقعت نہیں۔وجہ اِس کی یہ ہے کہ یہ حیوانیات کا آدمی ہے اور ڈارون کا شاگرد ہے۔ڈارونی ارتقاء کو مقبول تعبیر میں بقائے اصلح کے عنوان سے شہرت دلانے میں،اِس کا اہم رول ہے؛اس لیے وہ اُن چیزوں سے بھی دور رہنا چا ہتا ہے ،جو ذہنی سکون کے لیے خیالی طور پر برتی جا ئیں۔ہر چیز کو وہ مادہ،حرکت،توانائی،بروتوپلا سما (Protoplasm) تباین الافراد،تنازع للبقااور انتخاب طبعی کے تناظر میں بقائے اصلح کے ہدف کے طور پر دیکھتا ہے۔جان فریڈرچ ہربرٹ(۱۷۷۶تا۱۸۴۱ء)فن تعلیم کا ماہر ہے پوسٹ کانٹین فلاسفر کے طور پر جا نا جا تا ہے ۔اس فلسفی سا ئنسداں کوادارہ کا نظم قائم کرنے کے لیے تعلیم میں سائیکالوجی کی اہمیت بتانے کے حوالہ سے’’ معلمیت کا بانی ‘‘سمجھا جا تا ہے۔یہ شخص سائیکالوجی کی تعلیم کو بڑی اہمیت دیتا ہے۔اسی طرح ایک اور جدید فلاافر اورماہر نفسی جان ڈیولی(۱۸۵۹تا۱۹۵۲ء)جس کے خیالات سماجی اصلا حات اور تعلیم کے باب میںدور حاضر میں بڑی اہمیت کے حامل ہیں،علم النفس کو بڑی وقعت سے دیکھتا ہے۔
۲-د=دینی مدارس اور خیالاتِ فطرت( نیچریت )
نیچریت کی مذکورہ تمام تفصیل جاننے کے بعد،دینی مدارس کی ضرورت اور خاص طور پر دیوبند کے مقصد تاسیس کو پیش نظر رکھ کراگرغور کیا جا ئے،تو صاف محسوس ہوتا ہے،کہ اس کے بانیوں نے نصابِ تعلیم کے حوالہ سے جو کچھ اس کے لیے طے کیا،وہ کوئی وقتی فیصلہ یا اِضطرار کی حالت میں کیا گیا اقدام نہ تھا؛بلکہ خدائے تعالی کی خاص توفیق اور خاص اِعانت سے ایسی تجویزرو بہ عمل لا ئی گئی تھی جو آنے والے وقتوں میں بھی کفایت کر سکے۔یہی وجہ تھی کہ جاری کیے جانے والے طرز، اصول اور فکر سے متعلق اُس وقت ہی محسوس کر لیا گیا تھا کہ اِس سے انحراف ،گویا نیچریت کو دعوت دینا اور گلے لگا ناہے ؛اس لیے بعد والوں کے لیے اب یہ ضروری ہوگیا کہ انہی کے طرز اور انہی کے اصولوں پر مضبوطی سے جمے رہیں۔اِس تناظر میں ،اگر مغربی ا فکار کو جن کا ذکر کیا گیا،دینیات میں وقعت دی جائے،یا اُن افکار سے متاثر مسلمان مفکروں کی رائے کومدارس کے نصاب میں شامل کیا جا ئے،یا مذہب کی تشریح کی ضرورت سے مذکورہ مغربی فنون کی دخل اندازی گوارا کی جائے ،تو اول تو نیچریت اور مذہبیت میں کلی منافات ہے،دونوں ایک ساتھ جمع نہیں ہو سکتے۔لیکن اگر کھینچ تان کر مذہب کے ساتھ نباہنے کی کوشش کی گئی ،تو یہ حقیقت ہے کہ مذہب ،خالص نہیں رہ سکتا۔یہ وہ راز ہے جس کے سبب الامام محمد قاسم نا نوتویؒ اورحکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کے ہاں نیچریت( یافطرت) اور سائنس کی طرف التفات نہیں کیا گیا؛بلکہ اِن کی حقیقت اور حدود ذکر کر کے غلو سے اجتناب کی ہدایت کی گئی۔ اوراس حوالہ سے جب کبھی کچھ اثرات اہل علم میں یا مدارس میں سرایت کرنے کا اندشہ ہوا،یا قلتِ التفات کے نتیجہ میں کچھ اثرات سرایت کر گئے،تواُن پر برہمی کا اِظہار فرمایا گیا۔کبھی نیچریت کا نام لے کر،کبھی بغیر نام لیے اُس کی حقیقت ظاہر کر دی گئی۔اور یہ بات صرف حکیم الامت حضرت تھانویؒ کے یہاں نہیں؛بلکہ حضرت نا نوتویؒ کے یہاں بھی بڑی قوت و شدت کے ساتھ ہے۔ نیچریت کی حقیقت ،اوراُس کے دور رس مضر اثرات بطور خاص ہمارے اِنہی دو بزرگوں پر منکشف ہوئے اور انہوں نے اسے بیان کیا۔اِس حوالہ سے حضرت تھانویؒ نے اسلام کے دفاعی نظام کو سنبھال کر مسلمانوں کے عقائد و اعمال کی حفاظت کی۔حضرت نانوتویؒ نے غیروں کے مذہبی حملوں سے اسلام کے عقائد کی حفاظت کی،اور فروع ضروریہ کے متعلق پیدا ہونے والے خلجانات کا جواب دیا۔بایں لحاظ، آپ کا کام دو حیثیت سے ممتاز ہے۔ایک یہ کہ آپ کے مخاطب صرف مسلمان نہیں ہیں؛بلکہ دنیا بھر میں علم،عقل اور فہم کو بروئے کار لانے والے انسان ہیں کہ اُن پر حجت تمام ہو جائے۔دوسرے یہ کہ آپ نے یہ محسوس کیا کہ قدیم سے چلے آرہے اصول جنہیں مسلَّم کہا جا تا ہے،اُن کا مسلم ہو نا ،واضح کر دیا جا ئے ۔ جو مسائل تنقیح طلب تھے،اُن کاتجزیہ کر کے عقل کے مسلم اصولوں سے براہین قائم کیے جائیں۔اور پیش آنے والے مغالطوں کا ازالہ کیا جا ئے،اسی طرح جونئے مسائل تھے ،نئے