Deobandi Books

الامام محمد قاسم النانوتوی کی فکر اور بدلتے حالات میں مدارس کی تر جیحات

15 - 104
 subjects)مثلاً تاریخ،جغرافیہ،فنون لطیفہ آرٹ،’’ہماری تہذیب اور علم تمدن‘‘ ،عمرانیات،سماجی علوم،ادب وغیرہ کی اِس کے نزدیک ذرا وقعت نہیں۔وجہ اِس کی یہ ہے کہ یہ حیوانیات کا آدمی ہے اور ڈارون کا شاگرد ہے۔ڈارونی ارتقاء کو مقبول تعبیر میں بقائے اصلح کے عنوان سے شہرت دلانے میں،اِس کا اہم رول ہے؛اس لیے وہ اُن چیزوں سے بھی دور رہنا چا ہتا ہے ،جو ذہنی سکون کے لیے خیالی طور پر برتی جا ئیں۔ہر چیز کو وہ مادہ،حرکت،توانائی،بروتوپلا سما (Protoplasm) تباین الافراد،تنازع للبقااور انتخاب طبعی کے تناظر میں بقائے اصلح کے ہدف کے طور پر دیکھتا ہے۔جان فریڈرچ ہربرٹ(۱۷۷۶تا۱۸۴۱ء؁)فن تعلیم کا ماہر ہے پوسٹ کانٹین فلاسفر کے طور پر جا نا جا تا ہے ۔اس فلسفی سا ئنسداں کوادارہ کا نظم قائم کرنے کے لیے تعلیم میں سائیکالوجی کی اہمیت بتانے کے حوالہ سے’’ معلمیت کا بانی ‘‘سمجھا جا تا ہے۔یہ شخص سائیکالوجی کی تعلیم کو بڑی اہمیت دیتا ہے۔اسی طرح ایک اور جدید فلاافر اورماہر نفسی جان ڈیولی(۱۸۵۹تا۱۹۵۲ء؁)جس کے خیالات سماجی اصلا حات اور تعلیم کے باب میںدور حاضر میں بڑی اہمیت کے حامل ہیں،علم النفس کو بڑی وقعت سے دیکھتا ہے۔
۲-د=دینی مدارس اور خیالاتِ فطرت( نیچریت )		
  نیچریت کی مذکورہ تمام تفصیل جاننے کے بعد،دینی مدارس کی ضرورت اور خاص طور پر دیوبند کے مقصد تاسیس کو پیش نظر رکھ کراگرغور کیا جا ئے،تو صاف محسوس ہوتا ہے،کہ اس کے بانیوں نے نصابِ تعلیم کے حوالہ سے جو کچھ اس کے لیے طے کیا،وہ کوئی وقتی فیصلہ یا اِضطرار کی حالت میں کیا گیا اقدام نہ تھا؛بلکہ خدائے تعالی کی خاص توفیق اور خاص اِعانت سے ایسی تجویزرو بہ عمل لا ئی گئی تھی جو آنے والے وقتوں میں بھی کفایت کر سکے۔یہی وجہ تھی کہ جاری کیے جانے والے طرز، اصول اور فکر سے متعلق اُس وقت ہی محسوس کر لیا گیا تھا کہ اِس سے انحراف ،گویا نیچریت کو دعوت دینا اور گلے لگا ناہے ؛اس لیے بعد والوں کے لیے اب یہ ضروری ہوگیا کہ انہی کے طرز اور انہی کے اصولوں پر مضبوطی سے جمے رہیں۔اِس تناظر میں ،اگر مغربی ا فکار کو جن کا ذکر کیا گیا،دینیات میں وقعت دی جائے،یا اُن افکار سے متاثر مسلمان مفکروں کی رائے کومدارس کے نصاب میں شامل کیا جا ئے،یا مذہب کی تشریح کی ضرورت سے مذکورہ مغربی فنون کی دخل اندازی گوارا کی جائے ،تو اول تو نیچریت اور مذہبیت میں کلی منافات ہے،دونوں ایک ساتھ جمع نہیں ہو سکتے۔لیکن اگر کھینچ تان کر مذہب کے ساتھ نباہنے کی کوشش کی گئی ،تو یہ حقیقت ہے کہ مذہب ،خالص نہیں رہ سکتا۔یہ وہ راز ہے جس کے سبب الامام محمد قاسم نا نوتویؒ اورحکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کے ہاں نیچریت( یافطرت) اور سائنس کی طرف التفات نہیں کیا گیا؛بلکہ اِن کی حقیقت اور حدود ذکر کر کے غلو سے اجتناب کی ہدایت کی گئی۔ اوراس حوالہ سے جب کبھی کچھ اثرات اہل علم میں یا مدارس میں سرایت کرنے کا اندشہ ہوا،یا قلتِ التفات کے نتیجہ میں کچھ اثرات سرایت کر گئے،تواُن پر برہمی کا اِظہار فرمایا گیا۔کبھی نیچریت کا نام لے کر،کبھی بغیر نام لیے اُس کی حقیقت ظاہر کر دی گئی۔اور یہ بات صرف حکیم الامت حضرت تھانویؒ کے یہاں نہیں؛بلکہ حضرت نا نوتویؒ کے یہاں بھی بڑی قوت و شدت کے ساتھ ہے۔ نیچریت کی حقیقت ،اوراُس کے دور رس مضر اثرات بطور خاص ہمارے اِنہی دو بزرگوں پر منکشف ہوئے اور انہوں نے اسے بیان کیا۔اِس حوالہ سے حضرت تھانویؒ نے اسلام کے دفاعی نظام کو سنبھال کر مسلمانوں کے عقائد و اعمال کی حفاظت کی۔حضرت نانوتویؒ نے غیروں کے مذہبی حملوں سے اسلام کے عقائد کی حفاظت کی،اور فروع ضروریہ کے متعلق پیدا ہونے والے خلجانات کا جواب دیا۔بایں لحاظ، آپ کا کام دو حیثیت سے ممتاز ہے۔ایک یہ کہ آپ کے مخاطب صرف مسلمان نہیں ہیں؛بلکہ دنیا بھر میں علم،عقل اور فہم کو بروئے کار لانے والے انسان ہیں کہ اُن پر حجت تمام ہو جائے۔دوسرے یہ کہ آپ نے یہ محسوس کیا کہ قدیم سے چلے آرہے اصول جنہیں مسلَّم کہا جا تا ہے،اُن کا مسلم ہو نا ،واضح کر دیا جا ئے ۔ جو مسائل تنقیح طلب تھے،اُن کاتجزیہ کر کے عقل کے مسلم اصولوں سے براہین قائم کیے جائیں۔اور پیش آنے والے مغالطوں کا ازالہ کیا جا ئے،اسی طرح جونئے مسائل تھے ،نئے 

x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 فہرست مضامین 3 1
3 باب-۱=ام المدارس دار العلوم دیوبند کے موسسین کا امتیازی وصف اور اُن کے مقاصد عالیہ 7 1
4 باب-۲=نیچریت (Naturalism) 10 1
5 باب-۳=فکر دیو بند،تحریک علی گڑھ اورتشکیلِ ندوہ 18 1
6 باب-۴=نصابِ تعلیم 28 1
7 باب۵=معقولات کے داخلِ درس ہونے پر اعتراضات 38 1
8 باب ۶=چند دیگرمفکرین 54 1
9 باب۷=نصاب تعلیم کے حوالہ سے بعض درد مندوں کے اِضطرابات 58 1
12 باب-۸=دیوبند میں حضرت نا نوتویؒ کے رائج کردہ نصا بِ تعلیم پر ایک نظر(اشارات) 61 1
13 باب۹=معقولات اور فلسفہ کی ضرورت:افکار جدیدہ کے تناظر میں 65 1
14 باب۱۰=معقولات اور فلسفہ کی ضرورت(اشارات) از. الامام محمد قاسم نا نوتویؒ 70 1
15 باب ۱۱=معقولات اور فلسفہ کی تعلیم اورزمانۂ حال کے اربابِ درس کا اضطراب 75 1
16 باب ۱۲=عصر حاضر میں معقولات و فلسفہ کی شدید ضرورت 78 1
17 باب ۱۳=اصولِ قاسم اور اہلِ مدارس کے تحفظات 79 1
18 باب ۱۴=درسی کتابوں کا طریقۂ تدریس از۔ حکیم الامت مولا نا اشرف علی تھانوی 80 1
19 باب ۱۵=معقولات و فلسفہ کا اِطلاقی پہلو 83 1
20 باب -۱۶= اہل علم کی خدمت میں 88 1
21 باب ۱۷=علوم جدیدہ کا پیدا کردہ مسئلۂ خیر و شر 91 1
25 الف =نیچریت کا پس منظر 10 4
27 ’’انسانیت(Humanism)‘‘ کی حقیقت 10 4
28 ۲-ب= نیچریت کا مفہوم و مصداق اور متعدد شکلیں 12 4
29 حقیقت پسندی (Realism) 13 4
31 افادیت پسندی(Utility) 13 4
32 ندوہ کا منشور 19 5
34 التباساتِ فہد 20 5
35 (۱)مصلحین امت کی تعیین میں خلط 20 5
36 (۲)فاسد اصولوں کے انتساب میں تلبیس 20 5
37 (۳)اعتقادی اجزاء میں خلط و تلبیس 20 5
38 (۴)شعور سر سید کی وضاحت میں تلبیس 21 5
39 (۵)شعورقاسم کے تعارف میں خیانت 22 5
40 استدراک 22 5
41 ناظمِ دینیات کے فرائض مقرر کردہ سرسید احمد خاں 22 5
42 سرسید کی رواداری کا اصل منشا 22 5
43 مدرسۃ العلوم میں دینیات کی تعلیم اور مولانا محمد قاسم نانوتویؒ 23 5
44 مدرسۃ العلوم کی بنیاد اورحضرت مو لانا رشید احمد گنگو ہی،حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی کو شرکت کی دعوت 24 5
45 سر سید کے قاصد اور حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اﷲ علیہ کی گفتگو 25 5
46 قاصد کا حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اﷲ علیہ کو مشورہ اور حضرتؒ کا جواب 25 5
47 یہ جواب کوئی عارف ہی دے سکتا تھا 25 5
48 دو شعور= شعور قاسم اورشعور سر سید 25 5
49 ۴ -جزئ اول=ادب،تاریخ ، اور مغربی عقلیت 29 6
50 ۴ -الف=ادب 29 6
51 ۴-ج=مغربی عقلیت 33 6
52 ۴-جزئِ دوم =تاریخ، ادب و عقلیت میں مغربی اصولوں کی تقلید کرنے والے چند اہم مفکرین 34 6
53 (۱) خواجہ الطاف حسین حالی 34 6
54 (۲)شمس العلماء شبلی نعمانی 35 6
55 (۳)محقق عبد الماجد دریابادی 35 6
57 (۱)سر سید(۲)علامہ شبلی 38 7
58 (۳)نصابِ تعلیم اورعلامہ سید سلیمان ندویؒ 39 7
59 (۴)نصابِ تعلیم اور جناب ابو الکلام آزاد 39 7
60 (۵)جناب سید سلمان حسینی ندوی او ر نصاب تعلیم 40 7
61 اضطرابات سلمان حسینی بشکلِ التباسِ فکری 42 7
73 مدیر ’’ الشریعۃ‘‘ 54 8
74 (۲)منتسبینِ قاسم 54 8
75 (۱)مولانا عبد العلی فاروقی لکھنوی زید مجدہ ۔ مدیر البدر 58 9
76 (۲)جناب ندیم الواجدی صاحب -مدیر ترجمانِ دیو بند 59 9
77 دیوبند میں ’’مروجہ نصابِ تعلیم‘‘ کی تجویز اور اس کی حکمت: 62 12
78 نصابِ درس کی خوبیاں 63 12
79 نصابِ درس کے وہ اہم امور جن پر سب سے زیادہ غم و غصہ ہے 64 12
80 جدید فلاسفی کی شاخیں اور جدید فلاسفرز 66 13
81 تحلیلی فلاسفی( Analytic philosophy) اور معروضی فلاسفی (Objectivism) 67 13
82 معروضی مطالعہ کی ترجیح-ایک لمحۂ فکریہ 68 13
83 این المفر =منطق سے فرارممکن نہیں 68 13
84 کیا منطق اور فلسفہ سے شغف رکھنے والے علوم نقلیہ سے بے زار ہو جاتے ہیں؟ 72 14
85 کیا اکابر سے منطق اور معقولات کی مذمت منقول ہے؟ 72 14
86 فلسفہ اور معقولات میں ا کابر وسلف کی مہارت 73 14
87 اضطراب اعجازی کی توجیہ 75 15
88 قول صائب : مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ ا ﷲ کی آپ بیتی 76 15
89 (الامام محمد قاسم النانوتوی اور حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کے کلام کی روشنی میں) 78 16
90 (جامع معقول و منقول مولانا ریاست علی ظفر بجنوری مد ظلہ کی تنبیات کی روشنی میں ) 79 17
91 حلِّ مطالب پر اِکتفا کرنا چا ہیے،غیر ضروری تقریر مناسب نہیں 81 18
92 استاذ کے لیے بات کی پَچ مناسب نہیں 81 18
93 مولانا یعقوب صاحب رحمۃ ا ﷲ علیہ کے درس کی خصوصیت 81 18
94 حکیم الامت حضرت تھانوی رحمۃ ا ﷲ علیہ کے درس کی خصوصیت 81 18
95 محققین اکابررحمۃ ا ﷲ علیہم کے درس کی خصوصیت 82 18
96 استاذ کے لیے قابلِ لحاظ امر 82 18
97 اِستعداد کس طرح پیدا ہوتی ہے؟ 82 18
98 اِستعداد کے موانع 82 18
99 زبان کھل جائے،بولنے کا عادی ہو جائے،اِس کا انتظام 82 18
100 درسیات میں معقولا ت کی ضرورت:مثال(۱) 83 19
101 درسیات میں معقولا ت کی ضرورت:مثال(۲) 83 19
102 درسیات میں معقولا ت کی ضرورت:مثال(۳) 84 19
103 منطق کے بغیر آدمی درسیات پڑھا نہیں سکتا (حضرۃالاستاذعارف با ا ﷲ مولانا صدیق احمد صاحب رحمہ ا ﷲ ) 84 19
104 آپ بیتی: از مولف -فخر الاسلام 84 19
105 علومِ عالیہ کے لیے علومِ آلیہ کی ضرورت ہے 85 19
106 دور جدید میں جن حضرات سے دین کو نفع ہوا،وہ معقول ہی کی بدولت ہوا 85 19
107 مدارس کو اصول صحیحہ سے سروکار ہے ،محض جدید کا رعب کافی نہیں 86 19
108 نصابِ قدیم وجدید کی آویزش کا نتیجہ 87 19
109 خرابی کااصل سبب بزرگوں کے طریق سے بے نیازی 87 19
110 ۱۶-الف=گفتگوکا سرسری جا ئزہ (تلخیص) 88 20
111 ۱۶-ب=مشورے ، گزارشیں اور تجویزیں 89 20
112 (۱)اسلام پر پڑنے والے شبہات کے ازالہ کے لیے تجویز 89 20
113 (۲)چند مسئلوں کو جانچنے کی تجویز 90 20
114 ۱۷-الف= عقلی استدلال 91 21
115 ۱۷-ب=خیر و شر،بھلائی-برائی کا اصول اہلِ مغرب کی نظر میں 91 21
116 ۱۷-ج=خیر و شر،بھلائی-برائی کا معیار از الامام محمد قاسم النانوتویؒ 92 21
117 خیر و شر کا محسوساتی معیار: 92 21
118 خیر و شر کا عقلی معیار 92 21
119 اصول:۱=’’عقل موجدِ معلومات نہیں مخبر معلومات ہے‘‘ 93 21
120 باریک فرق معلوم کرنے کا مسئلہ،اور عقل کے التباسات 93 21
121 اصول:۲=جو چیز مطلوبِ اہم اور اور مقصودِ اعظم ہو تی ہے،اُسی پر بھلائی،برا ئی کا اِنحصار ہو تا ہے 94 21
122 نیک و بد،بھلا،برا ،خیر و شرکے ا طلاقات 94 21
123 جس بات پر انسان کی بھلائی برائی موقوف ہے،اُس کے دریافت کرنے کا طریقہ: 94 21
124 اصول:۳=انسان کا مقصودِ اہم اور مطلبِ اعظم نفع کے کام کر نا اور نقصان کے کا موں سے بچنا ہے 94 21
125 انسان کے اجزاء ترکیبیہ 95 21
126 نتیجۂ بحث:بعضے کام بھلے اور بعضے برے یقیناً ہیں 95 21
127 اصول:۴=عقل اور قوتِ عمل میں رابطہ حاکم اور محکوم کا ہے ۔قوتِ عمل عقل کے لئے وہی درجہ رکھتی ہے جو قلم کاتب کے لئے 95 21
128 اصول:۵=جو چیز کسی کے حق میں خدا نے اول سے نافع پیدا کی ہے،وہ اُس کی رغبتِ طبع ہو تی 96 21
129 رغبت کی مثال 97 21
130 نفر ت کی مثال 97 21
131 اصولِ فطرت کی حقیقت اور عقلِ سلیم 97 21
132 کامل العقل کی اہمیت اور ضرورت 97 21
133 اصول:۶= کامل طبیبِ روحانی کے نسخہ میں کمی بیشی جائز نہیں 98 21
134 اِس بات کو یاد رکھنا چا ہیے کہ بہت کارآمد ہے 98 21
135 اصول:۷= کوئی طبیبِ روحانی اگر ایسی بات بتلائے کہ اُس کا ہو نا بہت سے 98 21
136 اصول:۸=بھلائی برا ئی ہر شی کی ازلی ہے۔اصول:۹=عقل و روح کے لیے مضر و نافع اعمال کا نام ہی بھلا ئی برا ئی ہے 98 21
137 اصول:۸=بھلائی برا ئی ہر شی کی ازلی ہے۔ 98 21
138 ۹=عقل و روح کے لیے مضر و نافع اعمال کا نام ہی بھلا ئی برا ئی ہے 98 21
139 اصول:۱۰=دینِ حق کے کر نے نہ کرنے کی باتیں وہی ہیںجن سے عقلِ صاف او رروح پا ک کو رغبت یا نفرت ہو 98 21
140 اصول:۱۱= دینِ حق مرغو بِ طبع ہو تا ہے 99 21
141 اصول:۱۲=روح کو بدن پر ہر بات میں قیاس نہیںکیا جا سکتا 100 21
142 اصول:۱۳= طبیعت کی رغبت کا اثر تب ہی ظا ہر ہو گا جب کہ مانع نہ ہو 100 21
143 دینِ حق جب مرغوبِ طبیعت ٹھہرا،تو طبیعت کے موافق عمل درآمد کرنا چا ہیے؟ 101 21
144 امراضِ روحانی کو مرض نہ سمجھنے کی مثالیں 101 21
145 مثال(۱)معاشرتی امراض(Social diseases) 102 21
146 مثال(۲):نسلوں اور قوموں کے امراض 102 21
148 مثال(۳)امراض پیشہ(Occupation) 102 21
149 مثال(۴)امراضِ عادات(Habbitual diseases) 102 21
150 مثال(۵)موروثی(Heriditary) 102 21
151 تبدیلیٔ زمانہ سے احوال و احکام میں تبدیلی 102 21
152 اصول:۱۴=ہر عمل کسی نہ کسی مرتبے کا حسن و قبح رکھتا ہے 103 21
153 اختتامی التماس 104 21
Flag Counter