حالات ا ور علوم کے پیدا کردہ تھے،جو نئے اصولوں اور نئے مسلمات پر مبنی تھے،اُن کے مسلم ہونے، مطلق (universal)ہونے پر کلام فرمایا جائے ،اُن کی حدود واضح کی جائیں، اُن کا ظنی ،یا فرضی ہونا دکھلا دیا جائے۔اِس مقصد کے لیے مذکورہ ہر دو اماموں نے اُسی فلسفہ سے کام لیا جو درسیات میں متداول رہا۔وجہ اس کی یہ ہے کہ سلف سے یہ طریقۂ کار بلا اِنقطاع، محفوظ و منقول چلا آرہا ہے کہ مسلمانوں نے فلسفہ کو ایک ذریعہ اور آلہ کے طور پر اس طرح استعمال کیا ہے کہ پہلے حقائق اشیاء سے براہین اخذکیے،اورپھر ہر طرح کے مغالطوں سے عقلی اصولوں کو پاک کیا، اُنہیں نکھارا ،اور مدون کیا۔اِس تناظر میں اسلاف و اکابر نے سوفسطائیوں کے حالات بھی سامنے رکھے کہ کس طرح انہوں نے ملمع کا ری کر کے حقیقت کو چھپایا اور غیر حقیقی چیزوں کوپر فریب طریقہ سے حقیقت بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی جس کی وجہ سے خود کو عقائد و خیالات کے گھپ اندھیرے میں بھٹکائے رکھا اور اعمال و اخلاق میں نفسانیت،شہوت اور اباحیت کے اُس دلدل میں پھنسے رہے کہ کبھی اُس سے نکلنا نصیب نہ ہوا۔اور چوں کہ دور حاضر کے مغربی فلسفیوں،محققوں اور سائنس دانوں کا پیش رو اور راہ رو یہی طبقۂ سوفسطائیہ ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ ا پنے تمام افکار و اعمال واخلاق میں اِس جدید مغرب نے اسی طبقۂ سوفسطائیہ کو راہبر اور راہ نمامقرر کیا ہے۔نتیجہ یہ ہے کہ گمراہی اور اخلاقی گراوٹ کے لحاظ سے،یہ جدید، اُس قدیم سے بھی زیادہ اباحیت کے دلدل میں پھنس گیا ۔ہاںدونوں میںموضوع کے لحاظ سے اِس قدر فرق ہے کہ سوفسطائیوں نے اپنی اغراض غلط طریقہ سے فلسفہ کے اصولوں کی خلاف ورزی کر کے حاصل کی تھیں،موجودہ مغربی مفکروں نے اپنے نفسانی مقاصد کے لیے سائنس کو استعمال کیا؛لیکن فلسفہ کو چھوڑکر نہیں؛بلکہ سائنس کے تابع بنا کر۔حقیقت یہ ہے کہ موجودہ اہلِ سائنس کے اصول ،قوانین،نظریات،و افکار جن پر لیول سائنس کا لگا ہوا ہے،وہ در حقیقت کسی خاص فلسفہ پر مبنی ہو تے ہیں،طریقۂ کارخو اہ استقرائی اور سائنسی ہو؛لیکن نتائج فلسفیانہ
ہو تے ہیں۔
ایک بات تو یہ ہوئی ۔اِس کے ساتھ ہی دوسری بات یہ بھی یاد رکھنے کی ہے کہ اہل سائنس یا اُن کے متبعین جس فلسفہ کا انکار کرتے ہیں،وہ وہ فلسفہ ہے جس کو متکلمین اور حکمائے اسلام یعنی محققین صوفیا ئے کرام نے فاسد اصولوں سے پاک کرنے کے بعد عقلی وشرعی اصولوں کی کسوٹی پر پرکھ کر منقح کر کے پیش کیا ہے۔اِس بنا پر مغربی سائنس سے متاثرو معتقدجو مسلمان فلسفہ کی مخالفت کرتے ہیں، در حقیقت مغالطہ میں ہیں،اور وہ غیر شعوری طور پر صحیح عقلی اصولوں کا انکار کرتے ہیںجو سلف سے محفوظ و منقول ہیں؛گویاحق کا انکار کرتے ہیں۔اور جو مسلمان ،سائنس زدہ مغربی افکار کی حمایت کرتے ہیں،وہ بھی د ر حقیقت سوفسطائیوں کے خیالات کی تائید کرتے ہیں؛گویا باطل کی تائید کرتے ہیں۔کیوں کہ مغربی سائنسی روش کی ذات ہی میں باطل کی تائید شامل ہے،اور فلسفہ جو مسلمانوں کے ہاتھ میں تھا اور اب بھی ہے،اُس کی ذات میں حق کی حمایت اور تائید داخل ہے۔یہاں ایک بات اور قابلِ توجہ ہے کہ اہل مغرب کا عتاب’’ حکمتِ ایمانیاں‘‘ کے علاوہ اُس قدیم فلسفہ پر بھی پڑتا ہے جو اُن کے خیالات کے معارض ہے ،لیکن اِس باب میں حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ نے ایک بڑی اہم بات یہ بتائی ہے کہ سائنس کے مقابلہ میں تو وہ فلسفہ بھی بہتر ہے جو حکماء سے منسوب ہے:
’’لوگوں کو یہ معلوم نہیں کہ فلسفہ کس چیز کا نام ہے۔آج کل کا فلسفہ مادیات سفایہ کے ترکیب و تحلیل یعنی صنائع و بدائع کا نام ہے؛حالاں کہ
یہ فلسفہ کی ایک شاخ ہے جو تمام شاخوں سے ادنی اور خسیس ہے جس کو طبعیات کہتے ہیں۔اِن کی رسائی مادیات علویہ تک بھی نہیں،اللٰہیات
تو بہت بالا تر ہیں۔ ‘‘’’البتہ پرانے فلسفہ میں اِس سے کچھ تعرض ہے،گو اُس میں عقل کو کافی سمجھنے کی وجہ سے انہوں نے غلطیاں کی ہیں۔تاہم
اُن کی نظر اِن فلاسفۂ جدیدہ سے بہت دقیق ہے۔‘‘ (ملفوظات ج ۲۹ص۱۷۵۱) ج۲۶ص۲۴۳)
اس تناظر میں بدلتے حالات کے تحت دین کی حفاظت اور مذہبِ اسلام کے دفاع کے حوالہ سے مدارس کی ترجیحات کیا ہیں؟، ایک جائزہ پیش کر نے کی ضرورت ہے ،اور اِس کے لیے لازم ہے کہ پہلے بنیادی اداروں اور تحریکوںکا ایک تعارف ذکر کیا جائے؛اس لیے آ ئندہ صفحات میں ہم دیو بند ،علی گڑھ اور ندوہ کی فکروں پر روشنی ڈالیں گے۔