)کہتے ہیں ۔اِس کا مکمل فلسفہ ڈارونزم کی حقیقت میں بتلایا گیا ہے۔
۲-ج=تعلیم میں نیچریت
تعلیم کے باب میں نیچریت کے حوالہ سے جن امور کو فروغ دینے کی کوشش کی گئی ہے،ان میں سے بعض یہ ہیں:
(۱)’’فطرت کی پیروی کرو‘‘("follow nature")،نیچریت کا سب سے عظیم اور مقبول مقولہ ہے۔ یہ نیچر کا واچ ورڈ ہے یعنی یہ ایساخاص لفظ ہے جس کے استعمال سے یہ لوگ دوست ،دشمن میں تمیز کرتے ہیں۔
(۲)بچوں کے لیے ’’فطری ما حول مہیا کرنا چا ہیے؛نہ کہ تربیتی ضابطوں اور بزرگوں کی اخلاقی قدروں کے تابع بنا کر، پیدا کردہ مصنوعی ماحول۔‘‘ کیوں کہ اہل نیچر کے نزدیک فطرت ہی سب سے عظیم مربی و معلم ہے۔‘‘
(۳)’’انسانی زندگی کا خاص ہدف فطری ماحول میں انفرادیت کا استحکام ہے؛اس لیے تعلیم کا مقصد اِسی انفرادیت کو ترقی دینا ہے؛لیکن عین اسی کاوش میں ضمناً بین ا لاقوامی قدروں کے تناظر میں بعض ذاتی و سماجی دلچسپیاں بھی گواراکی جا سکتی ہیں۔ ‘‘
(۴)خود کو ظاہر کرنے،نمایاں ہونے اور نمائش کے مواقع کی فراہمی ۔اس حوالہ سے زیادہ سے زیاہ خوشی ،لطف و لذت ،دل بہلانے والے امور ،عریاں تصاویر و مناظر، مخربِ اخلاق فنون لطیفہ سے شغف مطلوب ہیں کہ کہیں محض خشک تعلیم سے افسردگی نہ طاری ہو جائے۔اور اس باب میں طالب علم کے ابتدائی وجدان اور فطری تحریکات ہی اصل رہبر ہیں۔کسی قسم کی مذہبی قدر اور خدائی احکام کی مداخلت کی حاجت نہیں۔ صلاحیتوں کو ابھارنے کے نام سے ہم نصابی سرگرمیاں۔
(۵)غیر نصابی سرگرمیوں کے تحت طلبہ یونین کا قیام سوفسطائی ثقافت کو رواج دینا،اور،رقص،غنا،آرٹ ،بے حیائی ،فلم،ڈرامہ،ہر قسم کے کھیل بعض علحدہ علحدہ،بعض مخلوط طرز پر،لڑکے،لڑکیوں کی مخلوط تیراکی وغیرہ۔
(۶) اِس ہدف کو سامنے رکھا جائے کہ زندگی میں زیادہ سے زیادہ خوشی،اصل مقصود ہے اور فرد معاشرہ کے لیے نہیں؛بلکہ معاشرہ فرد کے لیے ہے۔
(۷)جس طرح سائنسی مضامین کا علم سائنٹفک اسٹڈی کے لیے ضروری ہے؛اسی طرح تاریخ کا نصاب میں شامل ہو نا بھی اس لیے ضروری ہے کہ اِس سے موروثی ثقافت کی طرف رجوع کرنے،اور رہنمائی حاصل کرنے میں مدد ملتی ہے۔اور اس لیے بھی کہ زمانۂ حال کا مقابلہ ماضی سے کیا جائے اور مستقبل کا پلان طے کیا جا ئے۔اور یہ اندازہ کیا جا ئے کہ بقائے اصلح کے تئیں دنیوی ترقی اور خوش حالی کے تناظر میں ہم کس مرحلے پر ہیں۔
(۹)نیچریت نے اگرچہ ۹ا ویں صدی میں انسان کے ضمیر کی آواز اور اندرونی وجدان کو کچھ کچھ تسلیم کیا ہے؛لیکن یہ بھی،سب مادی ہی پہلو ہیں ،حقیقت یہ ہے کہ نصاب تعلیم اور تعلیمی کوائف کے ساتھ وہ روحانیت اور مذہبیت کے اتصال کو زیادہ وقعت نہیں دیتی۔نصاب تعلیم کے باب میں نیچریت کے زعماء کے خیالات مختلف ہیں۔کومنیس(Comenius۱۵۹۲تا۱۶۷۰)جوایک معلم،سائنس داں اورمتعددکتابوں کا مصنف ہے،اُس کا مطالبہ ہے کہ تمام لوگوں کوسب مضامین پڑھائے جائیں؛لیکن لاک(۱۶۳۲تا۱۷۰۴ء)اِس خیال کو پسند نہیں کرتا۔اُس کا کہنا ہے کہ یہ ممکن نہیں ہے کہ ہر ایک کو ہر مضمون پڑھایا جا ئے؛بلکہ وہی مضمون پڑھائے جانے چاہئیں جو ضروری ہیں۔
موجودہ معاشرہ جس میں تما م طرح کے افکار جمع ہو گئے ہیں،اُن میں چند مشترک تصورات کے لیے جوزف شیلنگ(۱۷۷۵تا۱۸۵۴)کے ذریعہ پیش کیے گئے خیالات میں انسانی آزادی کے ساتھ روح اورنیچر کے درمیان ہم آہنگی کو دلائل کی روشنی میںبڑ ی اہمیت دی گئی ہے۔ اڈاف ولہم ڈائسٹروج(۱۷۹۰تا۱۸۶۶)،انیسویں صدی کا مشہور معلم و مفکر ہے۔اس کا کہنا تھا کہ تعلیم میں شروع سے ہی اِس امر کا لحاظ رکھا جائے کہ انجام کار تعلیم کے ذریعہ سماج کو سیکولرائز بنا نے میں مدد مل سکے۔اسپنسر(۱۸۲۰تا۱۹۰۳) سائنس کو بہت زیادہ اہمیت دیتا ہے،اور ثقافتی مضامین(cultural