(۲)آزاد خیالی:مذکورہ تحریک ِ’’انسانیت ‘‘۱۹ ویں صدی میں آزاد خیالی کی علمبردار بنی۔اِ س کا حاصل یہ ہے کہ عقیدہ اور فکر میں انسان تقلید و اتباع سے آزاد ہو کر خود اپنی عقل اور تجربے سے عقائد اورخیالات طے کرے۔
(۳)رواداری:اِس کا حاصل مذہبی افراد میںدینی حمیت کو مفقود کرنا، تاکہ مذہب پر کیا جا نے وا لا ہر طعن برداشت ہی نہیں پسند بھی کیا جا نے لگے۔
(۴)تاریخ کی اہمیت: یونانی دہریوں کو اپنا مرجع بنا لینے پر ابھارنا،اور بحیثیت جدید ثقافت کی وراثت کے،اس کے جاری و ساری رہنے کو یقینی بنانے کے لیے اِس مہم کا آغازہوا۔
(۵)سائنس:ہیومنزم نے جدید سائنس یعنی ایسے علم کی بنیاد ڈالی جس کا مقصد انسانی اذہان کو خدا،رسالت،آخرت اور خیر و شر کے تصور سے آزاد کرنا تھا۔ اِسی سے پرسنلزم کا ظہور ہوا جس نے انسانی عقل کو عقل کل قرار دیا۔
(۶)ریشنلزم:دنیا کی حقیقی صداقتوں کو گرفت میں لینے کے لیے استخراجی عقل کی قوت کافی ہے اور اِس کا بنیادی میدانِ کار نیچرل سائنس ہے۔ عقل ہی آخری اتھارٹی ہے،تمام عقائد قابل رد ہیں جو عقل کے مطابق نہ پا ئے جائیں۔یہ ریشنلزم کا حاصل تھا جس کی روح۱۷ ویں اور ۱۸ ویں صدی میں یورپ میں پیدا ہونے والی شخصیتوں اور اُن کے خیالات سے مربوط ہے ،یہ ریشنلسٹ کہلاتے ہیںجو مذہبی عقائد کو خیالی اوہام قرار دیتے تھے۔
کبھی یہی ’’انسانیت‘‘ وجودیت (Existentialism)کی شکل میں ظاہر ہوئی جس نے یہ دعوی کیا کہ’’کائنات تو صرف انسانی معروضیت کی ہے۔اس انسانی کائنات کے علاوہ کوئی کا ئنات نہیں۔‘‘اسی خیال کے لوگ یورپ میں تعلیم کے ہر شعبے میں چھا گئے۔یورپ کے معروضیت زدہ خیالات سائنس کی حقیقت میں داخل ہو گئے۔’’واقعہ یہ ہے کہ لفظ سائنس کا استحصال ہیومنزم اور ریشنلزم کی اس مغربی تہذیب نے سب سے زیادہ کیا۔‘‘
ہیومنزم کے زیر اثر یہ فکریں یورپ میں برگ و بار لا نے لگیں ،اور اِس نے ایسے رجالِ کار پیدا کیے جن کے افکار اور اصولوں نے تمام یورپ کو اپنے گھیرے میں لے لیا۔کوئی علم و فن کوئی تہذیب اِن کے دائرۂ اثر سے باہر نہ رہا۔ڈیکارٹ،اسپنوزا،لائبنٹز،والٹیر اور پھر بعد کی صدیوں میں کانٹ،فشتے،شوپنہار،ہیگل،مارکس
اینگل ،میکس ویبر وغیرہ نے دنیا بھر کے بڑے اہم علوم وفنون کی بنیاد یںرکھیں اور اُن کی ماہیت میں،اُن کے طریقہ کار میں ،اُن کے مسائل میں،اُن کی تحقیق سے حاصل ہونے والے نتائج اور دریافت ہونے والے قوانین میں،اُنہیں استعمال میں لا ئے جا نے وا لے مقاصد اور متعین کیے جانے وا لے اہداف میں ہیومنزم اور ریشنلزم کے عقیدے سمو دیے۔
تاریخ کا جائزہ یہ بتا تا ہے کہ مذکورہ تحریکوں نے انسان کو یہ بات سمجھا دی اور اُس کی گھٹی میں یہ بات پلا دی کہ’’وہ اپنی عقل کے استعمال کرنے اور اپنی مرضی کے مطابق فیصلے کر نے میں بالکل آزاد اور حق بجانب ہے ۔جو بات اُس کی عقل میں نہیں آتی یا جس کی اُس کے حواس خمسہ تصدیق نہیں کرتے ،وہ بے حقیقت شی ہے اُس کا انکار لازم ہے۔یہی فکر اُس مغربی گمراہ سائنسی فکر میں بدل گئی جس کو سائنٹفک میتھڈ کہتے ہیں۔‘‘ اِس کے ذریعہ تمام عالم کو ہیومنائز اور ریشنلائزکیا گیا،یعنی ’’انسانیت ‘‘اور ’’عقلیت‘‘کا حامی بنایا گیا۔اِن تحریکوں کے چلانے والے اپنے زمانے کے بہتریں دماغ تھے جنہوں نے علم و فن کے بڑے بڑے شاہکار اختراع کیے،اور نہایت کرآمد اصول و اکتشافات دریافت کنندہ ہوئے۔یہ سب ہیومنسٹ (انسانیت کے علمبردار)کہلاتے ہیں۔یہ دانشور معاشرہ میں حکومت کے اعلی مناصب پر فائز تھے ،یورپ کے دماغ پر اِن کا قبضہ تھا۔ا ن کی زندگیاں اِن کی فکر کی عکاس تھیں،یعنی یہ خود اباحت پسند تھے اوراِن میں سے اکثر اخلاقی طور پر بد ترین لوگ تھے۔اِن کے افکار کے اثرات ہر طبقے پر پڑے۔دوسری طرف معاشرہ میں خوش حالی پیدا ہوئی اور’’دولت کے پھیلاؤ نے زاہدانہ اصولوں کو کمزور کر دیا۔مرد و عورت اُس اخلاق سے چڑھنے لگے جو غربت اور خوف کے سبب پیدا ہوا تھا۔اور جو، اب اُن کے جذبات اور وسائل کے برخلاف جا رہا تھا۔انہوں نے امڈتی ہوئی ہمدردی کے ساتھ ایپقیورس(یونانی اباحت پسند سوفسطائی)کے خیالات سنے کہ:زندگی کا لطف لینا چا ہیے اور یہ کہ ساری خوشیاں اور لذتیں اُس وقت تک