میں تھی وہ کسی میں بھی نہ دیکھی۔اپنے کو مٹائے ہوئے اور فنا کیے ہوئے تھے اور جامع ہونے کی وجہ سیاس کے مصداق تھے:
برکفے جامِ شریعت بر کفے سندانِ عشق
ہر ہوس ناکے نہ داند جام وصنداں باختن ۔‘‘(ملفوظ ج ۱ ص۹۷)
مفتی محمد تقی عثمانی مد ظلہ کو لکھے گئے ایک مکتوب میں حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلوی رحمہ اﷲ تحریر فر ماتے ہیں:
’’پیارے تقی کیا کیا لکھواؤں ؟ہمارے اکابر جنہوں نے دار العلوم و مظاہر علوم کی بنیاد رکھی تھی،اُن کا اِخلاص اور مکارمِ اخلاق اور
محاسنِ افعال اور شریعت و طریقت کی جامعیت عجیب چیزیں تھیں،یہ حضرات ہر علم سے واقف،معقولات اور منقولات کے سمندر
کے شناور اور ساتھ ہی بے نفسی،تواضع اور فنائیت کے مجسمے تھے۔سب کچھ ہوتے ہوئے اپنے نزدیک،کچھ بھی نہ تھے۔ اہل سنت و
الجماعت کے مسلک سے یکسر ہٹنا اُن کو گوارا نہ تھا۔فقہ حنفی کے مضبوطی سے مقلد تھے اور عدم تقلید کو گمراہی کا پیش خیمہ سمجھتے تھے۔‘‘
اس کے بعدجب دور بدل گیا،تو حالات بدل جا نے کی شکایت کرتے ہیں:
’’آج میں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں کہ وہ امتیازی شؤن مٹ رہی ہیںجو اپنے اکابر کا طرۂ امتیاز تھیں۔....صرف رسمیہ الفاظ اور شاعرانہ قسم کے مضامین کی
بہتات رہ گئی ہے۔‘‘(از مدینۂ منورہ ۹/شعبان۱۳۹۸ھ ماخوذ از ’البلاغ‘خصوصی اشاعت کراچی) اِسی کی طرف توجہ حضرت تھانویؒ بھی دلاچکے تھے کہ:
’’مدرسہ اپنے بزرگوں کے مسلک پر رہے ......اگر یہ بات مدرسہ میں سے جا تی رہی ،تو ہو نا نہ ہو نا برا بر ہے۔‘‘’’جب اپنے بزرگوں
کے طرز کو چھوڑ دیا،تو پھر نورکہاں ،برکت کہاں؟‘‘(ملفوظ ج ۷۱ص۳۳۸)’’ اب اِس وقت سب کچھ ہے.....وہ جو ایک چیز تھی جس کو
روح کہتے ہیں،وہ نہیں رہی۔‘‘(ملفوظ ج ۱ ص۹۷)
موجودہ حالات میں عصر حاضر کے اداروں سے موازنہ کیجئے،تو گو برکت اور نور اب بھی ہے؛لیکن دور اول کی طرف نسبت کرتے ہوئے جس کمی کو نظرِ حکیم الامت زائل ہونا بتلا رہی ہے،اُس کاسبب دریافت طلب ہے کہ،وہ سبب کیا ہے؟لیکن ا بھی عرض کیا جا چکاکہ اپنے بزرگوں کے طرز اور مسلک کو چھوڑ نا،اس کا سبب ہے۔اگرچہ چھوڑا اب بھی نہیں ہے؛لیکن جس کمی کو حکیم ِ امت کی تشخیص ’ترک‘سے تعبیر کر رہی ہے) اِس کا ’’سبب فاعلی‘‘کیا ہے؟وہ ہے نیچریت؛کہ جس طرح ہوا میں جراثیم سرایت کرجا تے ہیں،تو اُس وقت کسی کے لیے بھی خود کو اُس کی سمیت کے ضرر سے محفوظ رکھ پانا مشکل ہو تا ہے،بالکل یہی صورتِ حال نیچریت کی ہے حکیم الامت حضرت مولا نا اشرف علی تھانوی قدس سرہ فرماتے ہیں،برکت اور نور کا زائل ہونا :’’یہ سب اِس ہی کم بخت نیچریت کی نحوست ہے۔‘‘(ملفوظ ج ۱ص۳۳۸)
نیز فرماتے ہیں:پہلے تو غیبت ہی سے بچنا مشکل تھا،اب اگر کوئی شخص اس سے بچ بھی لے تو نیچریت سے تو نہیں بچ سکتا۔
حضرت کا اشارہ اس طرف ہے کہ طلبہ میں آزادی ،غیر نصابی سرگرمیاں،اپنی نمائش و شہرت سے دلچسپی ،اساتذہ اور بڑوں کے سامنے جرأت و بے باکی،انجمن سازی،تعلیم میں بھی ایسی چیزوں کی طرف رغبت جن سے معاصر تعلیمی اداروں کی نظر میں رونق ووقعت ہو؛لیکن اصل مقصود میں حارج ہوں۔اسی طرح اُن چیزوں سے اعراض و سستی جو دین کی حفاظت کے لیے تو مفید ہوں؛لیکن معاصر ادارے اُنہیںہدفِ ملامت بناتے ہوں۔ یہ رجحانات روح تعلیم کے منافی ہیں ،اوربزرگوں کے جاری کیے ہوئے طرز سے دور لے جانے والے ہیں۔اور یہ مضر اثرات متعدی ہیں؛کیوں کہ پھر انہی طلبہ کے ہاتھ میں استاذ کی حیثیت سے تعلیم وتربیت آتی ہے تو اپنے خیالات و افکار طلبہ میں منتقل کرتے ہیں ۔کشاں کشاں وہی ایک چیز جس کو روح کہتے ہیں ،غائب ہو جا تی ہے۔اِس کو حضرت نے نیچریت سے تعبیر فرمایا ہے۔ حضرت ؒکا مشورہ ہے کہ عملی و فکری طور پر وہی طرز اور نہج اختیار کرنا چا ہیے جو اُس کے بانیوں کا تھا۔لیکن یہ سوال ا بھی تشنۂ جواب ہے کہ نیچریت کیا چیز ہے ؟اس لیے لازم ہے کہ پہلے نیچریت کا تعارف کرا دیا جا ئے۔
باب-۲= نیچریت (اشارات)
نیچریت جسے انگریزی میں نیچرلزم(Naturalism)کہتے ہیں،اور جسے عہدجدید کی عربی میں ’فطرت‘ کہا جانے لگا۔یہ ایک جدیدفلسفیانہ تصور ہے