معبود نہیں ہوتا، البتہ مقصود ضرور ہوتا ہے، جب غیر اللہ کا مقصود ہونا شرک ٹھہرا تو توحید جو مقابلِ شرک ہے اس کی حقیقت یہ ٹھہرے گی کہ اللہ تعالیٰ ہی مقصود ہو، غیر اللہ بالکل مقصود نہ ہو، یہی معنی ہیں لا مقصود إلا اللّٰہ۔
اب ہم وہ حدیث نقل کرتے ہیں جس میں رِیا کو شرک فرمایا گیا ہے:
محمود بن لبید سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ’’بڑی خوف ناک چیز جس سے تم پر اندیشہ کرتا ہوں، شرکِ اصغر ہے۔ لوگوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! شرکِ اصغر کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: رِیا‘‘۔1
اور بھی بہت سی حدیثیں اس مطلب میں وارد ہیں۔ تفسیر مظہری میں سورۂ کہف کے ختم پر جمع کی گئی ہیں، بوجۂ اختصار یہاں نہیں لکھی گئیں۔ اس معنی کے نہ ہونے سے اخلاص جاتا رہتا ہے جس پر کسی قدر عقوبت کا استحقاق ہوتا ہے لیکن خلود فی النار نہ ہوگا۔
وحدۃ الوجود: تیسرے معنی توحید کے اصطلاحِ صوفیہ میں ایک اور ہیں: ’’لا موجود إلا اللّٰہ‘‘ جس کو ’’وحدۃ الوجود‘‘ کہتے ہیں۔ اس معنی کو قرآن و حدیث سے ثابت کرنا ۔ِنرا تکلف ولا یعنی ہے۔ یہی غنیمت ہے کہ اس معنی کی اس طرح تقریر کی جائے کہ قرآن و حدیث سے خلاف نہ پڑے۔ آج کل اسی کی مشکل پڑ رہی ہے۔ چوںکہ مسئلہ نازک ہے اور مدارِ ثبوت اس کا محض ذوق اور کشف ہے، اس لیے اوّلاً تو اس تعبیر کے لیے کافی عبارت ہی ملنا دشوار ہے، اور جو کچھ قلیل و کثیر تعبیر ممکن ہے اس کے سمجھنے کے لیے علاوہ ذوق و مناسبتِ کشفی کے علومِ عقلیہ و نقلیہ میں تبحر کی حاجت ہے۔ اس زمانے میں اکثر مدعیانِ وحدۃ الوجود کی حالت دیکھ کر سخت رنج ہوتا ہے کہ نہ ان کو علم، نہ ذوق، محض زبانی طاعات و سطحیات فرما دینے سے کام۔ نہ یہ پروا ہے کہ ان ملحدانہ کلمات سے جو بے سمجھے بوجھے زبان سے نکال رہے ہیں، ایمان جاتا رہے گا۔ نہ اس کا کچھ خیال ہے کہ دوسرے عوام ہم کو محقق سمجھ کر مقلدانہ اس کا نہ صرف اعتقاد بلکہ دعویٰ کرنے لگیں گے، ان کا ٹوٹا پھوٹا جو ایمان تھا وہ بھی رخصت ہوجائے گا۔ نماز روزہ الگ چھوڑ بیٹھیں گے کہ جب ہم خدا ہوگئے تو پھر نماز اور روزہ کس کا؟ حاشا و ۔ّکلا ! وحدۃ الوجود کے ہرگز یہ معنی نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ ایک حالت ہے، جس پر گزرتی ہے وہی جانتا ہے، نہ اس کو قصداً منہ سے نکالنا چاہیے، نہ دوسرے کی سمجھ میں آسکتی ہے۔ اس حالت کے غلبے میں یہ کیفیت ہوجاتی ہے:
بس کہ دَر جان فگار و چشم بیدارم توئی
ہرچہ پیدا می شود از درد پندرام توئی1
سمایا ہے جب سے تو آنکھوں میں میری