گٹے تک اور دونوں پاؤں ٹخنے کے نیچے تک کھولنا جائز ہے، اس صورت میں اگر بدنگاہ سے کوئی دیکھے گا وہ گناہ گار ہوگا، اس پر کوئی الزام نہیں۔ لیکن اور تمام بدن موٹے کپڑے سے اور اس میں بھی بہتر یہ ہے کہ یہ کپڑا سفید اور سادہ ہو مکلف نہ ہو، ڈھکا ہونا چاہیے، خوش بو وغیرہ بھی نامحرَم کے رُوبرو لگا کر نہ آنا چاہیے، زیو رجہاں تک ممکن ہو چھپا ہوا ہو، بہت باتیں بالخصوص بے تکلفی اور لطف کی باتیں غیر محرَم سے نہ کرے۔
خلاصہ یہ ہے کہ جو چیز بہ ضرورت جائز ہے وہ زائد از ضرورت ممنوع ہے۔ اے مردو! اور اے بیبیو! ان باتوں کی خوب احتیاط رکھو۔ دیکھو! اللہ و رسولﷺ تم پر بہت شفیق ہیں، جس چیز سے منع کیا ہے اس کے ماننے سے سرا سر تمہارا ہی فائدہ ہے، اس زمانے میںنہ بدن کا پردہ ہے، نہ آواز کا، پھر دیکھو طرح طرح کی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ توفیق دے۔
قربانی: زید بن ارقم ؓ سے روایت ہے کہ صحابہ ؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہ (ﷺ)! یہ قربانی کیا چیز ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’سنت ہے تمہاری باپ ابراہیم ؑ کی‘‘۔ انھوں نے عرض کیا کہ پھر ہم کو اس میں کیا ملتا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’ہر بال کے عوض ایک نیکی‘‘۔ انھوںنے عرض کیا: اور اُون والے جانور میں یا رسول اللہ! آپﷺ نے فرمایا: ’’اس میں بھی ہر بال کے عوض ایک نیکی‘‘۔ 1 (1 مسندِ احمد، ابنِ ماجہ)
غلطیٔ مہتممینِ مدارس دَر صرف قیمت چرمِ قربانی: اور بہت احادیث فضائلِ قربانی میں وارد ہیں، اور گوشت پوست قربانی کا خواہ اپنے کام میں لائے، خواہ کسی کو ہدیتاً یا صدقتاً دے، مالک کو اختیار ہے، لیکن فروخت کرکے اپنے کام میں لانا جائز نہیں اور اگر فروخت کیا تو اس کا ۔َمصرف مثل زکاۃ کے ہے، اسی طرح جو مالک کا نائب و وکیل ہے اس کو بھی اس قاعدے کا لحاظ رکھنا چاہیے۔
اکثر مدارسِ عربیہ میں قربانی کی کھال کے داموں کو مہتمم جہاں مدرسہ میں ضرورت ہوتی ہے، ۔َصرف کر ڈالتے ہیں، یہ بے احتیاطی ہے۔ صرف مصارفِ زکاۃ میں اس کو صَرف کرنا چاہیے۔