ف: صاحبو! آپ نے حضورﷺ کی خوش معاملگی دیکھی۔ آپ سے کوئی ذرا تقاضا کرتا ہے تو مزاج بگڑ جاتا ہے، افسوس! بدنام کنندۂ بزرگان ہم ہی لوگ ہیں۔
اِنفاق فی الحق: ارشاد فرمایا رسول اللہﷺ نے کہ ’’اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے ناپسند کیا ہے مال کا ضایع کرنا‘‘۔ 1 (1 روایت کیا اس کو شیخین ؒ نے) اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا: {وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِیْرًاO} یعنی مال کو اُڑاؤ مت۔
قدر دانی مالِ حلال: مالِ حلال کی قدر کرنا چاہیے، اس کو برباد نہ کرے۔ مال پاس رہنے سے نفس کو اطمینان رہتا ہے، ورنہ پراگندہ روزی پراگندہ مال۔
چناںچہ حدیث شریف میں وارد ہے کہ ارشاد فرمایا رسول اللہﷺ نے: ’’لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ اس میں کوئی چیز کام نہ آئے گی بجز دینار و درہم کے‘‘۔ 1 (1 مسندِاحمد)
یعنی جس کے پاس روپیہ ہوگا وہ حرام کسب سے، حسد سے، دِین فروشی سے، سوال وذِ۔ّلت سے، اُمرا کے دروازوں پر جانے اور ان کی خوشامد کرنے سے، ظالموں کے ظلم و ستم سے، اپنے دین و علم کو برباد و خوار کرنے سے، بہ دولت مال کے بچا رہے گا۔ اس لیے ہاتھ تھام کر خرچ کرنا چاہیے، فضولیات میں خرچ نہ کرے، گو مباح ہی کیوں نہ ہو۔ اور غیر مشروع میں خرچ کرنا تو صریح حرام ہے اس کا ذکر ہی کیا، خصوصاً جب کہ لوگ اہلِ تعلق و محبوسِ اسباب ہیں ان کو تو یہ اَمر بہت ضروری ہیں، بلکہ جس قدر آمدنی ہو اس میں سے جتنا ممکن ہو پس انداز کرتا رہے تاکہ محتاجی، پیری، قحط و سختی کے زمانے میں کام آوے، اس میں کوئی گناہ نہیں، اگر اچھی نیت ہو تو ثواب، جیسا وارد ہے: ’’نِعْمَ الْمَالُ الصَّالِحُ لِلرَّجُلِ الصَّالِحِ‘‘۔
جواب سلام و عطس: شیخین ؒ نے روایت کیا ہے کہ فرمایا رسول اللہﷺ نے: ’’مسلمان کے حقوق مسلمان پر پانچ ہیں (ان میں دو یہ فرمائے):
۱۔ سلام کا جواب دینا۔
۲۔ اور چھینکنے والے کو جواب دینا۔