غرضِ اِعتکاف: فائدہ اِعتکاف سے بہ قول اہلِ تحقیق یہ ہے کہ شبِ قدر کو اس میں تلاش کیا جائے، کیوں کہ اکثر احادیث کے موافق یہ شب عشرۂ اخیر میں ہوتی ہے اور اس کی بڑی فضیلت آئی ہے۔ چناںچہ انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ رمضان شریف کا مہینہ داخل ہوا تو حضورﷺ نے ارشاد فرمایاکہ ’’یہ مہینہ تمہارے پاس آگیا ہے اور اس میں ایک شب ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے، یہی شبِ قدر ہے، جو اس سے محروم رہا وہ تمام خیر سے محروم رہا اور اس کی خیر سے وہی محروم رہے گا جو بالکل ہی محروم ہو‘‘۔ 1 (1 ابنِ ماجہ)
بعض لوگ اِعتکاف کے یہی معنی سمجھتے ہیں کہ دس روز تک مسجد میں مقید رہے، چاہے وہاں بیٹھ کر دنیا بھر کے خرافات میں مشغول رہے، ایسا اعتکاف تو محض صورتِ بے معنی ہے۔ مغز اعتکاف کا ذکر و فکر، مشغولی عبادت اور توبہ و اِستغفار و انتظارِ صلاۃ وغیرہا اُمور ہیں۔ اپنی اوقات ان اُمور میں مشغول رکھنا چاہیے۔ اور طاق راتوں میں شبِ قدر کا غالب احتمال ہے، جس قدر ممکن ہو اس میں شب بیداری کرے اور یہ ضروری نہیں کہ تمام شب جاگے خواہ زبان بھی لڑکھڑائے، رکوع سجدہ میں سہو بھی ہوتا جائے، نیند کے جھونکے سے گر بھی پڑے، اگر ایسی حالت ہوتو تھوڑی دیر کے لیے سو رہنا چاہیے۔ شریعت کا یہ حکم نہیں ہے کہ اپنے آپ کو ہلاک کر ڈالو، بلکہ اصلی منشا یہ ہے کہ غفلت و کاہلی و اعراض و نسیان نہ ہونا چاہیے، ادھر کی دُھن لگی رہے اور اپنی کوشش بھر کوتاہی نہ کرے اور تکان کے وقت بے تکلف آرام کرے، ایسا آرام بھی عبادت سے درجے میں کم نہیں ہے۔
ہجرت: ابو سعیدخدری ؓ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہﷺ نے: ’’تھوڑے ہی دنوں میں ایسی حالت ہوجائے گی کہ مسلمان کا سب سے بہتر مال بکریاں ہوں گی جن کے پیچھے پیچھے پھرتا ہو، پہاڑوں کی چوٹیوں پر اور بارش کے موقعوں پر اپنے دین کو لیے ہوئے بھاگا ہوا پھرتا ہو فتنوں سے‘‘۔ 1 (1 بخاری)
عمرو بن العاص ؓ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہﷺ نے کہ ’’ہجرت منہدم کردیتی ہے ان گناہوں کو جو اس سے پہلے ہوچکے ہوں‘‘۔ 1 (1 مسلم)
ف: اگر کسی شہر میںیا محلہ میں یا کسی مجمع میں دِین کے ضایع ہونے کا خدشہ ہو تو وہاں سے بہ شرطِ قدرت علیحدگی واجب ہے۔ البتہ اگر یہ شخص عالم مقتدا ہے اور لوگوں کو اس سے دینی حاجت واقع ہوتی ہے تو ان میں رہ کر صبر کرے اور اگر کوئی اس کو پوچھتا ہی نہیں، نہ ان کی اصلاح کی اُمید ہے تو پھر یہی بہتر ہے کہ ان سے علیحدہ ہوجائے۔