رہ سکیں۔ سو سلطان ہونے کے لیے وہ شرائط نہیں جو امامت و خلافت کے لیے ہیں، البتہ اسلام شرط ہے، لقولہ تعالیٰ: {وَاُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْج} الآیۃ۔
اور اگر کافر حاکم سے معاہدہ ہوجاوے، اس معاہدہ کا پورا کرنا واجب ہے، لقولہ تعالیٰ: {وَاَوْفُوْا بِالْعَھْدِج} الآیۃ البتہ اگر شرعی ضرورت اس عہد کے توڑنے کی ہو تو اس کو اوّل اطلاع اس معاہدہ کے اُٹھ جانے کی کردے، لقولہ تعالیٰ: {فَانْبِذْ اِلَیْھِمْ عَلٰی سَوَآئٍط} ورنہ غدر کا سخت گناہ ہے، لقولہ تعالیٰ: {اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الْخَآئِنِیْنَ}۔
اصلاحِ باہمی: فرمایا اللہ تعالیٰ نے: ’’اگر دو جماعتیں مسلمانوں میں سے لڑنے لگیں تو اصلاح کردو ان کے درمیان، پھر بھی اگر ایک زیادتی کرے دوسرے پر اس سے لڑو جو زیادتی کرتا ہے، یہاں تک کہ لوٹ آوے خدائے تعالیٰ کی طرف‘‘۔
اس سے دو باتیں معلوم ہوئیں: ایک تو یہ کہ اوّل لڑائی کرنے والوں میں صلح کی کوشش کرو۔ دوسری یہ کہ اگر پھر بھی ایک ظلم پر کمر باندھے تو مظلوم کو تنہا مت چھوڑو، بلکہ اس کی مدد کرو اور ظالم کے ظلم کو دفع کرو۔
اعانت کارِ خیر: فرمایا اللہ تعالیٰ نے: ’’ایک دوسرے کی مدد کرو نیک کام میں اور تقویٰ پر‘‘۔
ف: اس زمانے میں اگر کوئی شخص نیک کام کرنے کو کھڑا ہوتا ہے لوگ اس کا سارا بوجھ اسی کے ذ۔ّمے ڈال دیتے ہیں، اور اس کا شخصی کام سمجھتے ہیں، کوئی اس کی بات تک نہیں پوچھتا، اس آیت سے تاکید معلوم ہوئی کہ سب کو اس کی مدد جس قدر اور جس طرح ممکن ہو کرنا ضروری ہے۔
امر بالمعروف ونہی عن المنکر: فرمایا اللہ تعالیٰ نے: ’’تم لوگوں میں ایک ایسی جماعت ہونی چاہیے کہ نیکی کی طرف بلاتے ہوں اور اچھی بات کا حکم کریں اور ۔ُبری بات سے روکیں اور یہی لوگ ہیں فلاح پانے والے‘‘۔ اور فرمایا رسول اللہﷺ نے: ’’جو شخص تم میں کوئی ۔ُبرائی دیکھے اس کو اپنے ہاتھ سے مٹا دینا چاہیے، اگر یہ قدرت نہ ہو تو زبان سے منع کرے، اور اگر یہ بھی نہ ہوسکے تو اپنے دِل سے اس کو ۔ُبرا جانے اور یہ ایمان کا بہت ہی کمزور درجہ ہے‘‘۔ 1 (1 مسلم )
ف: اس سے معلوم ہوا کہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر بہ قدرِ استطاعت واجب ہے، جو ہاتھ سے مٹا سکے جیسے: حاکم، گھر