۱۔ اس کے پاس مسواک کرکے صاف کپڑے پہن کر جائے۔
۲۔ ادب کے ساتھ پیش آئے۔
۳۔ نگاہِ حرمت و تعظیم سے اس پر نظر کرے۔
۴۔ جو بتلاوے اس کو خوب توجہ سے سنے۔
۵۔ اس کو خوب یاد رکھے۔
۶۔ جو بات سمجھ میں نہ آئے اپنا قصور سمجھے۔
۷۔ اس کے رُو برو کسی اور کا قولِ مخالف ذکر نہ کرے۔
۸۔ اگر کوئی اُستاذ کو ۔ُبرا کہے، حتی الوسع اس کا دفعیہ کرے ورنہ وہاں سے اُٹھ کھڑا ہو۔
۹۔ جب حلقے کے قریب پہنچے سب حاضرین کو سلام کرے، پھر اُستاذ کو بالخصوص سلام کرے، لیکن اگر وہ تقریر وغیرہ میں مشغول ہو تو اس وقت سلام نہ کرے۔
۱۰۔ اُستاذ کے رُو برو نہ ہنسے، نہ بہت باتیں کرے، اِدھر اُدھر نہ دیکھے، نہ کسی اور کی طرف متوجہ رہے۔
۱۱۔ اُستاذ کی بد ۔ُخلفی کا سہار کرے۔
۱۲۔ اس کی تند خوئی سے اس کے پاس جانا نہ چھوڑے، نہ اس کے کمال سے بد اعتقاد ہو، بلکہ اس کے اقوال اور افعال کی تاویل کرے۔
۱۳۔ جب اُستاذ کام میں لگا ہو یا ملول و مغموم ہو یا بھوکا پیاسا ہو یا اُونگھ رہا ہو یا اور کوئی عذر ہو جس سے تعلیم شاق ہو یا حضورِ قلب سے نہ ہو، ایسے وقت نہ پڑھے۔
۱۴۔ حالتِ ۔ُبعد و غیبت میں بھی اس کے حقوق کا خیال رکھے۔
۱۵۔ گاہ گاہ تحفہ تحائف، خط و کتابت سے اس کا دِل خوش کرتا رہے۔
اور بہت سے ہیں مگر ذہین آدمی کے لیے اسی قدر لکھنا کافی ہے، وہ اسی سے باقی حقوق کو بھی سمجھ سکتا ہے۔
حقوقِ پیر: جس قدر حقوق اُستاذ کے لکھے گئے ہیں، یہ سب پیر کے بھی حقوق ہیں اور کچھ زائد حقوق ہیں وہ لکھے جاتے ہیں:
۱۔ یہ اعتقاد کرلے کہ میرا مطلب اسی ۔ُمرشد سے حاصل ہوگا، اور اگر دوسری طرف توجہ کرلے گا تو ۔ُمرشد کے فیض و برکات سے محروم رہے گا۔
۲۔ ہر طرح ۔ُمرشد کا مطیع ہو اور جان و مال سے اس کی خدمت کرے، کیوںکہ بغیر محبتِ پیر کے کچھ نہیں ہوتا، اور محبت