رِیا کے خیال سے اعمالِ صالحہ کو ترک کرنا: رِیا کے آفات عظیم ہیں، اس سے بچنے کا بہت ہی اہتمام چاہیے، مگر یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ شیطان کے اغوا اور اعمالِ صالحہ کے ترک کرانے کا یہ بھی ایک طریقہ ہے کہ وسوسہ ڈالتا ہے کہ اس عمل کو مت کرو، یہ رِیا ہوجائے گی۔ اس صورت میں اس کا جواب دینا چاہیے کہ رِیا اس وقت ہوسکتی ہے جب ہمارا مقصد یہی ہو کہ مخلوق کو دِکھادیں اور وہ خوش ہوں اور ہم کو اس خیال سے حظ ہو، اور جس حالت میں کہ ہم اس کو ۔ُبرا سمجھ رہے ہیں اور دفع کرنا چاہتے ہیں خواہ دفع ہو یا نہ ہو تو یہ رِیا کدھر سے ہے؟ جواب دے کر اعمالِ صالحہ میں مشغول ہو، وساوس و خطرات کی کچھ پروا نہ کرے، دو چار مرتبہ کسی قدر وسوسہ آئے گا پھر شیطان جھک مار کر خود دفع ہوجائے گا۔
حضرت پیر و ۔ُمرشد قبلہ و کعبہ عقیدت مندان مولانا الحاج الحافظ محمد امداد اللہ دامت برکاتہم کا ارشاد ہے کہ
رِیا ہمیشہ رِیا نہیں رہتی، اوّل رِیا ہوتی ہے، پھر رِیا سے عادت ہوجاتی ہے اور عادت سے عبادت اور اِخلاص۔
مقصد یہ ہے کہ جو رِیا بلا قصد ہو اس کی پروا نہ کرے اور اس کی وجہ سے عمل کو ترک نہ کرے۔
توبہ: فرمایا اللہ تعالیٰ نے:
{وَتُوْبُوْآ اِلَی اللّٰہِ جَمِیْعًا اَیُّـہَ الْمُؤْمِنُوْنَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَO}2
یعنی رُجوع کرو اللہ کی طرف سب کے سب اے ایمان والو! تاکہ تم فلاح پاؤ۔
اور بہت سی حدیثیں اس باب میں وارد ہیں۔
طریقِ توبہ: توبہ کی پوری حقیقت ایک بزرگ نے نہایت مختصر الفاظ میں بیان کی ہے: ’’ھو تحرق الحشا علی الخطاء‘‘ یعنی دِل میں سوزش پیدا ہوجانا گناہ پر۔
حضرت ابنِ مسعود ؓ کا ارشاد کہ ’’الندم توبۃ‘‘ اس کا مؤید ہے۔ آداب توبہ کے بہت ہیں، مگر مختصر یوں سمجھ لیجیے کہ جب کسی بڑے آدمی کا قصور ہوجاتا ہے تو کس طرح اس سے معذرت کرتے ہیں، ہاتھ جوڑتے ہیں، پاؤں پر ٹوپی ڈال دیتے ہیں، خوشامد کے الفاظ کہتے ہیں، رونے کا سا منہ بناتے ہیں، طرح طرح کے عنوانات سے معذرت کرتے ہیں، بھلا اللہ تعالیٰ کے رُو برو جب معذرت کریںکم از کم ایسی حالت تو ضرور ہونا چاہیے، ایسی توبہ حسبِ وعدۂ خداوندی ضرور قبول ہوتی ہے۔