ایں چنیں تسبیح کے دارد اثر1
چوںکہ اللہ تعالیٰ کی نظر قلب پر ہے، قلب کی بے التفاتی کی بالکل ایسی مثال ہے کہ کسی حاکم کی پیشی میں درخواست دی جاوے اور اس کی طرف پیٹھ کرکے کھڑے ہوجاویں، ظاہر ہے کہ اس بے رخی کا کیا اثر ہوگا۔ اور سب سے بڑی بلا یہ ہے کہ دُعا کی قبولیت کا یقین نہیں ہوتا، تردّد ہوتا ہے کہ دیکھئے منظور ہوگئی ہے یا نہیں؟ اس کی بعینہٖ ایسی مثال ہے جیسے کوئی شخص کسی حاکم کے یہاں نوکری کی تحریری درخواست دے، اوّل میں تو بہت خوشامد کے الفاظ ہوں اور اس کے ساتھ آخر میں یوں بھی لکھ دے کہ ’’مجھ کو آپ سے اُمید تو نہیں ہے کہ آپ مجھ کو نوکری دیں گے‘‘۔ ہر شخص جانتا ہے کہ ایسی مہمل درخواست کا کیا اثر ہوگا بجز اس کے کہ نامنظور ہو، بلکہ غالباً اور اُلٹا عتاب و عقاب ہونے لگے۔ اسی طرح دِل میں جب قبولیتِ دُعا کا یقین نہ ہو تو اللہ تعالیٰ تو دِل کی کیفیات پر مطلع ہیں، دِل میں تردّد رکھنا ان کے نزدیک ایسا ہی ہے جیسے ۔ُحکاّمِ مجازی کے رُو برو زبان یا قلم سے تردّد کا اظہار کرنا، پھر ایسی دعا کیسے قبول ہونے کے لائق ہے؟
اور من جملہ شرائط قبولِ دُعا کے یہ بھی ہے کہ خوراک و پوشاک حرام سے بچے، اس شرط کو تو آج کل بالکل محال سمجھ رکھا ہے اور روزیٔ حلال کو عنقا قرار دے رکھا ہے، یہ خیال بالکل غلط ہے۔
شریعتِ مطہرہ نے وجوہ و طرقِ معیشت میں بہت وسعت دی ہے، جو چیز موافق فتوائے ۔ُعلمائے شرع کے حلال ہو وہ حلال ہے، اور تقویٰ کا درجہ تو بہت بڑھا ہوا ہے، وہ مقام صدیقین کا ہے، عوام کے لیے فتوے پر عمل کرلینا جائز ہے۔
ذکر اللہ: ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہﷺ نے: ’’مثال اس شخص کی جو ذکر کرتا ہو اپنے ربّ کا اور اس شخص کی جو ذکر نہ کرتا ہو، مثال زندہ اور مردہ کی سی ہے‘‘۔1
ابنِ عمر ؓ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہﷺ نے: ’’زیادہ کلام مت کیا کرو بجز ذکر اللہ کے، کیوںکہ زیادہ کلام بجز ذکر اللہ کے قساوتِ قلب کا سبب ہے، اور سب سے زیادہ دور اللہ تعالیٰ کے وہ قلب ہے جس میں قساوت ہو‘‘۔ 2
عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہﷺ نے: ’’ہر چیز کے لیے صیقل ہے اور دِلوں کا صیقل ذکر اللہ ہے‘‘۔3
عربی طریقۂ تصوّف: ان احادیث سے ذکر اللہ کی بزرگی کس درجہ ثابت ہوتی ہے، صوفیائے کرام ؒ کے طریقے کی خوبی