ف: قرآنِ مجید میں ہے کہ جب تم کو کوئی سلام کرے تو اس سے اچھا جواب دو یا ویسا ہی لوٹا دو، اس سے معلوم ہوا کہ سلام کے جواب میں سر ہلا دینا یا ہاتھ اُٹھا دینا ہی کافی نہیں۔ اسی طرح سلام کا صیغہ حدیث شریف میں ہے: ’’اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ‘‘ یا اس کے قریب قریب الفاظ آئے ہیں، ’’آداب، بندگی، کورنش‘‘ یہ سب بدعتِ سیئہ ہیں۔ خیر اگر کوئی سلام کے لفظ سے بہت ہی ۔ُبرا مانے تو اس کو حضرت سلامت یا تسلیم یا تسلیمات کہنے تک گنجایش معلوم ہوتی ہے۔ چھینکنے والے کا جواب یعنی کہ جب کوئی چھینک لے کر ’’اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ‘‘ کہے، تو اس کے جواب میں ’’یَرْحَمُکَ اللّٰہُ‘‘ کہنا چاہیے۔
کسی کو ایذا و ضرر نہ دینا: فرمایا رسول اللہﷺ نے:
’’لَا ضَرَرَ وَلَا ضِرَارَ‘‘
نہ ایک کی طرف سے ۔َضرر پہنچنا چاہیے، نہ دونوں طرف سے۔ 1 (1 دار قطنی)
اور ارشاد فرمایا آپﷺ نے: ’’مسلمان تو وہ شخص ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے لوگ بچے رہیں‘‘۔ 1 (1 بخاری)
ف: دوسری حدیث سے مسلمان کو، پہلی حدیث سے عام مخلوق کو ضَرر پہنچانے کو منع فرمایا، گو وہ زبانی ہو مثلاً: کسی کو گالیاں دینا، غیبت و شکایت کرنا، یا ہاتھ سے مارنا، ظلم کرنا۔
اجتناب عن اللّہوِ: عقبہ بن عامر ؓ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہﷺنے: ’’جتنی چیزیں لہو و لعب کی ہیں سب بے ہودہ ہیں، مگر ایک تو کمان سے تیر پھینکنا، دوسرے گھوڑے کو سدھانا، تیسرے اپنی بیوی سے ملاعبت کرنا، یہ تینوں کھیل فائدے کے ہیں‘‘۔ 1 (1 ترمذی)
ف: یعنی اکثر دِل بہلانے کی چیزیں وقتِ عزیز کو ضایع کرنے والی اور لغو ہیں، مگر یہ تینوں یا جو اِن کے مثل ہو، جس میں کوئی معتد بہ فائدہ ہو، ان کا مضایقہ نہیں۔ یہاں سے شطرنج، گنجفہ، چوسر اور ہزاروں لغویات کا حال معلوم ہوسکتا ہے۔ بلکہ ان کے آثارِ مذمومہ میں اگر غور کرکے دیکھا جائے تو باطل سے بڑھ کر کسی لقب کے مستحق نہیں، اور جو فائدے اس میں بیان کیے جاتے ہیں، ۔ُعقلا کے نزدیک دور مشت سے زیادہ ان کی وقعت نہیں ہے۔