کردے، اگر پاک ہونے کے بعد ایک روز کی بھی غفلت ہوگی تو پھر اَز سرِ نو شروع کرنا پڑے گا اور نفاس عذر نہیں ہے، یعنی بعد فراغِ نفاس پھر اَز سرِ نو سلسلہ شروع کرنا پڑے گا۔
بدن چھپانا: ارشاد فرمایا رسول اللہﷺ نے: ’’جو شخص اللہ تعالیٰ اور روزِ قیامت پریقین رکھتاہو وہ حمام میں بے لنگی باندھے نہ جائے‘‘۔ 1 (1 ترمذی)
اور معاویہ بن حیدہ ؓ سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ (ﷺ)! ہمارے چھپانے کا بدن ہم کس موقع پر چھپاویں اور کس موقع پر ویسے ہی چھوڑ دیں؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’سب سے اپنے ستر کو محفوظ رکھو، بجز بی بی کے یا لونڈی کے‘‘ انھوں نے سوال کیا کہ ’’کبھی ایک شخص دوسرے کے پاس رہتا ہے‘‘ (یعنی ہر وقت ایک جگہ رہنے سے محافظت مشکل ہے)۔ آپﷺ نے فرمایا کہ ’’اگر تم سے یہ بات ہوسکے تو اس کو کوئی نہ دیکھے تو ایسا ہی کرو‘‘۔ انھوں نے سوال کیا کہ ’’کبھی آدمی تنہائی میں ہوتا ہے؟‘‘ آپﷺ نے فرمایا: ’’پھر اللہ تعالیٰ سے حیا کرنا مناسب ہے‘‘۔ 1 (1 ترمذی)
پردے کے ضروری اَحکام: یہ جو فرمایا کہ بے لنگی باندھے حمام میںنہ جائے، وجہ اس کی یہ ہے کہ حمام میں کئی کئی آدمی یکجا غسل کرتے ہیں، اس لیے پردہ واجب ہے، اور لونڈی سے جو بے پردہ ہونے کی اجازت دی اس سے مراد وہ لونڈی نہیں جو ہندوستان میں اکثر بڑے گھروں میں پائی جاتی ہے، کیوںکہ یہ تو شرعی قاعدے سے آزاد ہیں، نہ ان سے جبراً خدمت لینا جائز ہے، نہ ان سے خلوت اور صحبت کی اجازت، بالکل اجنبی آزاد عورت کے مثل ہیں۔ نوکروں کی طرح ان سے برتاؤ کرنا چاہیے۔ خدمت بھی رضا مندی سے (خواہ تنخواہ پر رضا مند ہوں یا کھانے کپڑے پر) ہونا چاہیے، اور ان کو اختیار ہے جس سے چاہیں نکاح کریں، جب چاہیں جہاں چاہیں چلی جائیں، ان پرکوئی بس نہیں ہے۔
اور حدیثِ مذکورہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ تنہائی میں بھی بلاضرورت برہنہ ہونا (خواہ کل بدن سے یا بعض بدن سے جس کا چھپانا مجمع میں واجب ہے) جائز نہیں ہے، اللہ تعالیٰ سے اور ملائکہ سے حیا کرنا چاہیے، کتبِ فقہ میں بدن چھپانے کے مسائل بہ تفصیل لکھے ہیں۔ یہاں اس قدر سمجھ لینا ضروری ہے کہ مرد کو ناف سے گھٹنے تک بدن ڈھانکنا ضروری ہے، اور عورت کو سر سے پاؤں! تک، ہاں جس کو نامحرَم کے رُو برو کسی ضرورت سے سامنے آنا پڑتا ہو اس کا چہرہ اور دونوں ہاتھ