نفس کی شرارت ہے کہ بزرگی کے پردے میں لذتِ نفس کو پورا کیا جاتا ہے یا اثنائے سلوک میں کوئی دھوکا ہوگیا ہے جس کا منشا جہل اور دوسروں سے اپنے کو بڑا سمجھنا ہے، ورنہ کسی کامل جامعِ شریعت و حقیقت سے رجوع کرتے غلطی نکل جاتی، اللہ تعالیٰ سب آفات سے محفوظ رکھے۔ جو لوگ اب نماز کی طرف متوجہ ہوں ان کو پچھلی ناغہ نمازیں قضا کرنی چاہییں وہ صرف توبہ سے معاف نہیں ہوتیں، اور قضا کے لیے یہ ضروری نہیں کہ فجر کی قضا فجر کے وقت ہو، ظہر کی قضا ظہر کے وقت ہو، یہ کچھ ضروری نہیں، بجز تین وقتوں کے اور تمام اوقات میں قضا جائز ہے، وہ تین وقت یہ ہیں: ۱۔ آفتاب نکلتے وقت۔ ۲۔ جب آفتاب برابر ہو۔ ۳۔ جب آفتاب چھپنے لگے۔ البتہ اس میں اکثر لوگوں کو آسانی ہوتی ہے کہ ایک ایک ادا نماز کے ساتھ ایک ایک نماز پڑھ لیا کریں۔
صدقہ: ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہﷺ نے: ’’جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے مال دیا ہو اور وہ اس کی زکاۃ ادا نہ کرتا ہو، قیامت کے روز اس کا مال ایک گنجے سانپ کی شکل بنادیا جائے گا، جس کی آنکھوں پر نقطے ہوں گے (ایسا سانپ بڑا زہریلا ہوتا ہے)، وہ اس کے گلے میں بہ منزلہ طوق ڈالا جائے گا پھر وہ اس شخص کی باچھیں پکڑے گا اور کہے گا کہ میں تیرا مال ہوں، تیرا خزانہ ہوں‘‘۔ پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: {وَلَا یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ یَبْخَلُوْنَ} الٓایۃ، اس میں بھی مال کے طوق ہونے کا ذکر ہے۔ 1 (1 بخاری)
زکاۃ نہ دینے والوں کے خیالات کی عقلی طور پر اصلاح: اکثر مال دار زکاۃ دینے میں کوتاہی کرتے ہیں، ڈرتے ہیں کہ روپیہ کم ہوجائے گا۔
صاحبو! اوّل تو اس کا تجربہ ہوچکا ہے کہ زکاۃ و صدقہ دینے سے مال کبھی کم نہیں ہوتا، اس وقت اگر کسی قدر نکل جاتا ہے تو کسی موقع پر اس سے زیادہ اس میں آجاتا ہے، حدیث شریف میں بھی یہ مضمون موجود ہے۔
دوسرے اگر بالفرض کم ہی ہوگیا تو کیا ہے، آخر اپنے حظوظِ نفس میں ہزاروں روپیہ خرچ کر ڈالتے ہو، وہ بھی تو کم ہی ہوتا ہے، سرکاری ٹیکس اور محصول میں بہت کچھ دینا پڑتا ہے اور نہ دو تو باغی، مجرم قرار دیے جاؤ۔ آخر اس میں بھی تو گھٹتا ہے، پھر اس کو خدائی ٹیکس سمجھو۔
تیسرے یہ کہ یہاںگو کم ہوتا ہوا نظر آتا ہے مگر وہاں جمع ہوجاتا ہے، آخر ڈاک خانہ میں، بینک میں روپیہ جمع کرتے ہو،